گردشِ رنگِ چمن

تاج الدین محمد،نئی دہلی

لبِ سڑک ویران پڑی ایک زمین پر دادا کے وقت کی بنی ایک انتہائی مخدوش سی کوٹھری نے اپنا وجود اب تک بچا رکھا تھا۔ کوٹھری کے سامنے ایک برآمدہ تھا عقب میں ایک کنواں تھا۔ نہانے کے لیے ایک چبوترہ بھی بنا ہوا تھا جس کی چہار دیواری کا زیادہ تر حصہ اب گر چکا تھا۔ دالان کی شہتیر ٹوٹ کر کھجور کے ایک تنے کے سہارے ٹکی ہوئی تھی کسی آن بھی آثار قدیمہ کی اس پرانی عمارت کو زمین بوس ہونے کا خطرہ لاحق تھا۔
دادی کہتی تھی جب ہم بیاہ کر آئے تھے اس وقت نوکروں اور گاؤں میں آنے جانے والے مسافروں کے رہنے کے لیے یہ مکان بنایا گیا تھا۔ کھیت کھلیان پر کام کرنے والے دور دراز سے آئے مزدور کبھی کبھار رک جایا کرتے تھے۔ مکان کیا تھا جھونپڑی نما ایک گزر گاہ تھی کبھی کوئی اجنبی پردیسی بھی آکر ٹھہر جاتا، پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو کر چند گھڑی کو آرام کرتا اور سورج ڈھلنے سے پہلے جب دھوپ کی شدت کچھ کم ہو جاتی تو اپنے گھر کی راہ لیتا۔ کوٹھری میں ایک جھلنگ سی کھاٹ پڑی رہتی تھی۔ ایک پرانا تخت بھی تھا جس کی چولیں ڈھیلی ہو گئی تھیں۔ دو عدد لولی لنگڑی کرسیاں بھی تھیں۔ میں نے اس کھاٹ پر شرفو کو دوپہر کے وقت اکثر آرام کرتے دیکھا تھا۔ شرفو ایک بنجارا تھا، بڑا ہی نیک اور محنتی آدمی۔ مجھ سے بڑی انسیت رکھتا تھا۔ وہ ابا کے کھیت میں مزدوری کرتا تھا۔
جہاں تک مجھے یاد ہے بیت الخلا جا بجا مکڑی کے جالوں سے بھرا رہتا تھا۔ یہ پرانے اطوار کا،جس کی غلاظت اوپر سے نظر آتی تھی۔ جمعہ کے دن نیچے پڑی غلاظت کا ڈبہ خالی ہو جاتا تھا۔ میرے پوچھنے پر دادا کہتے کہ مہتر آکر لے جاتا ہے۔ بچپن میں یہ سن کر حیرت نہیں ہوتی تھی لیکن بڑے ہو کر سمجھ آیا کہ جنم جنم سے کمزور، محتاج اور غریب انسانوں نے امراء و رؤساء کی غلاظت صاف کر کے ان کے جینے کے لیے صاف ستھری راہ ہموار کی تھی اور انہیں مہذب بنانے میں اپنی زندگی کھپا دی تھی۔
پھونس کے نیچے سرکنڈے پر دنیا و مافیہا سے بے خبر بہت سے چمگادڑ دن بھر الٹے لٹکے رہتے،جیسے ان کی روح پرواز کر گئی ہو اور ان کا مردہ جسم ڈھانچے کی شکل میں بانس کے پھانس سے چپک گیا ہو۔ مجال ہے جو ایک بھی زمین پر گر جائے؟ یہ عجیب الخلقت مخلوق بچپن کے دنوں میں مجھے انتہائی حیرت زدہ رکھتی تھی۔ سوال کرنے پر دادی کہتی :’’تو آج پھر وہاں گیا تھا تیرے باپ سے تیری شکایت کرنی پڑے گی؟‘‘ ڈانٹ سن کر ہم خاموش ہو جاتے، آئندہ نہ جانے کا عہد کرتے اور معافی مانگ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتے، لیکن مغرب کی اذان کے بعد ہم پھر وہاں حاضر ہوتے۔ ان چمگادڑوں کے جسم میں روح جیسے پھونک دی جاتی اور پھر سب کے سب گویا کسی محاذ پر روانہ ہونے کے لیے لڑاکو طیاروں کی طرح ادھر سے ادھر کھلی فضا میں اڑان بھرتے، کانوں کے پاس سے گزرتے، سائیں سائیں کی آواز نکالتے ہوئے آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتے اور بیت الخلاء کے دریچے سے کہیں غائب ہو جاتے۔
کوئی ایک چھوٹا سا خستہ حال کنواں بھی تھا جس کی میڑھ اب نیچی پڑ گئی تھی۔ کنواں زیادہ گہرا تو نہیں تھا لیکن برسات کے دنوں میں اس کا پانی کافی اوپر کو آ جاتا تھا۔ کئی چڑیوں کا گھونسلا اس کے اندر تھا۔ پانی کے اوپر آنے سے کئی چڑیوں کے بچے کنویں کے اندر سے نکلتے اور اینٹ کے سوراخ میں ہمارے خوف سے ادھر ادھر گھس جاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے پھر سے اڑ جاتے اور انہیں پکڑنے کی ہماری ساری کوششیں ناکام ہو جاتیں۔ ایک بار ابا نے ہمیں دوستوں کے ساتھ کنویں میں جھانکتے دیکھ لیا پھر کسی بچے یا جانور کے کنویں میں گر جانے اور ڈوب جانے کے ڈر سے کنواں پاٹ دیا گیا۔
اس مخدوش مکان میں ایک وقت گویا مسافروں اور راہ گیروں کے ٹھہرنے کا سارا انتظام موجود رہا ہوگا سوائے کھانے پینے کی سہولت کے؟ پھونس اور بانس کی ملی جلی کھپریل کی چھت تھی مٹی کی شکستہ دیواریں اب دم توڑ رہی تھیں جس میں کئی شگاف صاف نظر آتے تھے۔ چوہوں نے زمین میں کئی جگہ بل بنا رکھا تھا۔ اچانک ایک بل سے نکلتے اور اچھلتے کودتے سرعت سے دوسرے بل میں گھس جاتے۔ ہم بچے اسکول سے آنے کے بعد وہاں خوب کھیلتے تھے ہمیں چوہوں سے ڈر نہیں لگتا تھا بلکہ ہم ان کے اچھل کود سے لطف اندوز ہوتے۔ امی ہمیں وہاں جانے سے اکثر روکتی تھیں لیکن ہم کہاں ماننے والے تھے؟ کہیں پوال کے ڈھیر کہیں سوکھی گھاس، کہیں جانوروں کے چارے، کہیں ٹوٹے پھوٹے ہل تو کہیں گائے بیلوں کے کھانے کے پرانے ناد ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔
زمانہ تیزی سے بدلتا رہا ہم کب بڑے ہو گئے، کب سمجھدار ہوئے، کب پڑھ لکھ کر شہر کو چلے گئے، اب کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ یادوں کا کوئی سرا اب یاد کرنے سے بھی ہاتھ نہیں آتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سورج کی گردش نے ہمارے ساتھ کوئی بڑا مذاق کیا ہو اور یکلخت ہی سب کچھ بدل گیا ہو؟ زندگی نے ہمیں وقت سے پہلے عقلمند و باشعور بنا دیا اور لاتعداد ذمہ داریاں سونپ دیں۔
پھر ہم دہلی آ گئے خط و کتابت کا زمانہ تھا۔ گھر کی خیر خیریت کے ساتھ خط میں گاہے گاہے شرفو کا تذکرہ بھی ہوتا۔ شرفو اب ہمارا گھر چھوڑ چکا تھا۔ بہت دنوں بعد آج امی کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ وہ بنجارا شرفو ہر ماہ آتا ہے اکثر تمہاری خیریت پوچھتا ہے دعائیں دیتا ہے اور نم آنکھوں سے رخصت ہو جاتا ہے ہم اسے کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں۔ اس بار پوچھ رہا تھا بابو کب آ رہے ہیں؟ میں نے کہہ دیا عید میں آئیں گے۔ بڑی بے صبری سے عید کا انتظار کر رہا ہے۔
شہر کی زندگی برق رفتاری سے گزر رہی ہے۔ اب اس کھیت کی فصل پکنے لگی ہے۔ سیاہ بال سفید ہو گئے ہیں۔ چہرے پر جھریاں اُگ آئی ہیں۔ جو اپنا تھا اب وہی پرایا لگنے لگا ہے جو کبھی دل و جان سے زیادہ عزیز تھا اسے دیکھ کر اب وحشت ہوتی ہے۔ جب نوکری سے چھٹی ملتی ہے تو بیوی بچوں کے ساتھ سال دو سال میں گاؤں کا ایک سفر ضرور کر لیتے ہیں۔ عید یا بقرعید میں آنا خاص ہوتا ہے کیوں کہ اس موقع سے بھائی بہنوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔
آج رات کھانے پر اچانک والد صاحب کہنے لگے میں سوچ رہا تھا بھائی بہنوں میں بٹوارہ ہو جائے تو بہتر رہے گا۔ یہ سن کر ایک لمحے کو محفل پر سکوت کی کیفیت طاری ہو گئی، پھر بہنیں کہنے لگیں اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ والد صاحب انکی جانب مخاطب ہوئے اور کہا ’’ہاں اتنی جلدی بھی نہیں لیکن جیتے جی سب طے ہو جائے تو آپس میں نااتفاقی نہیں رہتی اور ہر قسم کی ناچاقی سے انسان بچ جاتا ہے آپسی رنجش فتنے کا ایک بڑا سبب ہے۔‘‘ ’’ہم دونوں کی زندگی بھی اب چند دنوں کی مہمان ہے‘‘ کہہ کر امی نے ماحول کو سوگوار بنا دیا۔
بڑے بھائی بھی کھانے پر حاضر تھے۔ چھوٹا بھائی بھی باہر سے آ چکا تھا۔ والد صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے پھر میری طرف رخ کر کے بولے ’’تم تو اب دہلی میں رہتے ہو اب یہاں کہاں رہنے والے ہو؟ میری خواہش تھی کہ اس مکان میں دونوں بھائیوں کا حصہ ہو جائے تو بہتر رہے گا؟ تمہاری کیا مرضی ہے؟ یہ مکان اتنا بڑا بھی نہیں کہ اس میں تین حصے لگائے جائیں؟‘‘
قدرے توقف کے بعد کہنے لگے ’’تم باہر والی زمین پر مکان بنا لو ویسے بھی وہ ویران پڑی ہے ہر آن قبضہ ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے دو عدد کمرہ ایک دالان اور برآمدہ نکل جائے گا تمہارے آنے جانے میں بھی سہولت رہے گی ہم سب بھی استعمال کر لیں گے کبھی کوئی مہمان بھی رک جایا کرے گا۔ تمہارے پاس پیسہ بھی ہے۔ ان دونوں کی اتنی صلاحیت نہیں کے نئے سرے سے مکان بنا سکیں۔ اس مکان میں دونوں بھائیوں کی زندگی گزر جائے گی جب ان کے بچے بڑے ہوں گے تب دیکھا جائے گا، بہنوں کو کھیت میں حصہ دے دیں گے۔‘‘
رات زیادہ ہو چکی تھی۔ ہم سب کھانا کھا چکے تھے، پھر سونے کی تیاری ہونے لگی۔ماں باپ اور بھائی بہنوں کے بھیڑ میں وقت کا پتہ نہیں چلتا۔ کچھ بوسیدہ پڑے گلے شکوے بھی دور ہو جاتے ہیں اور دوریاں نزدیکیوں میں بدل جاتی ہیں مانو زندگی از سر نو شروع ہو گئی ہو۔
دادی کے زمانہ کے کھپریل نما مکان میں بہت گہری نیند آئی۔ میں سڑک والی زمین کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گیا سویرے دیر سے آنکھ کھلی۔ صبح ناشتہ پر بھیا کہنے لگے پھر تم نے کیا سوچا؟ میں تھوڑی دیر خاموش رہا۔ طبیعت آپ ہی آپ الجھ رہی تھی۔ لیکن میں تو رات میں ہی فیصلہ کر چکا تھا۔ قدرے خاموشی کے بعد میں نے کہا جو امی ابو نے طے کیا ہے میں اس پر راضی ہوں۔
عید کو دو دن گزر چکے تھے۔ صبح اٹھ کر میں نے امی سے پوچھا وہ بنجارا شرفو نہیں آیا؟ نہیں بیٹا، ممکن ہے کل آئے کہیں بیمار نہ پڑ گیا ہو۔ بڑی شدت سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ ہر ماہ گاؤں میں ایک بار ضرور آتا ہے تمہیں بہت یاد کرتا ہے۔ بال بچوں میں عید منا رہا ہوگا؟
آج کل وہ بھیک مانگنے لگا ہے کہہ کر امی نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، وہ کیوں؟ میں نے قدرے تعجب کے ساتھ پوچھا۔ کہنے لگیں تمہیں یاد ہے اس کا ایک بیٹا اسکول میں پڑھتا تھا کبھی کبھی وہ اسے اپنے گھر بھی لے کر آتا تھا؟ ایک بیٹی بھی تھی کہہ رہا تھا اسے بیاہ دیا۔ جی ہاں، مجھے یاد آیا، کیا تو نام تھا اس کا؟ کہنے لگیں نتھو کہہ کر پکارتا تھا اصل نام تو کچھ اور ہی رہا ہوگا۔ پھر کیا ہوا میں نے مزید حیرانی سے پوچھا؟ پتہ نہیں کہہ رہا تھا اس کا بیٹا پڑھ لکھ کر باہر چلا گیا۔ وہیں شادی بیاہ کر کے گھر بسا چکا اب کئی برسوں سے گھر نہیں آتا ہے، ماں باپ کو بھی نہیں پوچھتا نہ ہی کوئی پیسہ کوڑی بھیجتا ہے۔ پھر کہنے لگیں میں نے کئی بار کہا کہ یہیں رہ لو تمہارے رہنے کا انتظام کر دیں گے لیکن نہیں مانا۔ بیٹے کی جدائی اور بے وفائی کے صدمے نے اسے کافی نڈھال کر دیا ہے۔ پھر بولا اب تو رہنے کی جگہ بھی نہیں رہی مکان کھنڈر ہو گیا؟ میں نے کہا اسے مرمت کروا دیں گے لیکن کچھ نہیں بولا خاموش ہو رہا، پھر کہنے لگا اب اپنی باقی زندگی بھیک مانگتے ہی گزرے گی، یہی تقدیر میں لکھا تھا تقدیر کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے؟
ہم ناشتہ سے فارغ ہو کر گاؤں سے دو مزدور پکڑ لائے اور ویران پڑی اس زمین پر کھدائی شروع کروا دی۔ دو دن تک کھدائی ہوتی رہی میں ہر دن شرفو کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آیا۔
تیسرے دن میں کرسی پر بیٹھا مزدوروں کے کام کی نگرانی کر رہا تھا تبھی پیچھے سے ایک ہاتھ میرے کاندھے پر محسوس ہوا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اوہ! یہ تو شرفو ہے؟ وہ کافی بوڑھا ہو گیا تھا۔ زمانے کی گردش نے اس کے رخسار پر جھریاں ڈال دی تھیں۔ بے ترتیب سی کھچڑی داڑھی، جوگیوں جیسے لمبے لمبے بال سر پر ایک سفید صافہ، ہاتھ میں ایک لاٹھی۔ فقیروں کا لبادہ اوڑھے وہ میرے سامنے کھڑا تھا۔ ساتھ میں ایک بچہ بھی تھا۔ میں کرسی سے اٹھ کر بڑے تپاک سے اس سے گلے ملا اور ڈھیر ساری پرانی باتیں کیں۔ وہ کافی دیر تک میرے پاس بیٹھا رہا۔ مجھے بچپن سے ہی اس سے بڑی محبت تھی۔ اس مختصر سی بات چیت کے دوران وہ کئی بار رو پڑا۔ میں نے اسے تسلی دی لیکن تسلیاں کہاں بے پناہ صدمات اور دکھوں کا مداوا کرتی ہیں؟
چائے آ چکی تھی کچھ کھانے کے لیے بھی گھر سے آیا تھا۔ چائے پیتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا ’’یہ تم نے کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟ امی کہہ رہی تھیں کہ تم اب بھیک مانگنے لگے ہو؟ اس نے دوران گفتگو بیس پچیس گاؤں کے نام بتائے ۔کہنے لگا ایک دن میں ایک گاؤں کا چکر لگا آتا ہوں پیٹ بھرنے کو میسر آ جاتا ہے جو نصیب میں ہو مل جاتا ہے۔ میں اب وہ نوجوان شرفو نہیں رہا جو ایک پھاوڑے کے ضرب سے مٹی کا سینہ چاک کر دے۔ مجھ سے اب کام نہیں ہوتا۔ میں اب کمزور ہو گیا ہوں۔ جس سے امید تھی اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ بڑھاپے کا سہارا کہیں کھو گیا اور گمنام ہو گیا کہتے کہتے اسکی آنکھ بھر آئی پھر رک کر کہنے لگا ’’مانگ چانگ کر جو کچھ مل جائے بیوی بچوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھا لیتا ہوں اور اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں اور جمعہ کی چھٹی رکھتا ہوں۔‘‘
میں نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا تمہارے تو بڑے ٹھاٹھ ہیں؟ ٹھاٹھ کیا بابو اب مجھ سے مزدوری نہیں ہوتی جسم میں توانائی باقی نہیں رہی، میں اب پوری طرح ٹوٹ چکا ہوں۔ آدھی سے زیادہ عمر تمام ہو گئی باقی بچی زندگی بھی مانگتے مانگتے ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی، سب کی ختم ہونی ہے کسی کی مانگ کر، کسی کی لے کر، کسی کی دے کر۔ کتنا بھی جمع کرو چین نہیں آتا۔ کھا پی کر ختم کرنے میں ہی سکون ملتا ہے۔ نہ چوری کا خدشہ نہ کھونے کا غم۔ اسی خاطر ایک دن بچوں کے ساتھ ہنس بول لیتا ہوں۔
پھر ایک گاؤں کا تذکرہ کرتے کرتے رک گیا۔ کہنے لگا وہاں ہم فقیروں اور محتاجوں کے لیے رات گزارنے کی ایک جگہ ہے۔ ایک زمیندار صاحب کا بیٹا ولایت میں رہتا ہے۔ بڑے نیک اور ہمدرد آدمی ہیں، انہوں نے اپنے مکان سے متصل ایک کمرہ بنوا دیا ہے۔ غسل خانہ اور بیت الخلاء بھی ہے، دو تین چارپائی بھی پڑی رہتی ہیں، کچھ پرانے بستر چادر تکیے گاؤں والے رکھ گئے ہیں۔ اس گاؤں میں جاتے ہوئے بڑی خوشی کا احساس ہوتا ہے، دیر ہو جائے تو اطمینان رہتا ہے۔ میں تو بیوی سے کہہ دیتا ہوں آج ولایت بابو کے گاؤں جا رہا ہوں رات وہیں ٹھہروں گا انتظار نہ کرنا۔ کہیں نہ کہیں سے کھانا بھی مل ہی جاتا ہے یقین کرو بابو ہم رخصت ہوتے ہوئے گاؤں والوں کے لیے، ان صاحب کے لیے اور ان کے بال بچوں کے لیے ڈھیر ساری دعائیں کرتے ہیں۔
میں نے پوری روداد سن کر قدرے تاسف کے لہجے میں پوچھا یہ بچہ کون ہے؟ کہنے لگا میرا چھوٹا بیٹا ہے۔ میں نے کہا اسے بھی اپنے کام پر تم نے ابھی سے لگا لیا؟ اس کی زندگی تم خراب کر کے چھوڑو گے شرفو؟ مجھے تم سے ایسی امید کبھی نہیں تھی؟ تم تو بڑے خوددار انسان تھے؟ یہ تو اس بچے پر ظلم ہے؟ اسے پڑھاتے کیوں نہیں؟ کہنے لگا پڑھ لکھ کر کیا کرے گا بابو؟ بڑے بیٹے کی طرح گاؤں چھوڑ کر شہر میں جا بسے گا۔ ماں باپ، بھائی بہن، دادا دادی، نانا نانی کو چھوڑ دے گا کسی کو بے سہارا کرنے میں کہیں وقت لگتا ہے؟ وہیں شادی بیاہ کر لے گا، اپنی دنیا الگ بسا لے گا ہمیں بھول جائے گا۔ کیا اولاد کو آدمی اسی دن کے لیے پالتا پوستا ہے؟ بچوں کو بڑا کرنے میں خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے، جان کی بازی لگانی پڑتی ہے تب کہیں جا کر وہ چلنے اور بولنے کے لائق ہوتے ہیں، لیکن جب وہ دغا دیتے ہیں، والدین کے ساتھ فریب کرتے ہیں تو زندگی جیسے یکلخت بکھر جاتی ہے، سانسیں ٹوٹ جاتی ہیں اور روح منجمد ہو جاتی ہے۔
بہت زیادہ کرب و اضطراب چھپا رکھا تھا اس نے اپنے دماغ میں۔ اس کا ناتواں و کمزور دل تکلیف و اذیت سے بھرا پڑا تھا۔ میں نے زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا اور چپ ہو رہا ، پھر کہنے لگا ہمیں تو پڑھانے لکھانے میں اب یہی ڈر کھائے جاتا ہے بابو؟ ہم غریبوں کے پاس جان ہی ایک سرمایہ ہے باقی کیا ہے کچھ نہیں؟ دن بھر مزدوری کی، رات تک کھا کر ختم کر لیا صبح مانگا شام کھایا؟
پھر پوچھنے لگا گاؤں میں مکان بنا رہے ہو بابو؟ اچھا کیا پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ ویران پڑی زمین اچھی نہیں لگتی تھی، میں اسے دیکھ دیکھ کر کڑھتا تھا۔ زندگی کا بڑا حصہ میں نے اسی کوٹھری میں گزار دیا۔ کیا اب آپ لوگ یہیں رہیں گے؟ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا مکان نہیں مسافروں اور فقراء کے رہنے کے لیے ایک مسافر خانہ تاکہ تم اور تم جیسے خانہ بدوش مفلس و نادار لوگ راتوں کو یہاں قیام کر سکیں، تم چاہو تو یہاں رہ لو؟ لیکن اس بچے کو پڑھاؤ لکھاو اور محنت مزدوری کر کے زندگی کو پھر سے شروع کرو بھیک مانگنا اچھی بات نہیں ہے۔
اس نے حیرت و محبت بھری نظر سے میری جانب دیکھا پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا رات گزارنے کی ایک اور جگہ مل گئی۔ میں کہتا نا تھا بابو اچھے آدمی ہیں؟ اب مہینے میں ایک رات ہم یہاں بھی قیام کریں گے پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا تمہارے لیے اور گاؤں والوں کے لیے دعائیں بھی کریں گے کھانا تو ایک دو وقت کا مالکن دے ہی دیں گی؟ کہتے کہتے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پلکیں جھپکاتے ہوئے بھیگی آنکھوں سے رخصت ہو گیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں