[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

کیا ہمارا پیسہ بینکوں میں محفوظ ہے؟

سراج الدین فلاحی

آج کل بینکنگ سیکٹر کے جو حالات ہیں ان سے تقریباً ہر شخص خوفزدہ ہے اور اس کے دل میں مستقل ایک سوال گردش کرتا رہتا ہے کہ مجھے اپنا پیسہ بینکوں میں رکھنا چاہیے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر انڈین بینک ڈوب گئے تو کیا بینکوں میں رکھا ہوا ہمارا اور آپ کا پیسہ بھی ڈوب جائے گا جو ہم اور آپ نے بڑی محنت سے کمایا ہے اور جوڑ جوڑ کر بینکوں میں جمع کیا ہے. آیا وہ پیسہ بینک آپ کو واپس کرئے گا یا بینک کے ساتھ وہ بھی ڈوب جائے گا؟ یا اگر ہمارا پیسہ بینکوں میں محفوظ ہے تو آخر کس حد تک؟ جس طرح بینکوں کو آپس میں ضم کیا جا رہا ہے اس سے تو یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں ہمارے ملک کا بینکنگ سسٹم collapse تو نہیں کر رہا ہے؟

مندی کے اس دور میں جہاں کئی بینک دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں وہیں PMC اور Yes bank بینک جن کا شمار اچھے بینکوں میں ہوتا ہے انہوں نے تو ایمرجنسی نافذ کر دی ہے. PMC بینک کے تقریباً ساڑھے سولہ لاکھ اکاونٹ ہولڈرس اپنے پیسوں کی واپسی کے لئے ممبئی کی سڑکوں پر جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ بینک میں رقم نہیں ہے اور رقم نہ ہونے کی وجہ سے آر بی آئی نے بینک کھاتے داروں کو چھ ماہ میں صرف چالیس ہزار روپے نکالنے کی اجازت دی ہے. یہ سن کر کئی افراد جن کی ایک بڑی رقم بینک میں جمع ہے، وہ یا تو خودکشی کر رہے ہیں یا دل کا دورہ پڑنے سے لقمہ اجل بن رہے ہیں. اسی طرح Yes bank جس کا شمار پانچ بڑے پرائیویٹ بینکوں میں ہوتا ہے اس نے بھی ایک مہینہ میں اپنے کھاتے داروں کے لیے رقم نکالنے کی حد صرف پچاس ہزار فی ماہ کر دیا ہے اور اس کے شئیر کی قیمت جو پچھلے سال 246 روپیہ فی شئیر تھی ابھی صرف 16 روپیہ فی شئیر تک گر گئی ہے جس کے سبب کھاتے داروں کی ایک بڑی تعداد ATM کے باہر لمبی لائنوں میں کھڑی نظر آ رہی ہے. اس لئے دیگر بینکوں کے کھاتے داروں کو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی ایسا نہ ہو اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جس طرح تمام بینکوں کی share price لڑھک رہی ہے، اس سے عوامی تشویش اور ڈر میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ کہیں ہم بینکنگ یا فنانشیل کرائسیس کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ہیں؟

اس دور میں ہر شخص اپنے تھوڑے بہت پیسے اپنی کمائی سے بچا کر رکھتا ہے تاکہ مصیبت اور ناگہانی آفت کے وقت کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے. یہ سوچ کر کہ ان کے پیسوں کے لیے سب سے محفوظ جگہ بینک ہے وہ اپنے پیسوں کو بینک میں جمع کرتا ہے. جبکہ بینکوں کا حال یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں ان کا Non Performing Assets (NPA) بڑھتا جا رہا ہے. NPA اس برے لون کو کہتے ہیں جو ڈوب چکا ہے یا بینکوں میں اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے. این پی اے 2011 میں 2.4 فیصد سے بڑھ کر 2019 میں 9.3 فیصد ہو گیا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ بینکوں میں تقریباً 9 لاکھ 33 ہزار کروڑ روپے کے لون کے واپس آنے کی امید ختم ہو چکی ہے. انڈیا کے مرکزی بینک آر بی آئی کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں ہی 5 لاکھ 55 ہزار تین سو کروڑ روپے کا لون رائٹ آف کیا گیا ہے. رائٹ آف کا مطلب لون کی معافی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان لون کا بینکوں میں واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے.

اسی طرح بینکوں میں ہونے والے فراڈ میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے. 2015 میں بینکوں کے ساتھ ہونے والے فراڈ کے 4693 کیسیز تھے جو 2019 میں بڑھ کر 6800 سے بھی زائد ہو گئے یعنی بینکوں سے پیسہ لے کر فرار ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جن میں بطور خاص بڑے بڑے بزنس مین اور صنعت کار شامل ہیں.

حالیہ دنوں میں ہی FITCH نامی عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی جس کا شمار دنیا کی تین چوٹی کی ایجنسیوں میں ہوتا ہے اس نے انڈین بینکنگ سسٹم پر جو آنکڑے دیے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں. اس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے بینک تقریباً 50 بلین ڈالر کے سرمایہ کی کمی کا سامنا کر سکتے ہیں. اسی طرح Moody’s Asia Pacific Ltd بھی ایک کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ہے، جو مختلف طرح کی ریسرچ کے ذریعے بینکوں اور فرموں کے Risk کا تجربہ کرتی ہے اور اس پر اپنی Credit Opinion شائع کرتی ہے. اس نے Asia Pacific Economies میں تیرہ ملکوں کے بینکوں کی جو درجہ بندی کی ہے، اس میں انڈین بینکنگ سسٹم کو انڈونیشیا کے ساتھ سب سے زیادہ غیر محفوظ بتایا ہے. موڈیز کے مطابق انڈین بینک اپنے کم سرمایہ کے سبب سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں. ابھی چند روز قبل معاشیات میں نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی نے بھی مجروح ہوتے انڈین بینک پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستانی بینک کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تیزی سے دیوالیہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اس لیے اس میں زبردست اصلاحات کی ضرورت ہے.

ہندوستانی بینکوں کی خراب صورتحال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ Housing Development Finance Corporation (HDFC) بینک کے چئیرمین دیپک پاریکھ جو ایک بڑے بینکر کے طور پر مشہور و معروف ہیں انہوں نے چند روز قبل ایک بڑا بیان دیا ہے کہ ملک کی بڑی کمپنیوں کو دیے گئے بڑے بڑے لون صرف NPA میں ہی نہیں ڈالے جا رہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر لون معاف بھی کیے جا رہے ہیں. اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی گاڑھی کمائی کے پیسوں کی حفاظت کا کوئی مضبوط اور مستحکم فنانشل سسٹم ہمارے بینکوں کے پاس نہیں ہے. دیپک پاریکھ کا مذکورہ بالا بیان اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ چند روز قبل آر ٹی آئی کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے بینک SBI نے 220 بڑے قرض داروں کو دیے گئے 76 ہزار کروڑ روپے کا لون ابھی حال ہی میں NPA میں ڈال دیا ہے. اگر ملک کے تمام شیڈول کمرشیل بینکوں کو ملا کر دیکھیں گے تو یہ رقم بہت زیادہ ہو جائے گی. گویا بینک بھی یہ بات مان چکے ہیں کہ ان کے ذریعے دیے گئے قرضوں کی وصولی اب ناممکن ہے. قابل غور بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بینک کا چئیرمین اگر اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو مستقبل میں دیگر بینکوں کی صورتحال بھی کافی تشویشناک ہو سکتی ہے. ذرا ایک منٹ ٹھہرئیے، اب تصور کیجئے کہ کارپوریٹ سیکٹر کو جو لون دیا گیا ہے، بینک اسے تو NPA میں ڈالے چلے جا رہے ہیں لیکن بینکوں میں عام لوگوں کی محنت سے کمائی گئی جو بچت ہے، اس کی حفاظت کا کوئی مستحکم نظام بینکوں کے پاس نہیں ہے. بینکوں میں تو لوگ اپنا پیسہ اس لیے رکھتے ہیں تاکہ چوری اور ضیاع سے بچا سکیں لیکن آج کل تو بینکوں سے ہی پیسے چوری ہو رہے ہیں. چنانچہ اس پورے معاملے پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے بینکنگ سسٹم ہی کے ذریعے ہمارے پیسوں کی لوٹ گھسوٹ چل رہی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ فاسسٹ حکومت ہمارے پیسوں کو انسانیت سوز کھلے دشمن عناصر کارپوریٹ سیکٹر پر لٹا رہی ہے. ایچ ڈی ایف سی (HDFC) جو کہ ایک پرائیویٹ بینک ہے دیپک پاریکھ ہی اس کے چیئرمین ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے یہ بینک تو اب اپنے کھاتے داروں کے Passbook پر اسٹیمپ لگا کر یہ بتانے لگا ہے کہ اگر بینک ڈوبتا ہے تو اس کے اکاونٹ ہولڈروں کو DICGC کے ضابطے کے تحت صرف ایک لاکھ روپے تک ہی ملیں گے گرچہ بینک میں جمع رقم لاکھوں اور کروڑوں میں ہی کیوں نہ ہو.

قابل غور بات یہ ہے کہ Deposit Insurance and Credit Guarantee Corporation (DICGC) جو کہ آر بی آئی کی ایک سبسڈری کمپنی ہے اور بینکوں میں جمع ڈپازٹ پر انشورنس کی نگرانی کرتی ہے، اس کا قیام 1961 میں اس مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا کہ اگر کوئی بینک کسی وجہ سے ناکام، مقروض اور دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتا ہے یا بینک کا لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اکاونٹ ہولڈروں کو ان کا پورا پیسہ تو نہیں ڈوبے گا البتہ 30 ہزار روپے دیے جائیں گے گرچہ بینک میں جمع رقم کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو. DICGC میں 1993 میں تبدیلی لائی گئی اور 30 ہزار رقم کو بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دیا گیا، پچھلے مہینے یعنی فروری 2020 میں پارلیمنٹ میں عام بجٹ پیش کرتے وقت وزیر مالیات نے اس مختصر سی رقم کو بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کر دیا ہے، جبکہ دنیا کے بہت سارے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں کھاتے داروں کا بینکوں میں کل جمع پیسہ insured ہوتا ہے برازیل میں 42 لاکھ روپے، روس میں 12 لاکھ روپے insured ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں اس کی حد صرف ایک لاکھ روپے ہے. یعنی اگر اس وقت آپ کے اکاؤنٹ میں دس، بیس لاکھ یا اس سے بھی زیادہ رقم جمع ہے اور کسی وجہ سے بینک ڈوب جاتا ہے تو آپ کو صرف پانچ لاکھ روپے ہی ملیں گے. اگر آپ کے اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ روپیہ سے کم رقم ہے تو اتنے ہی ملیں گے جتنا پیسہ آپ کے اکاؤنٹ میں ہے. اس بات کی بھی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ پانچ لاکھ روپے کیش میں ملیں گے یا بانڈز یا کسی دوسری شکل میں ملیں گے اور یہ بھی طے نہیں ہے کہ کتنی مدت میں ملیں گے. اس لئے ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا بینکوں میں ہمارا پیسہ محفوظ بھی ہے یا کسی دن بینک اچانک کہ دے گا کہ بینک ڈوب گیا اس لیے اب سارے اکاونٹ ہولڈروں کا پیسہ بھی ڈوب گیا.

عوام کی ایک بڑی تعداد سود کمانے کے لیے بھی اپنا پیسہ بینکوں میں رکھتی ہے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی رہتی ہے کہ پیسہ بھی محفوظ رہے گا اور کچھ نہ کچھ سیونگ اکاؤنٹ پر سود بھی ملتا رہے گا. اس سے قطع نظر کہ سود کھانا حرام ہے، اس پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں. چند روز قبل SBI نے شرح سود میں کمی کا اعلان کیا تھا اس طور پر کہ اگر آپ کے اکاونٹ میں ایک لاکھ روپے سے کم ہیں تو بینک آپ کو 3.25 فیصد کی شرح سے سود ادا کرئے گا اور اگر آپ کے اکاونٹ میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم ہے تو بینک صرف 3 فیصد سود ہی دے گا. سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کہ (Inflation) مہنگائی 4 فیصد سے بھی زیادہ ہے اور بینک میں جمع رقم پر شرح سود صرف 3 فیصد ہے تو بینک میں پیسہ جمع کرنے کے کا کیا مطلب؟ یعنی آپ سود میں جتنا کما رہے ہیں اس سے زیادہ مہنگائی میں گنوا رہے ہیں. گویا بینک میں پیسہ رکھنے سے بجائے فائدہ ہونے کے آپ کا نقصان ہو رہا ہے. اس کو ایک مثال سے سمجھیے، فرض کیجئے اس سال آپ کی تنخواہ میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا اور معیشت میں مہنگائی بھی پانچ فیصد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی آمدنی میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوا.

بینک اس لیے شرح سود کم کر رہے ہیں تاکہ لوگ اپنا پیسہ بینک میں نہ رکھ کر زیادہ سے زیادہ خرچ کریں یا بازار میں سرمایہ کاری کریں تاکہ معیشت میں ڈیمانڈ بڑھے اور مندی کا خاتمہ ہو. یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب بینک کسی کو لون دیتا ہے تو بدلے میں دکان، مکان، کھیت کھلیان وغیرہ کی شکل میں سیکورٹی رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے پیسے کی واپسی کو یقینی بنا سکے. لیکن بینک آپ کے پیسوں کو واپس کرنے کی کوئی گارنٹی نہیں لیتا!!!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں