قرآن پاک کی سب سے مختصر سورہ الکوثر ہے جو ہر بچے بڑے کو ازبر ہوتی ہے، آئیے اس سورہ کے ترجمے پر غور کریں ’’اے نبی! ہم نے آپ کو کوثر عطا کی۔‘‘ یہ نہر کوثر روز قیامت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جائے گی اور آپؐ اپنے امتیوں کو اس نہر سے سیراب فرمائیں گے۔ اور اب حدیثِ رسولؐ کا بھی مطالعہ کیجیے جس میں ہے کہ کچھ لوگ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی کوشش کریں گے تو انہیں روک دیا جائے گا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوچھیں گے کہ انہیں کیوں روک دیا گیا، یہ تو میرے امتی ہیں، تو کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپؐ کے بعد دین اسلام میں نئی چیزیں داخل کیں اور بدعات کو فروغ دیا۔
روزِ محشر اس شرمندگی سے بچنے کے لیے کیا ہم اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں کہ وہ کون سی نئی بدعات ہیں جن کوہم نے یا ہمارے گرد رہنے والوں نے اپنا لیا ہے؟ بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانا کیا ہماری قوم کا کلچر یا ہماری تہذیب کا حصہ ہے؟ کروڑوں روپے خرچ کرکے جن تہواروں کو ہماری زندگیوں کا حصہ بنانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائی جارہی ہے کیا ان تہواروں کو منا کر اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر ہم اس قابل رہیں گے کہ روزِ محشر رسولؐ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر سے فیضیاب ہو سکیں!
میں آپ سب کو مسلمان قوم ہونے پر قابلِ فخر اور خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ اللہ پاک نے ہمیں اور آپ کو امتِ محمدیؐ میں شامل کیا۔ لیکن اس حوالے سے ہمارے کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جنہیں پورا کرنا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
مسلمان ہونے کے ناتے ہماری کچھ شناخت ہے، اور اس شناخت کو قائم رکھنے کے لیے ایک طریقہ زندگی ہی جسے اپنانے سے ’’مسلمان‘‘ کا ’’اسلامی تشخص‘‘ اجاگر ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت ہمیں سمجھاتی ہے کہ دین ایک سیدھا سادہ اور آسان طریقہ زندگی ہے، اس میں ہر انسان کے لیے آسانی اور سکون ہے۔ مگر دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شریعت کو بگاڑنے کی سازشوں میں آج مسلمان بھی جکڑے جا رہے ہیں اور اس پیارے دین کی اصل شکل و صورت سے محروم ہورہے ہیں۔ مختلف قسم کی بے ہودہ رسمیں آج ہمارے گھروں میں جگہ پارہی ہیں۔ ہماری شادی بیاہ کی تقریبات کے اندر ہندو اور مغربی کلچر کی آمد اور رواج بہت پریشان کن بات ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا کلچر ہمیں آخرت کی سرخروئی کی طرف لے جاتا ہے، مگر آج کی نئی نسل ہندو اور مغربی کلچر پر چلنا باعثِ فخر سمجھ رہی ہے۔
فروری کے آغاز سے دکانوں پر ’’سرخ بتیاں‘‘ جل جانا اور محبت کا دن منانا انتہائی دکھ کی بات ہے۔ اسلام پاکیزہ مذہب ہے اور اسلامی شعائر کا احترام کرنے میں ہی آخرت کی سرخروئی ہے۔ میں سب مسلمان بہنوں اور بھائیوں سے درخواست کرتی ہوں کہ جہاں بھی ماہِ فروری میں سرخ رنگ کی بتیاں آویزاں دیکھیں اس کو روکنے کا اہتمام ضرور کریں اور اخبارات اور رسائل میں بھی اس کے خلاف آواز اٹھائیں، تاکہ آنے والی نئی نسل اس برائی سے بچ جائے جس کی نوید یہ غلط طریقۂ زندگی سنا رہا ہے۔
درحقیقت اللہ پاکیزہ ہے اور اس کا بھیجا ہوا مذہب بھی پاکیزہ ہے۔ اور وہ اپنے ماننے والوں کو بھی پاکیزگی کا درس دیتا ہے۔