فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت وہ معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ عورت سماج کا نصف حصہ ہے بلکہ بعض لوگ تو اسے مکمل معاشرہ سے تعبیر کرتے ہیں کہ اگر نصف معاشرہ اس پر مشتمل ہے تو دوسرا نصف بھی اسی کا پیدا کردہ اور اسی کا تربیت یافتہ ہوتا ہے ۔ اگر عورت صالح تو معاشرہ صالح ہوتا ہے اور اس کے فاسد ہونے سے معاشرہ فاسد ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سماج کی ترقی ، فلاح و بہبود، اس کی حفاظت، سماج کے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانا، حکمراں سے جواب طلبی کرنا اور سماج کی معاشی ترقی میں ہاتھ بٹانا عورت پر بھی لازم ہوتا ہے۔ جیسا کی شیخ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں ’’ اسلام کی بابت یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ معاشرے کے نصف حصہ کو معطل، جامد اور غیر مفید بنا دے۔ ‘‘
اسلام نے مرد و عورت کو الگ الگ ذمہ داریاں عطا کی ہیں۔ اور ان ذمہ داریوں کے لحاظ سے انہیں قوتیں اور صلاحتیں ودیعت کی ہیں۔ خاندان اور اہل و عیال کی معاشی کفالت اور بیرونی بھاگ دوڑ کی ذمہ داری مرد پر عائد کی گئی اور ایسا کرنا اس پر فرض قرار دیا گیا ۔جب کہ اندرون خانہ کی ذمہ داریاں جن میں شوہر کے مال و دولت کی حفاظت، اولاد کی تعلیم و تربیت اور اچھی نگہداشت و غیر شامل ہیں اس کا ذمہ دار عورت کو بنایا گیا۔ اس طرح ذمہ داریاں بانٹ کر اسلام ایک کو دوسرے کی فکر سے آزاد کر دیتا ہے۔ عورت گھر کی ملکہ ہے وہ آزادی کے ساتھ بچوں کی تربیت اور پرورش و پرداخت پر وقت صرف کرے۔ جب کہ مرد تمام معاشی ضروریات کو برضا و رغبت پورا کرے۔ دونوں کی ذمہ داریاں الگ ضرور ہیں لیکن نہ کوئی برتر ہے نہ کمتر۔ دین کو سمجھنے، عمل کرنے اور دین کو پھیلانے کی ذمہ داری دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ جزاء و سزا میں دونوں اپنے اعمال کے لئے ذمہ دار ہوں گے۔ ایک اسلامی تہذیب کی داغ بیل ڈالنے میں دونوں برابر شریک ہوں گے۔قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں وہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔‘‘ ( التوبہ :۱۷)
مرد کو نان نفقے کا ذمہ دار ٹھہرا کر عورت کو معاشی طور پر بالکل محتاج نہیں بنایا گیا بلکہ اس کی معاشی حیثیت کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے اسلام اسے مہر کا حق دیتا ہے، وراثت میں حصہ دار بناتا ہے ،ملکیت کا حق عطا کرتا ہے اور معاشی تگ و دو کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے ۔ شادی تک بیٹی کے نان نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی، شادی کے بعد شوہر اس کے خرچ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ بڑھاپے میں بالغ بیٹوں کو ماں کے نفقے کا ذمہ دار بنایا گیا۔ یہاں تک کہ اگر بیٹی بیوہ یا مطلقہ ہو جاتی ہے تب بھی اس کی ذمہ داری باپ یا قریبی مرد رشتے دار پر عائد کی گئی اور عورت کو خود اپنے خرچ کے لئے بھی ذمہ دار نہیں بنایا گیا۔
اسلام عورتوں کو رزق حلال کے لئے تگ و دو کرنے اور معاشی جدوجہد کرنے کی اجازت دیتا ہے گھریلو ذمے داریوں کی ادائیگی ترجیحی معاملہ ہے اور ولی سے اجازت خاندان و معاشرت کی بہتری کے لیے ہے۔ عہد نبوی کے واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ عورتیں کام کاج اور خریدو فروخت کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلتی تھیں۔ وہ کھیتی باڑی میں حصہ لیتی تھیں، صنعت و حرفت اور دستکاری سے بھی پیسے کماتی تھیں۔ محتاج نہ ہونے کے باوجود راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے بھی وہ اپنے آپ کو مصروف رکھتی تھیں۔ ضرورت نہ ہونے کے باوجود اگر عورت شوقیہ اپنی صلاحیتوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کام کرنا چاہتی ہے توبھی اسلام اس پر روک نہیں لگاتا۔ لیکن اسلامی اخلاقیاتی حدود کی پابندی ضروری ہے۔
بعض میدان ایسے ہیں جہاں عورتوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں عورتیں مردوں سے بہتر ثابت ہو سکتی ہیں۔ جیسے خالص لڑکیوں کے ادارے، اسکول، کالج، زنا نہ اسپتال، خواتین کی تنظیمیں، جو سماجی فلاح و بہبود کا کام کریں اور دین کی دعوت کا کام وغیرہ، وہ امور ہیں جہاں عورتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مرد عورت کو معاشی جدوجہد کرنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔ اگر شوہر اس کے نان نفقہ کو ادا نہیں کرتا تو عورت بنا اس کی اجازت کے اس کے مال سے بقدر ضرورت لے سکتی ہے اور بالکل نہ ملنے پر حکومت وقت یا اسلامی عدالت سے نفقہ کے لئے زبردستی بھی کر وا سکتی ہے۔ چنانچہ وراثت کا حصول، معاشی بااختیار ی اور نان نفقہ کا حق عورت کا قانونی حق ہے جو اسلام اسے عطا کرتا ہے اور سماج کو اس بات کا مکلف بناتا ہے کہ وہ عورت کے ان حقوق کی حفاظت کرے اور ادا کرے۔
پیشہ ورانہ سرگرمیاںان سرگرمیوں کے قبیل سے ہیں جن میں حصہ لینا عورت کے لئے مشروع ہے بلکہ جن میں شرکت اس وقت واجب ہو جاتی ہے جب معاشرے کو اس کی ضرورت ہو اور یہ سرگرمیاں اس کی گھریلو ذمہ داریوں سے معارض نہ ہوں، کیونکہ معاشی سرگرمیوں سے معاشرے کی ضرورتوں کی تکمیل اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہے۔
معاشرہ کی ترقی میں عورت اپنی علمی ، دعوتی، فکری اور ثقافتی صلاحیتوں کو اس طرح بروئے کار لائے کہ معاشی عمل میں اس کی شرکت اور اس کے فرائض منصبی کے درمیان مکمل توازن قائم رہے۔عورت کو صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور پھر اپنی صلاحیتوں اور علم سے سماج کو کوئی فائدہ پہنچائے بلکہ اسے معاشرے کی ترقی اور بیداری میں ایک فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ عورت کی اس شرکت کا فائدہ صرف سماج کو ہی نہیں پہنچے گا بلکہ اس کا نفع خود اس کو ذاتی ، عقلی، نفسیاتی، روحانی اور اخلاقی طور پر بھی حاصل ہوگا۔
اس کے علاوہ کچھ ایسے فوائد بھی ہیں جو خود عورت کی ذات کے شخصی ارتقا میں معاون ہوتے ہیں ان میں چند درج ذیل ہیں:
۱۔خود معاملات کو سنبھالنے اور اس سے نبرد آزما ہونے سے عورت کی صلاحیت کی ترقی۔
۲۔ معاشرے کے حالات و واقعات سے براہ راست واقفیت اور ان کو بہتر بنانے کا عملی تجربہ۔
۳۔ ان سرگرمیوں سے متعلق ماہرین کی رہ نمائی ملاقات اور گفت و شنید سے حاصل کردہ تجربات سے عورت کی واقفیت اور علم میں وسعت۔
۴۔ خالی اوقات کا قیمتی مثبت مشاغل میں استعمال۔
۵۔معاشرے کے حالات و واقعات سے واقفیت اور تجربے کی وجہ سے بچوں کی تربیت کے انداز میں بہتری۔
۶۔ ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت سے خود اس کی ثقافتی معیار میں ترقی۔
خاندان سے متعلق فوائد
۱۔ اگر والدین، بھائیوں اور بہنوں کا کوئی کفیل نہ ہو یا ان کی آمدنی ان کے لئے کافی نہ ہو تو ان کی کفالت۔
۲۔اگر شوہر بیمار، مریض یا معذور ہو یا آمدنی کم ہو تو اس کی مدد۔جیسے کہ حضرت زینب ثفقیؓ جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں اور زینب انصاریہؓ جو ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی تھیں، ان دونوں کے شوہر نفقہ دینے سے عاجز تھے اور یہ دونوں خواتین اپنے ہاتھ کی کاریگری اور دستکاری سے چیزیں بنا کر فروخت کرتی تھیں اور اپنے شوہر اور دوسرے زیر کفالت لوگوں کا نفقہ اٹھاتی تھیں، اللہ کے رسولؐ نے ان کے نفقہ کو دہرے اجر کا باعث بتایا۔ ایک تو صدقے کا اجر اور دوسرے قرابت کا اجر۔
۳۔ اگر شوہر کا انتقال ہو جائے تو بچوں کی ضروریات کی فراہمی اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے معاشی جدوجہد کے ذریعہ گھریلو مسائل کے حل میں شرکت۔
۴۔ بیرون خانہ کے معاملات سے واقفیت کی بنا پر اولاد کوزندگی کے عملی مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت دینا۔
۵۔ عملی زندگی سے واقف ہونے کی بنا پر شوہر اور رشتے داروں کو صحیح مشورے دینا۔
۶۔ طلاق شدہ ہونے کی بنا پر اپنی اور بچوں کی کفالت۔
معاشرے سے متعلق فوائد
۱۔ طب، تدریس، اور لڑکیوں کی تعلیم جیسے سماجی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے بڑی حد تک معاشرہ کے لئے نفع کا ذریعہ ہونا۔
۲۔ بالخصوص ان کاموں میں عورت کی صلاحیتوں سے مستفید ہونا جنہیں مرد زیادہ بہتر طور پر انجام نہیں دے سکتے۔ جیسے پری اسکول اور پرائمری تک کے بچوں کی تعلیم۔
۳۔ اس سلسلے میں مردوں کے ساتھ عورت کی شرکت کے ذریعے ہمہ گیر و مکمل سماجی و معاشرتی ترقی کا حصول۔
امت سے متعلق فوائد
ہماری امت کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ کام کرنے والے ہوں اور عورت نصف معاشرہ ہے اور اگر معاشرے کا نصف معطل رہے گا تو عظمت امت کو حاصل نہیں ہو سکتی۔
عصر حاضر میں عورت کے لئے کام کرنے ، ترقی کرنے اور سماجی سرگرمیوںمیں شرکت کرنے کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں۔ بعض عورتیں اپنی ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں سے یا تو سبکدوش ہو چکی ہوتی ہیں یا ان پر یہ ذمہ داریاں بہت کم ہوتی ہیں جیسے وہ عورت جس کے یہاں اولاد نہ ہو، یا بچے بڑے اور ذمہ دار ہو گئے ہوں یا جس نے شادی ہی نہ کی ہو ایسی عورتیں اپنی صلاحیتوں اور خیر سے معاشرے اور خاندان کی معاش میں بہترین کردار ا دا کر سکتی ہیں۔
آج ہمارے سماج میں معاش کی بہت سی نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں نیز ایسی ضرورتیں بھی پیدا ہو گئی ہیں جنہوں نے اس میدان میں عورت کی شرکت کو لازم کر دیا ہے۔ مثلا جدید طبی ترقیاں، عورتوں کا علاج، ان کے مخصوص مسائل اور امراض کاعلاج جن کے لئے عورت طبیب کا ہونا سماج و معاشر کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے معلمات کا ہونا، ایسے اداروں میں بھی معلمات کی موجودگی جہاں مشترکہ تعلیم کا نظام ہو تاکہ لڑکیاں اپنے مسائل میں عورت استاد سے رابطہ کر سکیں۔کٹنگ اور ٹیلرنگ کا میدان، بیوٹیشن کا میدان، ڈے کئیر، پلے اسکول وغیرہ میں عورت ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی ضرورتیںبھی عورتوں کے لئے لازم قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے شایان شان معاشی سرگرمیاں انجام دے کر اپنا خرچ چلا سکیں اور معاشرہ کی خدمت کر سکیں۔
موجودہ دور میں بہت سے ایسے سماجی و معاشرتی شعبے وجود میں آئے ہیں جہاں نسبتاً محفوظ، آزاد اور متوازن انداز میں اپنی خدمات دے کر سماج و معاشرے کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور کسب معاش بھی کرسکتی ہیں۔
۱۔ ایسے آسان کام جو گھر میں کرنا ممکن ہے جیسے کپڑا بننا، سلنا اور کرھائی بنائی وغیرہ۔
۲۔ پری نرسری اور نرسری اسکولوں میں سروس کرنا۔
۳۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم دینا۔
۴۔ ڈاکٹر، نرس اور اسپتال کے دوسرے عملے کی ذمہ داریاں نبھانا بالخصوص عورتوں اور بچوں سے متعلق۔
۵۔ عورتوں اور بچوں کے لئے مفید اور معاشرے کی ضرورت پورے کرنے والے کام جو بھی عورت کر سکتی ہے وہ شرعی اصولوں کے پسندیدہ اور باعث اجر و ثواب ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایسی بہت سی صورتیں ہیں جن کو اپنا کر ایک مسلم عورت گھراورمعاشرے کی معاش کو بہتر بناسکتی ہے۔ مثلا:
۱-اولاد کی اس طرح سے پرورش و پرداخت کرے کہ وہ سماج کے بہترین فرد کے روپ میں پروان چڑھے، انہیں نیک و صالح بنانے کے ساتھ محنت، جفاکشی، ذمہ داری کا احساس دلاتی رہے، بہترین طالب علم کی صورت میں معاشرے کا ایک ذمہ دار اور فعال فرد بنائے۔
۲۔ اپنے گھر کو سلیقہ مندی، کفایت شعاری اور قناعت پسندی سے چلائے تاکہ شوہر کی کم آمدنی میں بھی اس کا گھر اور خاندان بد حالی کا شکار نہ ہونے پائیں۔
۳۔ خود اپنی تعلیمی لیاقت سے فائدہ اٹھا کر گھر کے اندر رہتے ہوئے وہ شوہر کی معاشی ذمہ داریوں میں حصہ بٹا سکتی ہے ۔ مثلا ٹیوشن کرکے یا خود اپنے بچوں کو پڑھا کر تاکہ ان کے ٹیوشن پر خرچ ہونے والی رقم بچ سکے یا انٹر نیٹ کے ذریعے تعلیم دے کر یا اپنے ہنر دوسروں کو سکھا کر وہ گھر اور سماج کی معاشی بدحالی دور کر سکتی ہے۔
۴۔ اپنی ہنر مندی کے ذریعے وہ گھر میں رہتے ہوئے معاش میں حصہ لے سکتی ہے۔ مثلا سلائی کڑھاہی کرکے یا کچھ پکوان وغیرہ بنا کر جیسا کہ ٹفن سسٹم ہوتا ہے اس کے ذریعے وہ اچھا خاصا پیسہ کما سکتی ہے۔
۵۔ اپنی ضرورتوں کو کم سے کم کرکے مثلا شاپنگ ، میک اپ ، کپڑے وغیرہ پر کم خرچ کر کے وہ اپنے شوہر کی آمدنی کو بچا کر کار آمد کاموں میں استعمال کر سکتی ہے۔