کیا عورت کی ملازمت سے معاشرہ ترقی کر تا ہے؟

اسامہ شعیب

انیسویں صدی کے آس پاس یورپ میں تحریکِ آزادیِ نسواں کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے وہاں بھی عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھااورکنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی۔ تحریک ِآزادی نسواں کے علم برداروں نے اسے مرد کی ’حاکمیت‘ اور عورت کی ’غلامی‘ سے تعبیر کیا اور اس کا حل پیش کیا کہ انہیں بھی گھر سے باہر نکالا جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ معاشرت، تعلیم، سیاست، صنعت و حرفت، ملازمت، غرض ہر شعبۂ زندگی میں حصہ لے سکیں۔

مساوات کے لیے پہلی آواز میری وولسٹن کرافٹ (Mary Wollstone Craft,1759-1797) نے اپنی کتاب (Vindication Of The Rights Of Women,1972)کے ذریعہ اٹھائی اور اس میں لکھا:

’’تعلیم،روزگار اور سیاست کے میدانوں میں عورتوں کی وہی حیثیت تسلیم کی جائے جو مردوں کو حاصل ہے۔ مزید یہ کہ دونوں صنفوں کے لیے اخلاقی معیار بھی یکساں ہونا چاہیے۔

امریکہ میں 1960ء کی دہائی میں تحریک ِآزادیِ نسواں کا دوسرا دور شروع ہوا۔بیٹی فرائیڈن (Betty Friedan,1921-2006) کی کتاب (Feminine Mystique,1963)نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔چنانچہ عورتوں میں بغاوت اور تصادم کے نظریات رواج پانے لگے اور اس کے نتیجے میں معاشرے سے گھریلو سکون کاخاتمہ ہونا شروع ہوگیا۔

خواتین کے اس نئے کردار کو متعین کرنے میں تین اصطلاحات نے بھی اہم رول ادا کیا ۔حقوقِ نسواں( Of Women Rights)، مساواتِ مرد و زَن (Gender Equality)اورآزادی (Liberty)۔ ان اصطلاحات سے آگاہی، ترغیب و تعلیم اور اس کے فروغ اور نفاذ میں اقوام متحدہ (1945) کا بہت بڑا کرداررہا ہے۔اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے مختلف جگہوں پر کانفرنس منعقد کرائیں۔

ان سب سے متاثر ہو کر عورت گھر کے مخصوص دائرے اور ذمہ داریوں کو چھوڑ کر مرد کی طرح محنت و مزدوری اور کسبِ معاش کے لیے باہر نکلی اور اس نے سیاسی، معاشی، تعلیمی، سائنسی اور دیگر تمام شعبہ جات میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور مردوں کی برابری کرنے کی کوشش کی۔Kirsten Amundsen کے مطابق:

’’درحقیقت 13 ملین سے زیادہ نوجوان خواتین اس وقت (امریکہ میں) کام پر لگی ہیں، وہ اس وقت ہماری قوت کار کا 40% ہیں۔‘‘

بیسویںصدی کے اخیر میں روس ایک ایسا ملک تھا، جہاںنوکری کرنے والی عورتوں کا تناسب دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہا “Tatyana Mamonova” لکھتے ہیں کہ:

’’جدید صنعتی معاشروں میں روس ایک ایسا ملک ہے جہاں گھر سے باہر کا کام کرنے والی خواتین کا تناسب جدید صنعتی معاشروں میں سب سے زیادہ ہے طب، قانون اور انجینئرنگ جیسے پیشوں میں خواتین کا تناسب تمام مغربی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔اسی طرح زراعت، تعمیرات اور میٹل ورکس میں بھی ان کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے‘‘۔

دوسری طرف ایک مصنف “Jacob Young” اسی سلسلہ میں یوں لکھتا ہے:

’’ایک بڑا مسئلہ جس سے روس کی عورتیں دوچار ہیں، وہ ان پر دْوہرا بوجھ ہے، یعنی ملازمت میں سارا وقت صرف کرنا اورساتھ ہی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانا۔ عورتوں کے دن کا آغاز ایک مخصوص طریقے سے ہوتا ہے، صبح کو دفتر کے لیے بس پکڑنا اور ساتھ ہی روز مرہ ضروریات کے لیے دوپہر کے کھانے کے وقت لمبی قطار میں کھڑا ہونا، کام کے اختتام پر مزید خریدوفروخت کرنا، پھر رات کا کھانا تیار کرنا، بچوں کو سلانا اورگھر کی صفائی کرنا۔ اگرچہ بعض خاوند ان چیزوں میں تھوڑا بہت ہاتھ بٹا دیتے ہیں وہ روسی حکومت کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر لکھتا ہے کہ حکومت کی حالیہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ بیوی ہفتے میں چونتیس(34) گھنٹے گھریلو کام کرتی ہے جب کہ خاوند صرف چھ(6)گھنٹے کام کرتا ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کی طرف سے دوہری ذمہ داریاں ادا کرنے اور مردوں کے کام میں ہاتھ بٹانے کے باوجود، انہیں ایک ہی قسم کے کام پر معاوضہ مردوں سے نسبتاً کم ملتا ہے، یعنی ایک ہی ملازمت یا عہدہ پر مامور ایک مرد اور عورت کی تنخواہوں میں فرق کیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں ہے۔

’’ایک ہی قسم کی ملازمت میں خواتین مردوں کے مقابلے میں کم آمدنی حاصل کر پاتی ہیں، مثال کے طور پر1970ء میں عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کی اوسطاً تنخواہ 59%تھی۔‘‘

عورت کو اپنے اس موجودہ کردار سے کتنا اور کیا فائدہ ہوا؟ایک رپورٹ کے درج ذیل الفاظ خود حقیقت بیان کر رہے ہیں:

دنیا کی آبادی میں عورتوں کی تعداد 51% ہے۔ ان میں سے 66% ملازمت کرتی ہیں، مگرصرف10% ہی آمدنی حاصل کرپاتی ہیں اور01% سے بھی کم جائیداد کی مالک ہوتی ہیں۔ (اقوام متحدہ: جنوبی ایشیا21ویں عالمی کانفرنس2001ء)

آج امریکہ کے سلیم الطبع دانشور 1950ء کی دہائی کو امریکی معاشرے کے لیے ماڈل قرار دیتے ہیں۔ ان کا فلسفہ یہی ہے کہ گھر عورت کے لیے جنت کی طرح ہے۔ معاشرے کا اجتماعی سکون گھریلو ماحول کو پرسکون رکھے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے عورت کا گھر پر رہنا ضروری ہے۔ ایک امریکی خاتون سلویا این ہیولٹ (Sylvia Ann Hewlett,1946) جو امریکہ کی ’اکنامک پالیسی کونسل‘ کی ڈائریکٹر ہیں۔اپنی کتاب “A Lesser life: The Myth of Women’s Liberation”

یعنی ’’حیاتِ کمتر: عورتوں کی آزادی کا واہمہ ‘‘ میں ایک باب کا عنوان ہے Ultra-domesticity: The return to Hearth and Home”، یعنی ’’بے تحاشا خانہ داری؛ گھر کی طرف مراجعت‘‘ہے ۔اس میں وہ ایک جگہ لکھتی ہیں:

’’ریاست ہائے متحدہ کا منظر ڈرامائی طور پر مختلف تھا۔ 1950ء کی دہائی میں کالجوں سے فارغ التحصیل وہ نوجوان خواتین جو بچے پیدا کرنے کی عمر رکھتی تھیں ، ان میں ملازمت کی شرح عورتوں کے کسی بھی دوسرے گروہ سے کم تھی۔ اس کی سادہ سی و جہ یہ تھی کہ کالجوں سے فارغ التحصیل عورتوں کی شادیاں اکثر خوشحال مردوں سے ہوجاتی تھیں۔ پچاس کے عشرے میں اگر خاندان اس بات کا متحمل ہوتا تو بیوی گھر ہی میں رہتی تھی‘‘۔ (صفحہ:153)

اسی طرح سوویت یونین کے آخری صدر ’میخائل گوربا چیو‘ (Mikhail Sergeyevich Gorbachev,1931)نے اپنی کتاب Perestroika میں عورتوں کے بارے میں ایک باب Status of Womenکے نام سے قائم کیا ہے ۔اس میں لکھا :

’’ہماری مغرب کی سو سائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا۔اس کے نتیجے میں ہم نے بے شک کچھ معاشی فوائد حاصل کیے اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوا، اس لیے کہ مرد اور عورت دونوں کام کر رہے ہیں لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا اور اس کے نتیجے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، وہ ان فوائد کے مقابلے میں زیادہ ہیں جو ہمیں پروڈکشن میں اضافے کی وجہ سے حاصل ہوئے۔لہٰذا میں اپنے ملک میں ’پروسٹرائیکا‘ نام سے ایک تحریک شروع کر رہا ہوں۔جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے،اس کو کیسے گھر میں واپس لایا جائے؟اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے،ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو چکا ہے،اسی طرح پوری قوم تباہ ہو جائے گی۔‘‘

قومی ترقی کے لیے کیا عورتوں کا ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ناگزیرہے؟ یہ ضروری نہیں ہے۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 1990ء سے پہلے وہاں کی انڈسٹری ،صنعتی ترقی اور اشیا ء نے امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔کیوں کہ اس وقت تک وہاں کا معاشرہ مغرب کی Feminism تحریک کے فاسداثرات سے محفوظ تھا۔ حیران کن صنعتی ترقی کے باوجود جاپانی معاشرے نے اپنی قدیم روایات اور خاندانی اَقدار کو قابل رشک انداز میں برقرار رکھاتھا۔ امریکہ اور یورپی ممالک جاپان کے ’مینجمنٹ‘ کے اصولوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی نصابی کتب میں جاپان کے اْصولوں کو شامل کر لیا۔

1996ء میں ہفت روزہ ‘ٹائم’ میں ٹویوٹا کمپنی کے چیئرمین کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں امریکی صحافی نے ٹویوٹا میں عورتوں کی تعداد نہایت کم ہونے کی وجہ دریافت کی تھی۔ اس کے جواب میں ٹویوٹا کے چیئرمین کا جواب نہایت دلچسپ تھا، اس نے کہا تھا:

یعنی’’ہمارے ہاں پہلے ہی سجاوٹی پھول کافی ہیں۔‘‘

آخر کار امریکہ اور یورپی ممالک جب جاپانیوں کا مقابلہ نہ کرسکے تو1990ء کے عشرے میں انہوں نے مسلسل جاپان پر اپنے ملک کو Open کرنے،معاشرے میں امریکی فلمیںاور ثقافتی پروگرام عام کرنے اور ملازمتوں میں ’مساوی حقوق‘دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ صدر ریگن اور جارج بش نے جاپانی رہ نماؤں سے ہر ملاقات میں اس شرط کا اعادہ کیا کہ جاپان سے ہر سال ایک مخصوص تعداد میں اَفراد امریکہ اور یورپی ممالک کی سیر کریں۔ معروف صنعتی فرموں کو مجبور کیا گیا کہ و ہ اپنے ایگزیکٹوز کو یورپ اور امریکہ کی سیر پر جانے کی ترغیب دیں۔ سینئر مینیجرزکے لئے دیگر سفری الاؤنس کے ساتھ ایک نوجوان دوشیزہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے الاؤنس بھی منظورکرائے گئے۔ امریکی ہوٹلوں نے جاپانی سیاحوں کو رعایتی نرخ پر سہولیات اور شباب و کباب کے تعیشات مہیا کیے۔ ان عنایتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1990ء کے بعد جاپان کی صنعتی ترقی کی رفتار پر بریک لگ گیا اوراب اس کی مایہ ناز ثقافتی اَقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔ نوجوانوں میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوااوران میں محنت کی بجائے فیشن پرستی، آزاد روی اور آوارگی میں اضافہ ہو تاجا رہا ہے۔اس سے ہم لوگوں کو سبق لینا چاہیے۔ہندوستان میں بھی عورتیں ملازمت کے حصول کے لیے ہر ممکن کو شش کرتی ہیں۔

گلوپ ایجنسی (Gallup Agency)کی 2010کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں عورتوں کی کل تعداد586 میلین ہے۔ان میں سے 112میلین عورتیں کسی نہ کسی طرح کی نوکری کرتی ہیں۔ زراعت میں68.5% ،تمباکوپروڈکٹس اور کپڑوں کی صنعت میں10.8% ،کنسٹرکشن میں 5.1% ،ٹیچنگ میں3.8% ،تجارت میں2.1% ، گھریلو کاموں میں 01.6%،ذاتی نوکری میں 01.5%، ہیلتھ کیر میں01.1% اور بیوروکریسی میں01% عورتیں کام کر رہی ہیںاور اس میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔

عورتوں کی ملازمت کے نقصانات

جن ممالک میںسیاست اور ملازمت میں عورتوں کا تناسب پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے، وہاں خاندانی اَقدار کی تباہی نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ وہاں عورتیں گھر کو’جہنم‘ سمجھتی اور ماں بننے سے گریز کرتی ہیں اور بچوں کی نگہداشت پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔انہیں گھر سے باہر کی زندگی کا ایسا چسکا پڑا ہوا ہے کہ وہ گھریلو زندگی کو اَپنانے کے لیے تیار نہیں۔ بے نکاحی ماؤں اورلاولد بچوں کا سب سے زیادہ تناسب مغرب میں ہے اور جو لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔پروفیسر ثریا بتول کے مطابق:

’’(مغرب میں) اسقاط حمل جائز قرار پانے کے باوجود ناجائز اور غیر قانونی بچوں کی کثرت ہو رہی ہے۔وہاں بچوں کی کم از کم 30% تعداد غیر قانونی ہے۔ یہی صورت حال فرانس میں ہے کہ اس کا ہر پانچواں بچہ ناجائز ہے۔ جب کہ برطانیہ میں ہر چوتھا بچہ غیر قانونی ہے‘‘۔

مغربی ممالک میں طلاق کی شرحوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔2012کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 54.4%،جرمنی میں39.4%، روس میں43.3%، ڈنمارک میں44.5% اوربرطانیہ میں42.6% طلاق کا تناسب تھا۔

شادی کو طلاق سے بچانے کے لیے برطانیہ میں ہونے والے1997ء کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے اپنے ووٹرو ںکے لیے جن مراعات کا اعلان اپنے انتخابی منشوروں کیا۔ان میں یہ بھی تھا کہ:

۱۔ جو لوگ اپنے بزرگوں (والدین وغیرہ) کو اولڈ ہاوسز کی بجائے اپنے گھروں میں رکھیں گے، ان کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی۔

۲۔ جو شادی شدہ جوڑا اپنی رفاقت کے دس سال مکمل کرے گا اْسے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔

تحریک ِآزادی نسواں اور مساوی حقوق کے خوب صورت نعرے مغربی ممالک کو معاشی طور پر بھی متاثر کیا۔ 1990ء کے بعد سے یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ برطانیہ، ناروے، سویڈن وغیرفلاحی اخراجات کے بجٹ میں مسلسل کمی کر رہے ہیں کیوں کہ اس سے ان کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔اس بجٹ کا بیشتر حصہ بچوں کے Centres Care Child کاقیام، بے نکاحی ماؤں کی مالی امداد اور ذہنی بیماروں کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔یہاں شیزوفینیا (Schizophrenia) نامی بیماری عام ہے جو خراب خاندانی حالات کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔اسی وجہ سے لائف انشورنس کے لیے ریاست کو عورتوں پر نسبتاً زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مغربی ممالک میں عورتوں پر ہونے والے مجموعی اخراجات کا حجم قومی ترقی میں ان کے شراکتی حصہ سے کہیں زیادہ ہے۔اگر ترقی کی اس دوڑ میں عورت اپنا کردار پسِ پردہ کرلے تو کیا شرح ملازمت میں کمی آجائے گی؟ نہیں، تاہم یہ ضرور ہوگاکہ فیشن کی چکاچوند ماند پڑ جائے گی اور10 /ارب ڈالر سے زائد میک اپ اور فیشن کی صنعت سرد ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ تعلیم اورملازمت میں آئیں تو فیشن کا کاروبار بڑھا۔ اس سے گھر کی معیشت پر بوجھ بڑھا اور معاشرے میں مصنوعی مسابقت کا رجحان بڑھا،ساتھ ہی خواتین جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اعصابی مسائل کا شکار ہوئیں اورخوف و ہراس اور عدم تحفظ کے سبب نفسیاتی مسائل سامنے آئے۔دیگر نقصانا ت میں عورت کا جنسی زیادتی،چھیڑ چھاڑ،فطرت کے خلاف کام کرکے اپنی نسوانیت اور جاذبیت کو کھو دینا،بچوں کا ماں کی شفقت و محبت سے محروم رہ جانا اور شوہر کو وقت نہ دے پانا وغیرہ ہے۔

عورت کی ملازمت کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ مردوں کی بے روزگاری میں خطرناک اِضافہ ہوگیا ،ساتھ ہی بچوں کی تعلیم وتربیت بھی متاثر ہوئی اور بچوں میں جرائم کا تناسب بڑھ گیا کیوں کہ مائیں جس طرح بچوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتی ہیں ، مرد وہ توجہ نہیں دے پاتے ہیں۔

بعض حضرات عورت کی ملازمت کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم اپنی نصف آبادی کو’ عضوِ معطل ‘رکھ کر ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔یہ بات ایسے کہی جاتی ہے گویا ملک کے تمام مردوں کو نوکری دے دی گئی ہے اوراب بھی کام بچا ہوا ہے جس کو کرنے والا کوئی نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ پہلے مردوں کی ’نصف آبادی‘ کو ہی نوکری مہیا کرا دی جائے پھر سوچا جائے کہ باقی نصف آبادی’ عضوِ معطل ‘ہے یا نہیں۔

ملک کی ترقی میں عورت کا شاندار کردار یہ ہے کہ وہ خاندانی نظام کو اس انداز میں سنبھالے کہ اجتماعی طور پر معاشرہ مستحکم ہو۔ورنہ گھر کو اْجاڑ کر دفتروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوںکے ماحول کو’ رونق‘ بخشنے سے ترقی نہیں کی جا سکتی ہے ۔ عورتیں اعلیٰ تعلیم ضرور حاصل کریںمگر ان کی پہلی ترجیح خاندانی زندگی ہو۔ اگر وہ تعلیم حاصل کریں تو ان کا مقصد کسی کی پرائیوٹ سیکریٹری،اسٹینو ٹائپسٹ،سیلز گرل ،ایر ہوسٹس اور ماڈل گرل بننا نہ ہو بلکہ اپنے گھر کو بجٹ کے مطابق مناسب ڈھنگ سے چلانا، اپنے والد،بھائی ،شوہر کا حق ادا کرنا اور اپنے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کرنا اوران کو علم سے منور کرناہو۔ گھر معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہوتا ہے توکیا اگر گھرمیں ترقی ہو رہی ہے تو معاشرہ ترقی نہیں کرے گا؟اور اس میں عورت کا کردار نہ ہوگا؟l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں