کئی برس پہلے کی بات ہے۔ گرمی کے موسم میں میری طبیعت خراب ہوگئی۔ جسم کے اندر ایسا لگتا تھا آگ لگی ہے۔ کھانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈے مشروب پی کر بھی حدت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ میری ایک سہیلی حکیم کے پاس جارہی تھی۔ انھوں نے میرا حال دیکھا تو زبردستی مجھے بھی ساتھ گھسیٹ لیا۔ حکیم صاحب بہت بوڑھے اور دبلے پتلے تھے مگر بڑی مہارت کے ساتھ نبض پر ہاتھ دھرتے اور دوا دینے کا اشارہ کردیتے۔ انھوں نے میری نبض دیکھی۔ سر ہلا کر بولے؛ ’’دوا کوئی نہیں ملے گی۔ گھر جاکر بڑی الائچی منگاؤ، اس کے چھلکے اتار کر دانے علیحدہ کرلو، جتنے دانے ہوں، اتنی ہی چینی ملا کر پیس کر رکھ لو۔ چوتھائی چمچی یہ سفوف صبح شام کھاکر پانچ دن بعد میرے پاس آنا۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے دوسرے مریض کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا مگر میری سہیلی واپسی پر بڑی الائچی خریدنے اور دوا بنانے کی تاکید کرکے چلی گئیں۔ میں نے الائچی کے دانے نکال کر ہم وزن چینی کے ساتھ پیس کر کھائے۔ کھانے کے دس منٹ بعد مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے پیٹ میں برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہوا اور ٹھنڈ پڑ گئی ہو۔ تین دن میں نے یہ دوا کھائی۔ میرے جسم کی حدت ختم ہوچکی تھی۔ مجھے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا تھا۔ دوبارہ جب ان حکیم صاحب کے پاس گئی تو وہ اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔
مسالے کھانے کو لذت بخشتے ہیں اور ان سے کئی تکلیفوں کا علاج بھی ہوتا ہے۔ صدیوں سے مسالے اپنی افادیت کے لیے مشہور ہیں۔
ان صفحات میں آپ کو مسالوں کے متعلق مختصراً بتاؤں گی کہ ان کے کیا فوائد ہیں۔
بڑی الائچی
اسے فارسی میں ہیل کلاں اور انگریزی میں Amomom sobuirtum کہتے ہیں۔ یہ دارجلنگ اور جنوبی نیپال میں پیدا ہوتی ہے۔یہ معدے کو طاقت بخشتی ہے۔ گیس کا علاج ہے، بھوک لگاتی ہے، متلی کو دور کرتی ہے۔ بڑی الائچی کے سفوف میں کالا نمک ملا کر کھانے سے معدے کی جلن دور ہوتی ہے۔ ریح کی تکلیف ختم ہوجاتی ہے۔ بڑی الائچی کے چھلکے پیس کر سر پر لیپ کیا جائے تو سر درد دور ہو جاتا ہے۔
ہاضمے کے لیے چورن میں اس کو شامل کیا جاتا ہے۔ پرانے حکیم اس کی افادیت سے آگاہ تھے۔ انھوں نے اسی لیے گرم مسالے میں اسے شامل کیا۔ پلاؤ، بریانی پکاتے وقت اسے ثابت ہی ڈالنے کا رواج ڈالا تاکہ یہ غذا کو ہضم کرسکے اور بھوک لگائے۔ اس کے دانے بھون کر کھائے جائیں تو دستوں کو روکتے ہیں۔ اس کا مزاج گرم خشک ہے۔
متلی اور قے میں اس کے کھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اسے چورن میں شامل کیا جاتا ہے کہ کھانا ہضم ہو جائے اور معدے کو طاقت ملے۔ اسی لیے عرق ماء اللحم کا بھی ایک جز ہے۔ جوارش آملہ، جوارش انارین جالینوس وغیرہ میں بڑی الائچی ڈالی جاتی ہے۔ دیہات کی عورتیں بڑی الائچی کو دودھ میں جوش دے کر بچوں کو پلاتی ہیں۔
چھوٹی الائچی
چھوٹی الائچی کو انگریزی میں (Cardamomom) کہتے ہیں۔ اس کا پودا نمناک زمین اور سایہ دار جگہ بویا جاتا ہے۔ اس کے پودے بھی سرسبز رہتے ہیں۔ جون جولائی میں اس کا پھل گچھوں کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔ لنکا کی جنگلی الائچی، گول الائچی جاوا، سماٹرا اور چین میں ہوتی ہے، بنگالی الائچی، نیپالی الائچی وغیرہ۔
چھوٹی الائچی کا مزاج گرم خشک ہے۔ اس کی خوراک نصف گرام سے ایک گرام تک ہے۔ سبز چھلکے کی وجہ سے اسے سبز الائچی کہا جاتا ہے۔
پان میں چھوٹی الائچی خوشبو کے لیے ڈالی جاتی ہے۔ لوگ منہ کی بو دور کرنے کے لیے اسے چباتے ہیں۔ سبز چائے الائچی کی وجہ سے مزے کی لگتی ہے۔ پودینہ، سونف اور الائچی کا پانی پکا کر ہاضمے کے لیے پیا جاتا ہے۔ دو تین الائچیاں، چمچہ بھر سونف اور پودینے کے پتے دو تین گلاس پانی میں پکاکر ٹھنڈا کرکے پئیں تو متلی اور قے رک جاتی ہے۔ اس کے کھانے سے ہاضمہ ٹھیک رہتا ہے۔ شیر خوار بچوں کے دودھ میں چند دانے سونف اور ایک دو الائچیاں ڈال کر جوش دینے سے دودھ ہضم ہو جاتا ہے، گیس خارج ہوتی ہے۔
چھوٹی الائچی دل اور معدے کو طاقت دیتی ہے۔ معدے کے ریاحی درد میں فائدہ مند ہے۔ دستوں میں فائدہ دیتی ہے، جگر اور جگر کے سدے کے لیے حکیم اسے گلاب میں جوش دے کر اسکنجبین کے ساتھ پلاتے تھے۔ مرگی کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔ اسے پیس کر نسوار کی طرح سونگھنے سے چھینکیں آتی ہیں، سر درد کو فائدہ ہوتا ہے اور مرگی کے مریض کو بھی چھینکیں اکر آرام آتا ہے۔ اس کے کھانے سے پسینہ خوشبودار ہوتا ہے۔ طباشیر سفید اس کی مصلح ہے۔ عام طور پر مصری یا طباشیر اس میں ملائی جاتی ہے۔ اب تو الائچی کا شربت بھی بننے لگا ہے، دل کو تقویت دیتا ہے۔
بلڈ پریشر کا عارضہ ہو تو چھوٹی الائچی نہیں کھانی چاہیے کیوں کہ اس سے خون کا دباؤ تیز ہو جاتا ہے۔
بعض خواتین سونف کے دانے بھون کر ان میں بھنا ہوا ناریل، بادام اور دھنیے کی گری شامل کر کے رکھ لیتی ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد ایک الائچی اور یہ سونف ہاضمے کے لیے کھاتی ہیں۔ اس سے منہ خوشبودار رہتا ہے اور کھانا ہضم ہو جاتا ہے۔
دار چینی
ایک درخت کی سرخ سیاہ بھورے رنگ کی چھال ہے۔ اس کا مزاج گرم خشک ہے۔ اس کا درخت درمیانے قد کا ہرا بھرا ہوتا ہے۔ جاوا، سماٹرا، لنکا چین، مالابار اور آسام میں پائی جاتی ہے۔ اس کی چھال کے ٹکڑے ایک دوسرے پر خوب لپٹے ہوئے پرت دار ہوتے ہیں اور آسانی سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ باہر سے بادامی رنگ اور اندر سے سیاہی مائل اور خوشبودار ہوتی ہے۔ ذائقہ میٹھا ہوتا ہے، اس کی خوراک ایک دو گرام ہے۔ دار چینی فرحت بخش ہے۔ کھانسی اور دمے میں فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس کا سفوف شہد میں ملا کر چٹاتے ہیں۔ یہ پیٹ کے سدے کھولتی ہے۔ گیس خارج کرتی ہے۔ سردی کی وجہ سے بار بار پیشاب آتاہو تو دو گرام دار چینی کا سفوف دودھ سے کھایا جائے، آرام آجاتا ہے۔ جو بچے رات کو پیشاب کرتے ہوں ان کو ایک چھوٹا سا ٹکڑا دار چینی کا دودھ میں ابال کر دودھ پلا دیا جائے تو بہت فرق پڑتا ہے بعد میں دار چینی کا ٹکڑا پھینک دیں۔ اکثر خواتین شیر خوار بچوں کے دودھ میں چھوٹا سا دار چینی کا ٹکڑا ڈال کر جوش دے کر پلاتی ہیں۔ اس سے بچے کے پیٹ میں گیس نہیں بنتی۔ نزلہ ہو تو چائے کے پانی میں دار چینی ابال کر چائے دم کر کے پینے سے آرام آتا ہے۔
روغن دار چینی عمل کشید سے حاصل ہوتا ہے جو تعفن دور کرتا، دل و دماغ کو فرحت بخشتا، اعضائے تنفس کو تحریک دیتا، بلغم خارج کرتا اور مقوی معدہ و جگر ہے۔ اسے معجونوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ دار چینی جلد کے داغ دھبے دور کرتی ہے۔ اس کے کھانے سے منہ میں خوشبو رہتی ہے۔ دانت سفیدہوتے ہیں۔ بھوک کی کمی زائل ہوجاتی ہے۔اس کے تیل کو سنامم آئل کہتے ہیں۔ اس کا مزاج بھی گرم خشک ہے۔ تازہ تیل زرد رنگ کا ہوتا ہے، پرانا ہو تو سرخی مائل ہو جاتا ہے۔
کالی مرچ
اسے عربی میں فلفل اسود، انگریزی میں بلیک پیپر اورلاطینی میںپیر نیگرم کہتے ہیں۔ اس کی بیل دوسرے درختوں پر چڑھ جاتی ہے۔ برسات کے موسم میں گول گول گچھوں میں پھل لگتے ہیں جو پہلے سبز اور پک کر سرخ ہوتے ہیں۔ سوکھ کر سیاہ ہوجاتے ہیں۔ پوری طرح پکنے کے بعد اس کے اوپر کا چھلکا اترا جاتا ہے اور سفید مرچ نکل آتی ہے۔ یہ زیادہ تیز نہیں ہوتی، آج کا سیاہ مرچ چینی کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
سیاہ مرچ کا مزاج گرم خشک تیسرے درجے میں ہے۔ اس کی خوراک ایک چوتھائی تا ایک گرام ہے۔ یہ جاوا، سماٹرا، سنگار پور جنوبی ہند خصوصا ٹراونگور اور مالا بار کے جنگلات میں بکثرت ہوتی ہے۔ مقوی اعصاب ہے۔ بلغم خارج کرتی ہے۔ بھوک بڑھاتی ہے، معدے اور انتڑیوں کو طاقت دیتی ہے ، امراض جلد میں دوسری ادویہ کے ساتھ اس کا تیل تیار کر کے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ پہلے زمانے میں اسپرین نہیںتھی۔ کالی مرچ پیس کر ایک گرام سفوف گرم پانی کے ساتھ کھلانے سے پسینہ آکر بخار اتر جاتا تھا۔ دانتوں کے درد میں اس کا جوشاندہ بنا کر غرارے کیے جاتے۔ منجن میں کالی مرچ ضرور ڈالی جاتی۔ اس سے دانت صاف رہتے اور ان میں کیڑا بھی نہیں لگتا تھا۔ کھانسی ہوتی تو کالی مرچ پیس اور شہد میں ملا کر پیالی میں رکھ دیتے۔ تھوڑا تھوڑا چاٹتے رہتے۔ اس سے کھانسی کی شدت میں کمی آتی اور کھانسی ٹھیک ہوجاتی۔ گلے کا ورم بھی دور ہو جاتا۔
کالی مرچوں کو پیس اور روغن میں ملا کر مریض لقوی کے لیپ کیا جاتا۔ جن لوگوں کو ضعف اعصاب اور ہاتھ پاؤں سن ہونے کی شکایت ہوتی وہ کالی مرچ ضرور استعمال کرتے۔ بیہوش آدمی کو کالی مرچ کی ناس دی جاتی تو وہ ہوش میں آجاتا۔ ورم تلی کے لیے کالی مرچ کو پیس کر سر کے میں ملا کر لیپ کیا جاتا تھا۔ اس سے ورم تحلیل ہوجاتا۔
مرچ سیاہ کی معجون بنتی ہے، جو بواسیر کے لیے مفید ہے۔ اس کے دانے ہیضے کے لیے مفید ہیں۔ کالی مرچ کی دوسری دواؤں کے ساتھ گولیاں بنتی ہیں جو کھانسی میں چوسنے کے لیے دی جاتی ہیں۔
آج بھی گھروں میں مرچ سیاہ مدار کا پھل اور نمک سونچر ہم وزن پیس کر چنے کی دال کے برابر گولیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہ کھانے کو ہضم کرتی ہیں اور گیس کو ختم کر دیتی ہیں۔ کالی مرچ کا روغن بھی نکلتا ہے۔
کالی مرچ کا اچار بھی پڑتا ہے۔ مرچ سیاہ تازہ جو پکی نہ ہوں، مرتبان میں ڈالیں اور سرکہ ملادیں۔ دو چار لونگیں اور ادرک ملائیں، آٹھ دس دن میں تیار ہوجائے تو دو چار کالی مرچیں نکال کر کھالیا کریں۔ یہ ہاضم ہے، معدے کو طاقت دیتا اور گیس نہیں ہونے دیتا۔
لونگ
اسے عربی میں قرنفل اور انگریزی میں کلو کہتے ہیں۔ اس کا درخت تیس چالیس فٹ اونچا ہوتا ہے۔ اس کی کلیاں ہی لونگ کہلاتی ہیں۔ اس کا مزہ تلخ تیز ہے۔ خوشبودار او رخوش گوار لونگ بہت کام آتی ہے۔ ان کی سب سے زیادہ پیداوار زنجبار اور جزائر ملوکو میں ہوتی ہے۔ لونگ کا تیل نکالا جاتا ہے جو عموما دانتوں اور مسوڑھوں کے درد میں کام آتا ہے۔ یہ وقتی طور پر سن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہمارے مسالوں میں لونگ بہت استعمال ہوتی ہے۔ پان میںڈال کر کھاتے ہیں۔ زردہ ، پلاؤ، بریانی، منجن اور گڑ کے میٹھے چاولوں میں لونگ ڈالتے ہیں۔ منہ کی بدبو کے لیے پان میں ڈال کر یا ویسے ہی چباتے ہیں۔ حلق کا ورم بھی اس سے دور ہوتا ہے۔ لونگ قلب، دماغ، معدے اور جگر کو تقویت دیتی اور آنتوں کی کمزوری دور کرتی ہے۔ لونگ پیس کر دن میں گرم پانی سے نصف گرام سفوف کھانا چاہیے۔ اس سے متلی اور قے بھی ٹھیک ہوجاتی ہے۔
آنکھ میں گوہانجنی نکل آئے تو بہت تکلیف دیتی ہے۔ لونگ گھس کر پانی کے ساتھ لگانے سے جلدی ٹھیک ہوجاتی ہے۔ لونگ گرم خشک ہے۔ جن لوگوں کا مزاج گرم ہو ان کو نقصان دیتی ہے۔ لو بلڈر پریشر میں گرم پانی میں شہد ڈال کر لیموں نچوڑیے اور چٹکی بھر لونگ منہ میں ڈال کر شہد والا پانی پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔
اعصابی کمزوری میں کھانے کے بعد چٹکی بھر لونگ کھالی جائے تو کمزوری دور ہوجاتی ہے۔ جن لوگوں کے معدے میں گرمی ہو وہ لونگ نہ کھائیں ورنہ نقصان ہوگا۔
قہوہ بناتے وقت ایک دو لونگیں ابلتے پانی میں ڈال دی جائیں تو سردی کے موسم میں نزلہ زکام کا علاج ہے۔ اسی طرح کمر درد، جوڑوں کے درد میں قہوے کے ساتھ چٹکی بھر لونگ کھالی جائے تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ نمونئے کے درد میں چند لونگیں زیتون کے تیل میں جلا کر مالش کی جائے اور چٹکی بھر لونگ کھائی جائے تو جلد افاقہ ہوتا ہے۔ دانت کے درد کے لیے لونگ کا علاج تو سب جانتے ہیں۔ لونگ منہ میں دانت کے نیچے رکھیے یا اس کا تیل احتیاط سے دانت پر لگائیے، آرام آئے گا۔
پیٹ پھولنے کی شکایت میں بھی لونگ کھانے سے آرام آتا ہے۔ سردی کے موسم میں سر پر مہندی لگانا مصیبت ہے، تین چار لونگیں پیس کر مہندی میں ملا دی جائیں تو ٹھنڈ کا اثر نہیں ہوتا۔