گندی گلی

نصیر رمضان مالیر کوٹلہ

کمرا بھانت بھانت کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔کان پڑی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی۔لڑکیاں،بڑی عمر کی عورتیں،بچے سب پلنگ پر سر جھکائے بیٹھی دُلہن شاذیہ کو گھیرے ہوئے تھے۔ہنسی،مذاق،قہقہے سب جاری تھے۔بیچ بیچ میں لڑکیاںآپس میں کھُسر پھُسر بھی کرنے لگتیں اور پھر نہ جانے کس بات پر قہقہہ بُلند ہوتا کہ شادی شدہ عورتیں سوائے گھورنے کے اورکچھ نہیں کر سکتی تھیں۔دُلہن بنی شاذیہ کی ایک گھنٹے سے ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے کمر دُکھنے لگی تھی۔اُس نے آہستہ سے ایک لڑکی سے پانی مانگا۔یہ دیکھ کر لڑکے یعنی دُلہا اظہر میاں عرف اجّو کی بہن فوراً آگے بڑھی اور اُسے پانی لا کر دے دیا۔
’’چلو بھئی لڑکیو! اب کمرا خالی کرو۔۔۔ رات کے دس بجنے والے ہیں۔ ‘‘ اظہر میاں کی تائی نے اعلان کیا۔
’’اظہر میاں کی تو قسمت ہی کھُل گئی ہے،اتنی خوبصورت دُلہن جو ملی ہے۔ ‘‘ ایک شوخی بھری آواز اُبھری۔
’’ کیوں نہیں۔۔۔۔۔کنوئوں میں بانس ڈلوائے تب جا کے یہ رشتہ ہاتھ لگا‘‘ اظہر میاں کی بڑی بہن نے جواب دیا۔سبھی لڑکیاںہنسنے لگیں، مگر شاذیہ نے شرم سے سر جھُکا لیا۔اچانک پاس ہی کسی لڑکی کی سرگوشیوں میں آواز سنائی دی،’’ چلو اچھا ہے۔۔۔۔نازی سے جان تو چھوٹی ۔۔۔۔کب سے پیچھے پڑی ہے اظہر کے۔۔۔‘‘ شاذیہ کے کان کھڑے ہوگئے۔اُس نے بولنے والی کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر ۔۔۔۔بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ اُسے پتا ہی نہیں چلا کہ آواز دائیں سے آئی تھی کہ بائیں سے۔ ’’چلو بھی لڑکیو۔۔۔اب بس بھی کرو۔۔۔چلو کمرے سے باہر دُلہن کو سونا بھی ہے‘‘ اظہر میاں کی تائی نے پھر سے کہا۔ ’’ اب سوئے گا بھی۔۔۔۔ کون؟‘‘ شاہدہ نے شوخی سے کہا۔تائی نے بولنے والی تیز طرار شاہدہ کی طرف گھور کر دیکھا،سبھی ہنستی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
دوسری صُبح اس سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز تھی کیونکہ دُلہن کے رشتہ دار ناشتہ لائے تھے اور گھر میں گہما گہمی کا ماحول ہو گیا۔
سبھی خوش تھے مگر اظہر کی چھب ہی نرالی تھی ۔اتنی حسین دُلہن پا کر وہ گھر میں اُڑے اُڑے پھر رہے تھے۔کچھ دیر کے بعد شاذیہ بھی کپڑے بدل کر سب کے درمیان آ بیٹھی اور پھر ناشتہ شروع ہوا ۔خوشگوار ماحول میں باتیں ہونے لگیں۔اچانک ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی اُس کے پاس آ بیٹھی ۔شاذیہ نے اُسے پہچان لیاوہ کل رات والی تیز طرار لڑکی شاہدہ تھی جو اُس کے پاس بے تکلّفی سے بیٹھ گئی۔ ’’بھابی۔۔۔۔میں اظہر کی چھوٹی بہن کی طرح ہوں ۔۔۔۔۔اس لیے آپ کی بھی چھوٹی بہن ہوئی،اس لحاظ سے ہماری دوستی پکّی ‘‘ شاذیہ نے مسکرا کر اُسے دیکھا۔سچ بات تو یہ تھی کہ شاہدہ اُسے پسند آئی تھی۔’’ ارے۔۔۔۔اس سے بچ کے رہنا بہت باتونی ہے یہ۔۔۔۔تمہارا دماغ خالی کر دے گی‘‘ درمیان میں اظہر نے لقمہ دیا۔’’ کوئی بات نہیں۔۔۔بھائی جان ‘‘ شاہدہ نے اٹھلا کر کہا۔سبھی دلچسپی سے اس نوک جھونک کو دیکھ رہے تھے۔کچھ دِن تو شادی کے ہنگامے رہے پھر آہستہ آہستہ گھر میں جمع رشتہ دار اپنے اپنے گھر جانے لگے اور زندگی معمول پر آ گئی۔
دن پر لگا کر اُڑنے لگے۔دُلہن شاذیہ نے گھر کے کاموں میں حصّہ بھی لینا شروع کر دیا۔ایک دو رشتہ داروں کے یہاںہونے والی دعوتیں بھی نپٹ گئیں۔ تین مہینے کیسے گُزرے پتا ہی نہیں چلا۔شاذیہ کی شاہدہ سے بہت بننے لگی بلکہ وہ اُسے چھوٹی بہنوں کی طرح عزیز ہو گئی تھی۔شاہدہ کی طبیعت میں شوخی تھی تو شاذیہ کا بھی شگفتہ مزاجی میں کوئی جواب نہیں تھا۔ایک روز شاذیہ چھت پر کپڑے ڈالنے گئی تو اُس کی نگاہ ساتھ والے گھر میں پڑی۔ایک لڑکی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔اس سے پہلے شاذیہ نے اُسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اُسے اس طرح اُس کا کھڑے ہونا عجیب ضرور لگا مگر ۔۔۔۔اُس نے کاندھے اُچکائے اور نیچے اُتر آئی۔
دوپہر کو وہ سبزی چھیل رہی تھی کہ شاہدہ آدھمکی۔ادھر اُدھر کی باتوں کے دوران اچانک شاذیہ نے شاہدہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’شاہدہ ایک بات بتائو۔۔۔بالکل سچّی ۔‘‘ ’’کیا بھابی ؟‘‘ شاہدہ نے فوراً جواب دیا:’’ نازاں کون ہے؟‘‘
یہ سُن کر شاہدہ چُپ سی رہ گئی۔ ’’وہ۔۔۔ بھابی۔۔۔نازاں۔۔۔۔پیچھے جو گھر لگتا ہے نہ رفیق چاچا کا،اُس کی بیٹی ہے۔‘‘
’’اظہر سے اُس کا کیا رشتہ ہے۔۔۔میرا مطلب۔۔۔‘‘ آخر اُس نے وہ سوال کر ہی دیا جو شادی کی رات سے اُس کے ذہن میںکلبلا رہا تھا۔کانوں میں پڑے اُس جملے نے اُس کے دل میں شک سا پیدا کر دیا تھا۔بے شک اظہر اُس کے ساتھ خوش تھا اوراُس نے کوئی ایسی ویسی بات بھی محسوس نہیں کی تھی مگر آج اُس لڑکی کو دیکھ کر اُسے تجسّس نے گھیر لیا اور اُس نے شاہدہ سے پو چھ ہی لیا۔ اُسے پورا یقین تھا کہ شاہدہ کو سب خبر ہوگی۔’’بھابی۔۔۔بات یہ ہے کہ آپ سے شادی سے پہلے۔۔۔بھائی جان نازاں میں دلچسپی لینے لگے تھے اور اس میں بھی نازاں کا ہاتھ زیادہ تھا۔
میرے ابّو تو اُدھر کا رُخ بھی نہیں کرنے دیتے،ملنا تو دور کی بات ہے۔ ساتھ ہی تو گلی لگتی ہے اپنے گھر کے، ویسے بھابھی آپ بھائی جان پہ شک نہ کریں۔ بس اتنا خیال رکھنا کبھی چھت پہ نظر آئے تو اُسے مُنہ نہ لگانا۔ سارا وقت چھت پر ہی گزار دیتی ہے آوارہ کہیں کی۔۔۔۔‘‘ شاہدہ نے مزید کہا ۔
دوسرے روز اُسے وہ لڑکی پھر نظر آ گئی۔شاذیہ نے اُسے غور سے دیکھا۔شاہدہ ٹھیک کہتی تھی کہ نازاں اور اُس کا کوئی میل نہیں تھااُسے فخر کا احساس ہونے لگا۔ آئندہ دنوں میں بھی اُسے کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جس سے اُس کے شک کو تقویت ملتی ،بے شک اُس نے شاہدہ کی باتوں کا خیال رکھا تھا مگرعورت کے فطری تجسّس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اب بھی اظہر کے چہرے پر ناکام محبت کی کوئی دبی ہوئی چنگاری تلاش کر رہی تھی شاید!
ایک دن شاذیہ چھت پر کپڑے ڈالنے کی غرض سے اوپر آئی تو اُسے کونے سے دبی دبی سی باتیں کرنے کی آواز آئی۔اُس نے فوراً کپڑوں کی اوٹ لے کر دیکھا۔ اظہر دیوار کے دوسری طرف مُنہ کیے کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’یقیناً نازاں ہوگی‘‘اُس نے دل ہی دل میں سوچا اور اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔ نہیں نازاں مجھے اب بھول جائو، اب میں شاذیہ کی امانت ہوںاور پھر میں نے تم سے کون سے جینے مرنے کے وعدے کیے تھے‘‘ دوسری طرف سے کیا کہا گیا اُسے سمجھ نہیں آیا۔پھر اظہر کی آواز سُنائی دی۔’’تم بھی اپنا گھر بسا لو۔ نازاں کی غصّے سے دبی دبی سی آواز اُبھری مگر الفاظ واضح نہیں تھے۔ ’’اچھا!تمھاری مرضی۔اب مجھ سے بات بھی نہ کرنا۔‘‘ اظہر نے جلدی سے کہا۔شاذیہ فوراً نیچے اُتر آئی۔کُچھ دیر بعد اظہر بھی نیچے اُتر آیا۔کام کرتے ہوئے شاذیہ نے اظہر کے چہرے پر تاسّف ،ملال،ناکامی یا کسی اور طرح کے جذبات تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ایسا کُچھ بھی نہیں تھا۔اُسے تھوڑا سا اطمینان ہوا۔آئندہ برسوں میں بھی اظہر نے اپنی وفاداری کو سچ کر دکھایا اور شاذیہ کے خیال کو وہم ثابت کر دیا۔اسی دوران وہ دو بچوّں کی ماں بھی بن گئی ایک بیٹار یحان جو کہ چھٹے سال میں داخل ہو رہا تھااور ایک بیٹی نمرا جو تیسرے سال میںتھی۔
ایک دن اُسے ریحان نظر نہ آیاتو اُس نے گھر کے باہر جھانکا۔یہ دیکھ کر اُسے غُصہ آ گیا کہ ریحان نازاں کے گھر کی گلی کے باہر کھڑا تھا۔اُسے ایسا لگا جیسے وہ گلی کے اندر گیا تھا۔ ’’ریحان۔۔۔۔ وہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔ یہاں آئو۔ ‘‘ شاذیہ نے وہیں سے ڈانٹ کر اُسے بُلایا۔ ریحان بچّہ تھا پھر ایک دن دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا گلی میں چلا گیا۔جب شاذیہ نے دیکھا کہ ریحان گھر میں نہیں ہے تو اُس کا ماتھا ٹھنکا۔اُس نے دروازے سے باہر جھانک کر دیکھا ریحان نظر نہیں آیا۔ایک خیال کے تحت اُس نے ساتھ والی گلی کے اندر جھانک کر دیکھا تو جیسے اُسے آگ ہی لگ گئی۔ریحان گلی میں کھیل رہا تھا اور نازاں دروازے میں کھڑی دیکھ رہی تھی۔وہ لپک کر گئی اور ایک جھٹکے سے ریحان کو پکڑا۔۔۔۔’’چلو گھر۔۔۔۔۔یہاں نہیں کھیلتے،تمہیں منع کیا تھا نا۔‘‘ شاذیہ نے غُصّے سے کہا اور اُسے کھینچتے ہوئے باہر لے جانے لگی۔’’یہاںکیا ہے۔۔۔امّی؟‘‘ ریحان نے معصومانہ انداز میں پوچھا۔
شاذیہ نے پہلے نازاں کی طرف دیکھا اور پھر ایک طرف تھوکتے ہوئے کہا: ’’بیٹا!یہ گندی گلی ہے۔‘‘ ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں