گھر بھر کی صحت میں عورت کا کردار

ڈاکٹر سمیہ تحریم بنت امتیاز احمد

پاک حضرت محمدؐ کے ایک قول کا حصہ ہے کہ ’’صحت کو غنیمت جانو بیماری سے پہلے۔‘‘ صحت اللہ رب العزت کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔صحت ایک اہم ترین ایشو اس لیے بھی ہے کہ ایک صحت مند جسم ہی وہ سارے کام کر سکتا ہے جو ہماری روز مرہ کی زندگی بھی ہے اور ہمارا مقصد بھی۔ ایک اسلامی معاشرہ کے قیام کی کوشش ہو، دعتِ دین کا کام ہو یا صرف عام گھریلو زندگی، ہر جگہ صحت مندی کا رول بہت اہم ہے۔ ایک بیمار اور تھکا ماندہ جسم اچھی طرح سے زندگی کو نہیں چلا سکتا اور نہ ہی اتنا فعال اور سرگرم رہ سکتا ہے جتنا ایک صحت مند اور چست جسم۔ گھر کے افراد صحت مند رہیں، ان کی غذائی ضروریات بہتر انداز میں پوری ہوں اور گھر میں آکر ہر ایک سکون اور تازگی محسوس کرے، اس طرح کا ماحول بنانے میں خانون خانہ کا رول نہایت اہم ہے۔ وہ لوگوں کو بیماریوں سے بچانے بھی کلیدی رول ادا کرسکتی ہے اور جسم و ذہن کو قوت و جذبہ دینے میں بھی اہم کردار نبھا سکتی ہے۔ آج کے اس مضمون میں اسی رول پر گفتگو ہوگی۔

اس عنوان کو ہم دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔

۱- اپنی ذاتی صحت کے متعلق عورت کا کردار

۲- گھر بھر کی صحت میں عورت کا کردار

اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہماری خواتین گھر بھر کا خیال تو رکھتی ہیں لیکن ان کے لیے خود اپنا خیال رکھنا اور اپنی صحت پر توجہ دینا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ وہ خود اپنی صحت سے متعلق لاپرواہی برتتی ہیں۔ شاید انھیں لگتا ہو کہ وہ ہر حال میں صبر کر جائیں گی اور یہ بھول جاتی ہیں کہ یہ صحت سے برتی جانے والی لاپرواہی اور غفلت بڑھتی عمر میں ان کی زندگی کو کتنا مشکل بنا دے گی۔

صحت ترجیح اول

گھر بھر کی صحت میں آپ تبھی کوئی اہم رول ادا کرسکتی ہیں جب آپ خود صحت مند ہوں۔ خواتین کا صحت کے تعلق سے سب سے بڑا مسئلہ غذائیت کی کمی کا ہوتا ہے۔ یہ سب سے بنیادی اور سب سے اہم چیز ہے لیکن پھر بھی نظر انداز ہو جاتی ہے۔ ماہواری، پریگنینسی سے پہلے اور اس کے بعد ان تمام مرحلوں میں ایک خاتون اپنے جسم کی بے شمار غذائی توانائی کو، جو اس کے جسم میں جمع شدہ ہوتی ہے، صرف کرتی ہے۔ آئرن، کیلشیم وغیرہ کو بطور خاص استعمال کرتی ہے۔ اسی سبب خاتون کا جسم عام مردوں کے مقابلے زیادہ غذائیت اور توانائی چاہتا ہے، لیکن اس کے برعکس لاپرواہی کی بنا پر غذائیت کی کمی ہونے لگتی ہے جو بالآخر بہت سی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔

ان باتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں کسی اور کے لیے نہیں بلکہ خود کے لیے خود کا خیال رکھنا ہے۔ فطری تخلیقی عمل کو بہتر انداز سے انجام دینے کے لیے بھی اور سماج کے لیے اچھے کام انجام دینے کے لیے بھی اپنی صحت کا خیال رکھنا ہے۔جب یہ بات ذہن میں بیٹھ جائے تو پھر اس کے لیے ایک عملی لائحہ عمل بنائیں ار اپنی صحت میں بہتری کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ذہل میں ایسے چند اقدامات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو آپ کی صحت کو بہتر بنانے اور نقائص سے دور رکھنے میں مددگار ہوں گے۔

غذائیت سے بھرپور غذا

خواتین کی بہتر صحت کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ایسی غذا زیادہ استعمال کریں جس میں غذائیت یعنی کیلشیم، آئرن، پروٹین اور جسم کے لیے مطلوب دیگر غذائی معدنیات بھرپور مقدار میں پائی جاتی ہوں۔

غذائیات خود ایک بڑا موضوع ہے لیکن یہاں پر ہم صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کر یں گے کہ انہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ ان کے یہاں استعمال ہونے والے غذائی اشیا میں کون کون سے غذائی اجزا کس مقدار میں موجود ہیں۔ اسی طرح ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ غذائی قلت کو کس طرح سے کن چیزوں کو استعمال کر کے پورا کیا جاسکتا ہے۔

اس کے لیے خاتون خانہ کے لیے لازمی ہے کہ وہ غذائیات کے مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور چیزوں کے خواص اور خوبیوں کو جانیں۔ یہ کہاوت مشہور ہے کہ غذا علاج سے بہتر ہے۔ ارسطو کے نزدیک اول درجہ کا حکیم وہ ہے جو غذا کی تبدیلی کے ذریعے علاج پر قادر ہو۔

یہ بات بھی اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ ہماری خواتین دودھ پینے سے کتراتی ہیں اور دن بھر میں تین چار بار دودھ پتی، پی کر سمجھتی ہیں کہ جسم کو دودھ کی طاقت حاصل ہوگئی ہے۔ خواتین کو ہڈیوں کی کمزوری اور مختلف قسم کے فریکچرس کا سامنا اکثر اسی وجہ سے کرنا پڑتا ہے کہ وہ دودھ اور اس سے بنی چیزوں مثلا دہی، لسی اور چھاچھ وغیرہ کا استعمال بہت کم کرتی ہیں، جو کہ کیلشیم کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یا سن یاس جو عموماً ۴۵ سال کے بعد ہوتا ہے اور اس مرحلے میں ماہواری آنا بند ہوجاتی ہے، کے بعد خواتین کو ہڈیوں کے بوسیدہ ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسی صورت میں ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں۔ ہڈیوں میں درد رہنے لگتا ہے۔ معمولی سے گر جانے کے سبب ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ خصوصاً کولہے کی ہڈی ایسی صورت میں زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ خلاصہ کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھرپور غذا ہی صحت مندی کی ضمانت دیتی ہے۔ بھرپور غذا کا مطلب مہنگی اشیا کا استعمال ہرگز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بخشیدہ نعمتوں اور ان کی خصوصیات کا علم آپ کو بہت کم قیمت پر بھی اس سلسلے میں بھرپور غذائیت فراہم کرسکتا ہے۔

۲- دوسری اہم چیز یہ ہے کہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہوں، ورزش کو اپنے معمول میں شامل کرلیں۔ صبح یا شام کے وقت صرف آدھا گھنٹہ ہی کی جانے والی ورزش یا تیز رفتار کی واکنگ اپنے اندر کرشماتی اثر رکھتی ہے۔ یہ جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی صحت پر بہت خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے اور ایسے ماحول میں جبکہ نفسیاتی امراض عروج پر ہیں ہمیں نفسیاتی اعتبار سے بھی صحت مند رکھتی ہے۔

گھر بھر کی صحت

یہاں اب ہم یہ مان کر چل رہے ہیں کہ گھر بھر کی صحت میںکلیدی رول ادا کرنے والی عورت خود بھی ایک صحت مند جسم رکھتی ہے اور اس صحت مند جسم کے اندر ایک صحت مند دماغ بھرپور انداز میں کام کر رہا ہے۔

اب ہم گھر بھر کی صحت کو بھی مزید دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

۱- گھر کا صحت مند ماحول ۲- گھر کے افراد کی صحت

۱- گھر کی صحت

وہ گھر جو اینٹ اور پتھر سے مل کر بنتا ہے اس کے لیے صحت مند ماحول بھی بہت ضروری ہے۔ گھر کا ماحول صحت مند رہے گا تو گھر کے افراد بہت سے مسائل سے محفوظ رہیں گے۔ صحت اور صحت مند ماحول قدرت کا عطیہ ہیں اور یاد رہنا چاہیے کہ صحت کی ابتدا اپنے گھر سے ہوتی ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم جہاں اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنے کی فکر کریں وہیں اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ گھر میں ہوا اور روشنی کا گزر آسانی سے ہو اور یہ چیزیں اپنی پوری تازگی کے ساتھ آتی اور جاتی رہیں۔ کھڑکیوں اور روشن دانوں کا انتظام ہو اور موسم کے اعتبار سے بچاؤ اور بہتری کے تمام ذرائع مہیا ہوں۔ گندگی، گندی ہوا، دھول، دھواں اور حشرات الارض کے علاوہ آلودگی اور بیماری پیدا کرنے والے اسباب سے تحفظ فراہم کرتا ہو۔ ناقص طرز رہائش اندرونی آلودگیاں، کیڑے مکوڑوں کی افزائش، زہریلے کیمیائی مادوں کے جماؤ اور گھریلو گندگی اور غلاظت کے باعث سنگین بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ آلودگی جسم کے اندر جا کر سانس کے مسائل، سر درد، متلی، چکر، دمہ، نمونیا، پھیپھڑوں کی خرابی اور پھیپھڑوں کے کینسر وغیرہ کے علاوہ ٹی بی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

گھریلو فضا کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

٭ ہوا کی نکاسی کا صحیح انتظام اور دھوپ کا صحیح انداز میں ملنا ضروری ہے۔ کچن تنگ، تاریک اور رقبے میں بہت چھوٹا نہ ہو۔ کچن اگر چھوٹا بھی ہو یا کھانا آج کے دور میں بھی لکڑیاں جلا کر پکایا جا رہا ہو تو کچن کی چھت پر اونچی سی چمنی لگا دینا اس کے خطرناک اثرات کو کم کر دیتا ہے۔

٭ گھر کی صفائی کے لیے محفوظ کیمیائی مادے استعمال کیے جائیں اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو دیگر ذرائع سے صفائی کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔

٭ گھر ہر وقت بند اور Packنہ رہے بلکہ گھر میں ہوا مناسب مقدار میں آئے اور آلودہ ہوا آسانی سے خارج ہو تاکہ زہریلے مادے گھر میں جمع نہ رہیں۔

٭ نمی کا تناسب نہ بڑھے ورنہ پھپھوندی اور دیمک وغیرہ کی افزائش بڑھ جاتی ہے، جو اہل خانہ کے لیے صحت کے مسائل پیدا کرتی ہے۔

٭ گھر میں دھواں جمع نہ ہو جو کہ ہوا کی نکاسی برابر نہ ہونے پر کھانا پکانے کے دوران جمع ہوجاتا ہے۔ دھواں بے شمار سانس کے امراض کا سبب بنتا ہے۔

٭ کپڑے اور بستر کی چادریں وقتا فوقتا تبدیل کی جانی چاہیں اسی طرح اہل خانہ کے لباس مناسب وقت پر بہتر انداز سے دھلتے اور تبدیل ہوتے رہیں۔

الرجی کا امکان

گھر میں موجود بہت سی اشیا الرجی کا سبب بن سکتی ہیں۔ مثلاً صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیائی محل، پھپھوندی، دیمک، لال پیگ، چوہے اور مختلف کیڑے مکوڑوں سے الرجی سے ملتی جلتی ایک شکایت Multiple Sensitiveityہوجاتی ہے۔

الرجی دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ :

٭ الرجک رد عمل کا سبب بننے والی چیزوں کا استعمال ختم کریں۔ گھر کو گرد و غبار سے بچائیں۔

٭ گرد میں نہ نظر آنے والے جراثیم ہوسکتے ہیں جو الرجی پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ناک اور آنکھوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور دمے کا باعث بن سکتے ہیں۔ تکیوں، بیڈ کے کور مناسب وقت پر تبدیل کریں۔ اونی ملبوسات، پلاسٹک کی اشیا اور بچوں کے کھلونوں کو اچھی طرح صاف کریں اور ہوسکے تو گرم پانی سے دھوئیں۔ چھوٹے بچوں کی چیزوں کی صفائی کا بھی خیال رکھیں اور ان جگہوں کی صفائی کا بھی جہاں وہ چلتے پھرتے یا کھیلتے اور رینگتے ہیں۔

کیمیائی مادوں کے بغیر تحفظ

حشرات الارض پر قابو پانے کے لیے اگر موثر پیسٹ کنٹرول استعمال کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے تو احتیاط علاج بہتر ہے۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ بہت سی اس طرح کی معلومات انٹرنیٹ پر دست یاب ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ نیم اور لونگ کی دھونی کا ہے۔ نیم کے پتے اور لونگ ایک مٹی کے پیالے میں جلا کر ان کا دھواں سارے گھر میں رکھا جائے تو مچھر، مکھیوں اور بہت سے پتنگوں سے نجات مل جاتی ہے۔

٭ اڑنے والے کیڑوں کے لیے تلسی کے پتے کچل کر پانی میں ۲۴ گھنٹے بھیگے رہنے دیں اور پھر پانی نتھار کر اس پانی کا اسپرے کمروں میں کردیں۔ مچھر اور مکھیاں اندر داخل نہ ہوسکیں گے اور گھر کا ماحول خوش گوار بنا رہے گا۔ اگر نیم کے پتوں کی دھونی آپ نہیں دینا چاہتے تو تلسی کے پتوں کا استعمال کریں۔

گھر کے افراد کی صحت

کچھ دن پہلے پاکستان کی شائع ایک کتاب نظر سے گزری۔ اس کا عنوان تھا ’’آپ کا کچن آپ کا کلینک‘‘ کتاب میں انسانی صحت کے لیے ایسے نسخے بتائے گئے تھے جو تمام کے تمام ان چیزوں پر منحصر تھے جو ہمارے کچن میں مختلف طریقوں سے استعمال ہوتی ہیں۔ کچن وہ جگہ ہے جہاں سے ایک خاتون سارے گھر کی صحت کو بڑی حد تک کنڑول کرسکتی ہے اور عملا کرتی ہے۔ اور اگر بیرونی اسباب سے ہونے والی بیماریاں بھی ہوں تو اس کا بنیادی سبب ہوتا ہے قوت مدافعت کی کمی، جو کہ غذائیت کی کمی، ذہنی دباؤ یا غیر صحت مند طرزِ عمل کی وجہ سے حملہ آور ہوتی ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے کچن میں ایسی اشیا رکھی ہیں جو ہماری قوت مدافعت کو بڑھانے میں نہایت کارگر ہیں۔

پانی

پینے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی صفائی بہت اہم ایشو ہے۔ آلودہ پانی کے استعمال سے ڈائریا،گیسٹرو، یرقان، ہیپٹائٹس جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ پانی کا صاف نظر آنا اس کی صفائی کی علامت نہیں ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ

٭ پانی کے برتنوں کی صفائی کا خصوصی اہتمام ہو۔

٭ پانی کو ابال کر اور پھر ٹھنڈا کر کے استعمال کیا جائے۔ جب پانی مکمل طور پر ابال لیا جائے تو اس میں پھٹکری کا استعمال کریں۔

صفائی کا اہتمام

سبزیوں اور گوشت کو اچھی طرح پانی سے دھوکر استعمال کریں تاکہ بازار دھول، گاڑیوں کے دھویں، کیڑے مکوڑوں اور مکھیوں کے مضر صحت اثرات زائل ہوجائیں۔ پکانے کے برتن، چمچے، پلیٹ وغیرہ استعمال سے پہلے دھولیں۔ بظاہر صاف نظر آنے والے برتنوں پر بھی دھول، گرد کی ایک ہلکی نامحسوس تہہ ضرور ہوتی ہے۔

متوازن غذا:

متوازن غذا وہ عنوان ہے جو ہر کوئی ہوم سائنس میں پڑھتا ہی پڑھتا ہے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ جو پڑھا ہے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اگر متوازن غذا کو گھر میں رائج کیا جائے، کھانوں میں نمک، تیل اور زائد چکنائی کا استعمال کم سے کم ہو تو بہت سے نقصانات سے اور بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

نمک:نمک ہمارے کھانوں میں ایک بنیادی اور لازمی چیز ہے۔ چنانچہ یہ سوچے بغیر کہ اس کی کتنی مقدار مفید اور کتنی مضر ہے اسے جزو بدن بنایا جا رہا ہے حالاں کہ نمک کی زیادہ مقدار سے ہائی بلڈ پریشر اور کڈنی کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ بازار میں ملنے والی اشیا میں بھی نمک کی ایک بڑی مقدار ہوتی ہے اور ان میں سب سے خطرناک اجینو موتو نامی نمک ہے۔ اجینو موتو نامی نمک اکثر چائنیز کھانوں اور فاسٹ فوڈ میں استعمال ہوتا ہے جن کا مسلسل حد سے بڑھا استعمال کینسر لاحق کرتا ہے۔ اعتدال تو ہر چیز میں ضروری ہے۔ گھر میں نمک کا استعمال کم ہی کریں اور باہر کے کھانے کے لیے کچھ اصول اور حدود متعین کریں۔ مثلا مہینے میں ایک مرتبہ باہر کا کھانا کھایا جاسکتا ہے یہ نہ ہو کہ ہر دوسرے دن باہر کا کھانا کھایا جا رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ باہر کا کھانا کھایا ہی نہ جائے، پزّہ، نوڈلز، چکن کی باہر کی بنی ڈشز سے پرہیز کریں یا ان کا محدود استعمال کریں۔

چکنائی: دنیا میں سب سے زیادہ اموات دل کی شریانوں سے متعلق امراض سے ہوتی ہیں، جیسے امراض قلب ہارٹ اٹیک، خون کی نالیوں میں سدے جو مزید دشواریوں کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب زائد چکنائی، گھی، تیل وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تمام اشیا جسم میں کولیسٹرول کے لیول کو بڑھا دیتی ہیں، یہ زائد کولیسٹرول جسے حرفِ عام میں لوگ چربی کہتے ہیں، خون کی نالیوں میں جمع ہو جاتا ہے اور دھیرے دھیرے انھیں بند کرنے لگتا ہے یوں خون کی کم مقدار دل تک جاتی ہے اور جب یہ مکمل بند ہوجاتے ہیں تو وہ ہارٹ اٹیک آتا ہے۔

تھوڑی بہت چکنائی تو ہمارے جسم کے لیے ضروری ہے لیکن زیادہ چکنائی سے پرہیز لازما کریں۔ کھانا پکانے میں مکھن اور گھی کے بجائے زیتون، سرسوں، سورج مکھی کا تیل استعمال کریں۔ اگر غذا متوان نہ ہو، اور نہ ہی اعتدال کے ساتھ ہو تو پھر موٹاپے کی شروعات ہوتی ہے۔ اچھی یا مفید غذا کے سلسلے میں توازن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم غذائی ضرورت سے زیادہ حرارے حاصل کر رہے ہیں اور اتنے خرچ نہیں کر رہے تو وزن بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور بڑھتا وزن صحت کو متاثر کرتا ہے، مٹاپا خود کئی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔

پھل اور سبزیوں میں قدرتی طور پر حرارے کم ہوتے ہیں اور چکنائی بھی کم ہوتی ہے لہٰذا یہ اچھی صحت برقرار رکھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔ ان میں وٹامن، مینیرل اور اینٹی آکسیڈنٹ خاصی مقدار میں ہوتے ہیں جو صحت کے لیے بھی بہت مفید ہوتے ہیں۔ دن بھر کے کھانے کا مینو اس طرح ترتیب دیں کہ ایک پھل اور ایک سبزی، خواہ بطور سلاد ہی کیوں نہ ہو، کھانے میں لازماً آجائے۔

یہ چند ایک باتیں ہیں جو صحت مند رہنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں اور یہ سب ایک خاتون کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ تو صاف صفائی کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ کھانے کا مینو اس طرح بنائیں کہ متوازن غذا کا حصول ممکن ہو، ہیلتھی اسنیکس بھی گھر میں ہی تیار کیے جاسکتے ہیں۔

اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی رفتہ رفتہ کریں، لیکن اس میں پائیداری ہو۔ کھانے پینے میں اور ورزش میں تھوڑی سی تبدیلی بھی اگر طویل مدت کے لیے کی جائے تو اپنا اثر دکھاتی ہے اور یاد رکھیں کہ آپ خود بھی اپنے لیے اہم ہیں اپنی صحت پر بھی توجہ دیں۔ جان ہے تو جہان ہے۔

آخری اور اہم: گھر بھر کی صحت سے ہماری مراد صرف جسمانی صحت ہی نہیں ہے بلکہ روحانی اور ذہنی و نفسیاتی صحت بھی ہے۔ ایسے ماحول میں جب کہ ہر شخص ذہنی دباؤ اور اسٹریس کا شکار ہے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ذہنی دباؤ یا ٹینشن ہائی بلڈ پریشر اور ساتھ ہی کئی اقسام کے کینسر کا باعث ثابت ہوا ہے۔ اس کے ذکر سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم گھر میں پرسکون، خوش گوار، محبت سے بھرپور اور الفت و محبت سے بھرا ماحول پیدا کریں جہاں لوگ ایثار و قربانی اور دوسروں کے لیے ادب و احترام اور شفقت و محبت کا برتاؤ رکھیں۔ ایک دوسرے کی جسمانی و ذہنی صحت پر نظر رکھیں اور گھر کا ماحول ایسا تشکیل دینے کی کوشش کریں جہاں کسی کو کسی بھی قسم کا تناؤ نہ ملے بلکہ الٹا ایسا ہونا چاہیے کہ اگر کوئی باہر کا اسٹریس لے کر گھر میں آئے تو وہ ختم ہوجائے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھر میں اسلامی اخلاق کی اقدار کو مضبوط کریں۔ لوگ گھر کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے والے ہوں، حق لینے سے زیادہ دینے کی فکر کرتے ہوں اور ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کو تیار ہوں۔ چھوٹے بڑوں کا ادب و لحاظ کرتے ہوں اور بڑے چھوٹوں پر شفقت و محبت لٹاتے ہوں اور ایسا اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنا اپنا فرض تصور کریں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں