دونوں پڑوسیوں کے منہ سے نہ صرف ایک دوسرے کے لیے بْرے القابات و گالی گلوچ کی بارش ہو رہی تھی بلکہ باہم دست وگریبان بھی تھے۔ ایک سیر تو دوسرا سوا سیر۔ آس پڑوس نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی لیکن کچھ نہ حاصل ہوا۔ دونوں کے خاندانوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی سرد جنگ آج بھی جاری ہے۔
……
صبا آئے ہوئے مہمانوں کی تواضع و آؤ بھگت میں مصروف تھی۔ نرمی اور خوش اخلاقی کا یہ برتاؤ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہورہا تھا کہ اس کی آپا کس قدر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد اس نے اپنی آپا سے کہا: آپا انہی لوگوں نے آپ کی زندگی میں زہر گھولا اور آپ کو بے گھر کیا آج آپ کا ان سے رویہ اور برتاؤ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔ آپا نے ہنس کر اپنی چھوٹی بہن سے کہا ’’بیٹا لڑائی جھگڑے تو ہوتے رہتے ہیں لیکن ہر رشتے اور ناتے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ انہیں عزت احترام مان سمان دینا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ بحیثیت ایک مسلمان کے ہمارا فرض ہے کہ آئے ہوئے مہمان کی حسبِ حیثیت تواضع کریں۔ آنے والے مہمان نے آپ کے ساتھ کیا کیا اس کو بھول کر اور تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر اس کا خوش دلی سے استقبال کریںاور اس چیز کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ محبت اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ یہ تکبر کی نشانی ہے کہ ہم دوسروں کو اپنے سے کم تر جانیں یا ان کی کی گئی زیادتیوں کو دل میں بٹھا کر اختلافات کو مزید بڑھائیں۔ اسلام تو اجنبیوں کو بھی سلام کرنے کی تاکید فرماتا ہے۔ پھر یہ تو رشتہ دار ہیں، ان کے حقوق تو دگنے ہیں۔
……
بھائی آپ ہی جْھک جائیں، اختلافات کو ختم کرکے ایک دوسرے کو گلے لگائیں، اتنا تنازع معمولی بات پر…اس طرح تو رشتے ٹوٹ جائیں گے۔
رشتے ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹیں مجھے کوئی پروا نہیں، مجھے جھکنے کو کہہ رہی ہو، اسے کیوں نہیں کہتی کہ مجھ سے آکر معافی مانگے۔
دونوں طرف سے ہی تلخ کلامی ہوئی ہے، ہم نے اسے بھی سمجھایا ہے کچھ آپ آگے بڑھیں، کچھ وہ بڑھے گا۔
ہرگز نہیں، میں نہیں جْھکوں گا، اسے ہی مجھ سے معافی مانگنی ہوگی۔
……
حنا،آپ نہیں چل رہیں ہیں…آپ کے اصغر ماموں کے بیٹے کی شادی ہے۔
نو مما… یہ آپ کے غریب رشتے دار مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔
نہیں بیٹا، ایسا نہیں کہتے۔ خیر غریب تو نہیں ہیں درمیانی لوگ ہیں ہماری طرح شان و شوکت والے نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے ہمیں عزت و احترام دیتے ہیں، ہمیں ان کی اس خوبی کی قدر کرنی چاہیے۔
اور آپ کے ماموں آپ کو کتنا پیار کرتے ہیں، پلیز مما، مجھے تو معاف ہی رکھیں، آپ ہی چلی جائیں پاپا کے ساتھ۔ ویسے بھی مجھے بہت سارے کام نمٹانے ہیں۔
……
عقیلہ سیما کی سال گرہ میں اس کے گھر پہنچی تو اس کا موڈ ہی آف ہوگیا، کیوں کہ عقیلہ نے اپنی سال گرہ پر اپنی ما تحت لڑکیوں کو جو درمیانی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھیں،نہ صرف مدعو کیا تھا بلکہ ان کے درمیان بیٹھی ان سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی، ساتھ ہی ان کی خاطر ومدارات بھی جاری تھی۔ مہمانوں کے جانے کے بعد عقیلہ نے اپنی کزن سیما پر طنز کیا کہ کیا انہیں اپنی سال گرہ میں بلانا ضروری تھا؟ لوگ کیا کہہ رہے ہوں گے اپنا اسٹینڈرڈ دیکھو اور ان کا۔ سیما کو اپنی کزن کی سوچ پر نہایت افسوس ہوا کہ صرف دو جملے اس کے جواب میں سیما نے کہے: ہمارے نبیؐکو اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کائنات کی عظیم تر ہستی بنایا، جس کے ہم اْمتّی ہیں، آپؐ غریب و امیر کے فرق کو مٹا کر زمین پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کھانا نوش فرماتے اور آئے مہمان کی تواضع کرتے، ہم تو ناچیز اور حقیر بندے ہیں اپنے رب کے۔
سعدی بیٹا، مجھے بڑا دْکھ ہوا ہے آپ کا رویّہ ڈرائیور کے ساتھ صحیح نہیں تھا۔ اگر اس سے آپ کو کوئی نقصان ہوا ہے یا تکلیف پہنچی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اس کو اتنا بے عزّت کرتے، اس کو یہی بات نرمی اور اخلاق سے بھی کہہ سکتے ہیں، محبت سے بھی سمجھا سکتے ہیں۔ یقیناً آپ کی محبت اسے اگلی مرتبہ اس طرح کی کوتاہی سے دور رکھتی۔
……
اوپر بیان کیے گئے رویّے عام طور پر ہمیں اپنے چاروں طرف نظر آتے ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ دین اسلام معاشرتی زندگی کو مستحکم کرنے کے لیے آپ میں محبت، نرمی تواضح، درگزر، انکساری اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہی وہ اخلاقی خوبیاں ہیں، جن کی وجہ سے دین اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ اس سلسلے میں آپؐ کا اسوہ حسنہ اور صحابہ کرام کا کردار و عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ فقیر و امیر کے امتیاز سے ہٹ کر لوگوں سے برتاؤ کرتے۔ غریب، مظلوم اوریتیم کی داد رسی کرتے اور ان سے محبت و نرمی سے گفتگو فرماتے۔ چھوٹے چھوٹے کام کرنے میں آپؐ نے کبھی عار محسوس نہ کیا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کا سلسلہ ہو یا صحابہ کرام کے ساتھ سفر کے دوران کھانا پکانا، یا اپنے گھر میں معمولی سے معمولی کام،اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند فرمایا۔ دوست تو دوست، دشمن سے بھی سختی سے بات نہ کی۔ کئی ایسے مواقع آئے، جب صحابہ کرامؓ نے دیکھا کہ لوگوں کا رویہ آپؐ کے ساتھ گستاخانہ تھا، لیکن آپؐ کی پیشانی پر بل نہ آتے۔ انہیں بددْعا دینا تو دور کی بات، غصہ سے جواب دینا بھی پسند نہ فرماتے۔ صحابہ کرامؓ کے ساتھ پھٹی چٹائی پر بیٹھنا پسند فرماتے، مہمان کی تواضع کرتے، اسے عزت و احترام بخشتے، مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک تشریف لے جاتے۔ حضرت زید بن حارثہؓ یا کسی غلام کے ساتھ بھی آپؐ کا رویّہ مشفقانہ ہوتا، ان کی غلطیوں پر درگزر فرماتے۔ نبوت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے کے باوجود جب حضرت حلیمہؓ اپنے قبیلے کے ساتھ جنگی قیدیوں کے ساتھ آپؐ کے حضور پیش ہوئیں تو ان کے استقبال کے لیے احترام اور عزّت دینے کے لیے آپؐ کھڑے ہو گئے اور ان کے قبیلے کے تمام افراد کو آزاد کردیا۔ اپنی دودھ پلانے والی انا کے ساتھ یہ محبت و الفت دیکھ کر ان کا تمام قبیلہ مشرف بہ اسلام ہوگیا۔آپؐ کے اسوہ حسنہ کی یہی جھلک ہمیں صحابہ کرام کے کردار و عمل میں بخوبی نظر آتی ہے۔ خلفائے راشدین کو دیکھ کر باہر سے آنے والے حیران ہو جاتے کہ سردار کون ہے؟ کیوں کہ امیر المومنین اور عام شہریوں میں انہیں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا بلکہ امیر المومنین میں زیادہ تواضع، نرمی اور خوش اخلاقی نظر آتی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کو جب خلیفہ بنایا گیا اور جب آپ مسند (منصب) پر کھڑے ہو کر خطاب کرنے لگے تو فوراً نیچے اتر آئے اور زمین پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں نے خطاب شروع کیا تو ایک لمحہ کے لیے میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ یہ منصب مجھے میری خوبیوں کی وجہ سے عطا کیا گیا ہے۔ میں ڈر گیا کہ کہیں میں خود پسندی اور تکبر کا شکار نہ ہو جاؤں، لہٰذا نیچے اتر آیا۔
مندرجہ بالا اخلاقی خوبیاں بندے میں جمع ہو جائیں تو وہ انسانیت کی اعلیٰ معراج پر پہنچ جاتا ہے۔ احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے اقوال سے ان خوبیوں کی اہمیت واضح ہے۔
نرمی کے بارے میں ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
’’اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی پسند فرماتا ہے۔ اور نرمی پر جو ثواب عطا فرماتا ہے، وہ سختی پر عطا نہیں فرماتا۔‘‘ (ابوداؤد)
حضرت ابو داؤدؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’حسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی میزانِ عمل میں کوئی چیز نہیں۔‘‘ (ابوداؤد)
اس طرح نرمی کے بارے میں صحیح مسلم کی حدیث شریف ہے۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اے اللہ، جو شخص میری اْمت کے لوگوں پر ان کے کسی کام کا ذمہ دار بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس پر سختی فرما اور جو میری اّمت کے کسی کام کا ذمّے دار بنا اور ان کے ساتھ نرمی کی تو تْو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما!‘‘
دیکھا جائے تو آج ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی ایک وجہ ان ہی اخلاقی خوبیوں کا فقدان ہے۔ محکمے میں چلے جائیں، وہاں افسران بالا سے واسطہ جس کی بدولت معاشرے میں توازن اور مساوات کی کمی نظر آتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو ہمارے صحابہ کرامؓ اور تابعین و تابع ثابعین جیسے عمل داروں کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک کو انصاف اور اس کا حق میسر آسکے اور سب ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہو کر رہیں۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں رہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ پہلا قدم ہمارا بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنے اندر ان خوبیوں کو جمع کریں اور ان کا مظاہرہ کریں۔ یقینا آپ کو خود بھی تسکین اور اطمینان نصیب ہوگا۔ میرا تجزیہ و مشاہدہ ہے کہ جب بھی میں نے اپنے مخالف سے ذرا غصے اور سختی سے بات کی، چاہے وہ میرا ماتحت ہی کیوں نہ ہو، مجھے غلطی محسوس ہوئی اور بے چینی سی رہی جیسا کہ مجھ سے کوئی بڑی غلطی سر زد ہوگئی ہو۔ میں اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کرتی ہوں اور میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ یقینا، انسان کا اچھا کردار و عمل اور اس کا اخلاق اسے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے۔lll