پورے ملک میں الیکشن کی گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے برسرِ اقتدار گروپ دروغ گوئی کے ذریعہ نہ صرف جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہا ہے بلکہ جھوٹ سے لے کر گالم گلوج تک کی غیر معیاری حرکتیں ہو رہی ہیں۔ ملک کی تاریخ میں یہ انتخاب اس حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انتخاب لڑنے والے اقتدار کے خواہش مندوں نے اخلاقی اقدار اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خوب دھجیاں اڑائی ہیں اور اڑائی جارہی ہیں۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ اور جمہوری نظام کے لیے خطرے کی بات یہ ہے کہ اس عمل کا ذمہ دار ادارہ اپنے اعتماد کو کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس بات کا اندازہ پہلے مرحلے کی پولنگ میں ہوئی ان دشواریوں اور خرابیوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جو پورے ملک سے عوام نے رپورٹ کی ہیں۔
یہ شمارہ قارئین کے ہاتھوں میں پہنچنے تک مزید دو مرحلوں کی پولنگ ہوچکی ہوگی اور محض تین یا چار مرحلے باقی رہ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کا وقت باقی ہے بلکہ یوں کہیں کہ اصل کام کرنے کا وقت آنے والا ہے جس میں پہلے مرحلے کے تجربہ اور مشاہدہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کوششوں کو منظم، مضبوط اور نتیجہ خیز بنانے کی فکر لازمی ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت میں ہر طبقہ اور ہر فرد برابر کا حصہ دار ہے لیکن کیا ہم اپنی اس حصہ داری اور جمہوریت کے لیے اپنی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں باشعور اور حساس ہیں یہ سوال ہم تمام اہلِ وطن سے کرسکتے ہیں اور مسلمانوں سے خاص طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارا وجود اور ہماری زندگی کا سیاسی و سماجی امن و سکون یہاں کے امن و سکون سے وابستہ ہے۔ ہماری ترقی اس ملک کی ترقی اور یہاں کے ماحول سے جڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بہ حیثیت فرد بھی اور بہ حیثیت امتِ مسلمہ بھی اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے اور نہ کسی کو اس بات کے لیے چھوٹ دے سکتے ہیں کہ وہ یہاں کے ماحول اور امن و امان کو نقصان پہنچائے۔ ہم بہ حیثیت شہری اس بات کے لیے ذمہ دار ہیں کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا رول ادا کریں اور یہاں بسنے والے عوام کو بھی فتنوں اور آزمائشوں سے بچانے کی فکر کریں۔
ہمارے لیے دربیش فتنوں اور آزمائشوں میں ایک تو وہ ہے جس سے ملکی عوام چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں مگر یہ طاقتیں مختلف حربے استعمال کرکے لوگوں کی گردنوں پر مسلط رہنا چاہتی ہیں۔ ان افراد کو ملک کے عوام کی فلاح و ترقی اور ان کے امن وسکون سے کہیں زیادہ عزیز اقتدار ہے اور لگتا ہے کہ اس کے لیے وہ اخلاقی اقدار سے لے کر ملک کے امن و سکون، باہمی اخوت، سماجی و معاشرتی بقائے باہم کی سوچ اور جمہوریت و دستور وطن تک کو’بلی چڑھانے‘ کے لیے کمربستہ ہیں۔ اس صورت حال سے نکلنے اور ملک کو نکالنے کا یہی اصل وقت ہے۔ اس وقت اگر ہم نے سیاسی بالغ نظری، بے لوثی اور بے خوفی کا ثبوت نہ دیا تو شاید بہت دیر ہوجائے گی اور ’لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی‘ کے مصداق صرف ہمیں ہی نہیں ہماری نسلوں کو اس کی بھرپائی کرنی پڑے گی — اور — اور اس وقت اس کام کو ووٹ کی چوٹ سے انجام دیا جانا چاہیے۔ اس لیے اپنے گھروں سے نکلئے خود بھی ووٹ کیجیے اور دوسروں سے بھی ووٹنگ کرائیے پوری دانشمندی کے ساتھ۔
ہمارے لیے دوسرا فتنہ اور مسئلہ ہماری اپنی بے حسی پر مبنی اور بہ حیثیت مسلمان غیر ذمہ دارانہ زندگی ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ اور بے شعوری کی زندگی کا عالم یہ ہے کہ ہم یہی نہیں جانتے کہ بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی ہمیں کس طرح کرنی ہے؟؟ اس بے شعوری، بے حسی، فکری جمود اور تعطل نے ہمیں بے کار اور بے وقعت ہی نہیں بنایا بلکہ ایک طبقہ کو ہمارا مخالف بلکہ دشمن بنادیا اور ہم دیکھتے رہے اور حد یہ ہے کہ آج بھی دیکھ ہی رہے ہیں اور اپنے رویوں ، اپنی سوچ اور اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں! یہ تکلیف دہ صورتحال پوری امت مسلمہ ہند کی ہے، اس امت کی ہے جسے ’خیرامت‘ بناکر ’لوگوں کے لیے‘ بنایا گیا تھا اور اس کے ذمہ لوگوں کو برائی سے روکنے اور اچھائیوں سے ہم کنار کرنے کا کام کیا گیا تھا۔ اس امت کا حال یہ ہے کہ یہ اس شعور ہی کو کھوبیٹھی جو اس کی شناخت بھی تھا اور اس کے وجود کا مقصد اور جواز بھی۔ مقصد جو اس کے وجود کا جواز بھی تھا، نظروں سے اوجھل اور شعور سے گم ہوا تو یہ امت بھی گرد راہ بن کر رہ گئی—! اب کیفیت وہ ہے جس کا رسول پاکؐ نے اشارہ دیا تھا کہ لوگ اس پر ایسے ٹوٹے پڑتے ہیں جیسے بھوکے دسترخوان پر۔ یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے جب مسلمان اپنی اس ذمہ داری سے غافل ہوجائے جو اللہ نے اسے دے کر بھیجا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ رسولؐ نے امت کو ہمیشہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کی تلقین فرمائی— ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:
’’خدا کی قسم! تم ضرور لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے رہوگے اور برائی سے روکتے رہو گے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تم پر عذاب نازل کردے گا پھر تم اس کو پکاروگے مگر تمہاری پکار نہیں سنی جائے گی۔‘‘
آپ تصور کیجیے کہ آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو آندھی برپا کی گئی ہے کیا وہ اس صورت میں بھی ممکن ہوسکتی تھی جب یہاں بسنے والے کروڑوں مسلمان لوگوں کو اسلام کی تعلیمات اور اقدار سے واقف کرا تے اور ان کی اپنی زندگیاں خود بھی اس کانمونہ ہوتیں— ناممکن تھا۔ اسلام اور اس کی تعلیمات اگر انسانوں کی زندگی میں روشن ہوجائیں تو اسے دیکھ کر لوگ روشنی حاصل کرتے ہیں۔ تاریخ بھی اس کے لیے گواہ ہے اور یہ ملک بھی اس پر شاہد ہے۔ مگر افسوس کہ ہم ایسا نہ کرسکے اور ایسا کرنے کے لیے تیار بھی نظر نہیں آتے۔ آج مسلمانوں کے سلسلہ میں جو باتیں بھی رائج ہیں وہ اسلام سے عدم واقفیت اور غلط فہمیوں کے سبب ہیں مگر کیا کیجیے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان خود ہی اس کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور ہماری زندگیوں اور فکر میں اور دوسرے لوگوں کی سوچ اور زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارا منصبی اور دینی امتیاز ختم ہوگیا تو پھر ہمارا اخلاقی وجود کیسے قائم رہ سکتا ہے۔
ہمارا ایک مسئلہ اور ہے کہ ہم اپنی سوچ اور طرزِفکر و عمل میں معمولی سی تبدیلی کیے بغیر ہی حالات میں بڑی تبدیلی کے خواہش مند نظر آتے ہیں جب کہکسی بھی تبدیلی کے لیے پہلے خود کو بدلنا ہوتا ہے، اندازِ فکر وعمل کو بدلنا ہوتا ہے تب جاکر تبدیلی نمودار ہونا ’شروع‘ ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت بھی ہے اور تاریخ سے ثابت بھی۔ علامہ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ:
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو تبدیل نہیں کرتی۔‘‘ (الرعد:۱۱)
اگر امت مسلمہ ہند بہ حیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری، اپنے مقصد وجود اور اپنے منصب و مقام سے آگاہ ہوجائے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر لگ جائے تبھی کوئی تبدیلی ممکن ہے اور یہ تبدیلی اس کی اپنی ذات سے شروع ہوکر معاشرے اور سماجی تک کو تبدیل کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ باتیں انتخابی تناظر میں کچھ عجیب سی لگتی ہیں۔ ہاں عجیب ہیں بھی کیونکہ ہم اپنے وجود کا شعور کھوچکے ہیں اور اس شعور کی بازیافت کی تڑپ اور جذبہ بھی۔ اگر ہم اس کے لیے واقعی حساس اور باشعور ہوں تو یہ باتیں مانوس اور معلوم سی لگیں گی۔
حکومتیں جغرافیائی حدود میں آتی جاتی رہتی ہیں اسی طرح مسائل بھی۔ کسی نئی حکومت کے آنے سے نہ ہمیں بہت زیادہ توقعات ہوں گی اور نہ دوسری صورت میں ہمیں اپنے وجود کا خوف ہوگا۔ اس لیے کہ ہم بہت سخت جان لوگ ہیں اور اس ملک میں بھی اور اس سے باہر بھی امت مسلمہ نے بڑے بڑے فتنوں اور آزمائشوں کا مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی مگر تاریخ نگار جب آنے والے وقت میں تاریخ لکھے گا تو وہ ضرور اس حقیقت کو درج کرے گا کہ مسلمانانِ ہند کس قدر جمود و تعطل اور بے حسی اور بے شعوری کا شکار تھے۔ آئیے اس جمودو تعطل اور بے حسی و بے شعوری کو خیر باد کہہ کر حرکت و عمل اور دعوت و اصلاح حال کی طرف رخ کرتے ہیں کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے۔lll