[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

ہندوستان میں بیواؤں کی صورتِ حال

شمشاد حسین فلاحی

میں ایک گھر میں برتن اور کپڑے دھونے لگی لیکن جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ میں بیوہ ہوں تو انھوں نے کسی اطلاع کے بغیر ہی مجھے کام سے نکال دیا۔ میں نے گلیوں اور راستوں پر سوکر وقت گزارا جب میرے شوہر کی موت کے بعد میرے گھر والوں نے مجھے نکال باہر کیا۔ میری اس سے گیارہ برس کی عمر میں شادی ہوئی تھی جب کہ وہ چالیس سال کا تھا۔

میری بیٹی نقص تغذیہ (malnutrition) کے سبب مرگئی کہ میں اسے کھانا تک نہیں دے پاتی تھی اور ایسا اس لیے تھا کہ ایک بیوہ کی مدد کرنا کوئی پسند نہ کرتا تھا۔ اس کی موت کے بعد میں نے برنداون آنے کا فیصلہ کیا۔ ایک عورت کو شوہر کی موت سے پہلے ہی مر جانا چاہیے تاکہ اسے اس طرح کی جہنم کی زندگی نہ جھیلنی پڑے۔

یہ 85 سالہ منوگھوش کی درد بھری داستان بیوگی کا حصہ ہے جو دلی سے محض ۱۵۰ کلو میٹر کی دوری پر واقع برنداون کے ایک مندر میں بچی کھچی زندگی کے دن گن رہی۔ برنداون وہ مقام ہے جہاں ملک بھر کی بے سہارا اور مظلوم و مجبور بیواؤں کو رہنے کے لیے چھت اور کم از کم ایک وقت کا کھانا تو فراہم کر ہی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس چھوٹے سے شہر میں 20,000 ہزار سے زیادہ بیوائیں رہتی ہیں۔ ان کا کام دن بھر بھجن کیرتن کرنا ہے اور اس کے بدلے انہیں ایک وقت کا یقینی کھانا تو مل ہی جاتا ہے اور سونے کے لیے ضروری جگہ بھی۔ برنداون کے مندروں اور آشرموں میں 20-25 سال کی جوان عمر سے لے کر انتہائی ضعیف العمر بوڑھی بیواؤں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ملک بھر سے مجبور بیوائیں جب ہر طرف سے مایوس ہوجاتی ہیں تو وہ برنداون کا رخ کرتی ہیں۔

67 سالہ سوبدرا دیسائی کہتی ہیں:

’’میرے شوہر کی موت کے بعد میرے بچوں نے بھی مجھے چھوڑ دیا۔ میں پیدل چلی، سڑکوں پر سوئی اور ٹرک ڈرائیوروں سے مدد مانگتی آخر کار برنداون پہنچ گئی۔‘‘

برنداون کی بیس ہزار بیواؤں میں سے ہر ایک کا دکھ ایسا یا اس سے ملتا جلتا ہی ہوگا اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ افراد بیس ہزار اور ان کا غم مشترک یہ کہ ان کے اپنوں نے انہیں شوہر کی موت کے بعد منحوس اور بے کار سمجھ کر چھوڑ دیا۔

مگر کیا یہ صرف ان بیس ہزار بیواؤں کی داستان ہے جو برنداون کے مندروں میں داتاؤں اور دیالوؤں کی راہ تکتی رہتی ہیں صرف اس لیے کہ انہیں ایک وقت پیٹ بھر کھانا ہی مل جائے گا۔ جی نہیں!

ستی کی رسم تو ختم ہوگئی اور اب کسی بیوہ کو شوہر کی چتا پر جل کر نہیں مرجانا پڑتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے اور تلخ حقیقت کہ ہندوستانی سماج میں ستی سے بچ جانے والی اکثر بیوائیں لمحہ لمحہ سماج کے طعنوں کو جھیلتی اور ذلت و رسوائی کی آگ میں جلتی رہتی ہیں۔

پھر ان آشرموں اور مندروں میں کیا ہوتا ہے اس کا تصور کرتے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ خاص طور پر نو عمر اور جوان بیواؤں کے لیے تو وہ تصور ہی جان لیوا ہے The ongoing tragedy of indias widowa نام کی ایک رپورٹ جو وومنس میڈیا سنٹر کی ویب سائٹس پر موجود ہے اس کا صرف ایک جملہ اس حقیقت کو بتانے کے لیے کافی ہے:

’’کچھ آشرموں کو سربراہان اپنی طاقت کا استعمال کرکے ان نوجوان بیواؤں کو جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیتے ہیں تاکہ اپنے لیے مزید کمائی کا انتظام کرسکیں۔‘‘

مزید لکھا گیا ہے کہ حاملہ ہوجانے کی صورت میں ان کا جبری اسقاط کرا دیا جاتا ہے اور اگر وہ بیوائیں ایسا نہ کریں تو ان بچوں کو پالیں گی کیسے؟

یہ تلخ حقیقت ہمارے اپنے ہی سماج اور معاشرے کی ہے۔ اس ہندو سماج کی ہے جس کے درمیان ہی ہم رہتے ہیں اور جو اس وقت نام نہاد مذہب کی نشاۃ ثانیہ کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔

برنداون کی بیس ہزار بیواؤں کی داستان تو اس لیے لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ کرشن جی کا مبارک شہر ہے جہاں کا ہزاروں ’’بے کس و مجبور رادھائیں‘‘ رخ کرتی ہیں کہ کرشن جی کی سائے میں انہیں موکش پراپت ہوجائے گا مگر کیا ہوتا ہے یہ رپورٹ بتاتی ہے۔ واضح رہے کہ برنداون تنہا شہر نہیں جہاں کا رخ ’’مجبور رادھائیں‘‘ کرتی ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سے شہر ہیں جہاں کی ’’پاک زمین‘‘ سے شردھا لینے بیوائیں پہنچتی ہیں ان میں سر فہرست کاشی یا بنارس ہے۔ اس کے علاوہ ہری دوار بھی وہ مقام ہے جہاں لوگ اپنے باپ دھونے کے لیے جاتے ہیں اور بیوائیں اپنی زندگی دھونے۔

یہ جہنم زار زندگی کاشی، ہری دوار یا برنداون ہی کی بیواؤں کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کو کروڑوں بیواؤں کی یہی حالت ہے مگر ان کی زندگیاں دور درواز کے گاؤں و دیہاتوں میں گم یا شہری زندگی کی بھیڑ بھاڑ میں کھوکر رہ گئیں۔ نہ ان کا کوئی پرسان حال ہے اور نہ ان پر رپورٹ تیار کر کے عوام اور حکومت کو بتانے والا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بیواؤں کے لیے پنشن کا بھی انتظام ہے جو ریاستی حکومتوں کے اختلاف کے ساتھ ڈیڑھ سو روپے ماہانہ سے لے کر 2500 روپے ماہانہ تک ہے اور 2500 روپے سب سے زیادہ ہے جو دہلی میں دی جاتی ہے اور جسے کیجری وال حکومت نے حال میں بڑھایا ہے۔ ایک عام آدمی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں چند سو روپے کی اس پنشن سے تو ایک ضعیف العمر خاتون کی دوا کا خرچ بھی ممکن نہیں اس پر مزید کیفیت یہ ہے کہ ملک کی بیواؤں میں سے محض 28 فیصد ہی اس سہولت کے لیے حق دار قرار پاتی ہیں اور اس پر مزید حادثہ یہ ہے کہ ان 28 فیصد میں سے محض 11 فیصد ہی ہیں جن تک ان کا حق پہنچ پاتا ہے۔

مردم شماری 2011 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 121 کروڑ آبادی میں 4.6 فیصد خواتین بیوہ ہیں اور ان کی تعداد 5.6 کروڑ ہے۔ اگرہم حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی سماج یا ہندو سماج کے مطابق پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ خواتین منحوس، بے وقعت اور اس لائق ہیں کہ کسی نیک کام یا شبھ مہورت کے وقت ان کا چہرہ دیکھنا موقع کو اشبھ بنا سکتا ہے اس لیے انھیں نے شبھ محفلوں سے دور رہنے کی سماجی ہدایت ہے۔ یہ شبھ اور اشبھ کا جنجال اکیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی رائج ہے۔ اس میں پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ اور نام نہاد مہذب لوگ بھی شامل ہیں اور جاہل و ناخواندہ اور روایتی طرزِ زندگی کے بیچارے بیک ورڈ لوگ بھی۔ اس میں چندرو کمہار کی بیوہ بھی شامل ہے اور سندھیا گھرانے کی راج ماتا بھی جو سفید ساڑی میں ملبوس کبھی کسی خوشی کے موقع نمودار نہ ہوتی تھیں۔ حالاں کہ وہ ملک کے ایک بڑاے راج گھرانے کی سربراہ اور ملک میں ایک بڑی سیاسی قوت کا سرچشمہ تھیں۔ مگر بدقسمتی یہ تھی ہ وہ بھی ایک ہندو گھرانے کی بیوہ تھیں جہاں بیوہ کو شبھ اور اشبھ کے تانے بانے باندھ کر رکھتے تھے۔

ملک کی 5.6 کروڑ میں سب سے زیادہ تعداد اترپردیش سے آتی ہے جو عام بات ہے کہ یہاں کی آبادی ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔دوسرے نمبر پر آندھرا پردیش اور تلنگانہ ہیں جو حال میں الگ ہوئے ہیں مگر اعداد و شمار ایک ساتھ ہیں جب کہ تیسرے نمبر پر تمل ناڈو اور چوتھے نمبر پر مہاراشٹر ہے۔ مردم شماری 2011 کے مطابق پانچ بڑی ریاستوں میں بیواؤں کی تعداد اس طرح ہے۔

ریاست

تعداد

یوپی

2438186

اے پی (متحدہ)

2309478

تمل ناڈو

2229047

مہاراشٹر

2015164

مغربی بنگال

1947672

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ بیواؤں کی تعداد میں ان کی عمر کا تناسب بھی پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں جہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ۶۰ سال سے زیادہ عمر والی خواتین کا فیصد 58 ہے وہیں یہ تکلیف دہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ بیس سال سے 39 سال کی عمر والی بیواؤں کا تناسب 9 فیصد ہے۔ ذیل میں دیا گیا انڈیکس اس کی وضاحت کرتا ہے۔

عمر

فیصد

۱۰ سے ۱۹ سال

0.45`

20 سے 39

9 فیصد

40 سے 59

32 فیصد

+60

58 فیصد

5.6 کروڑ کی آبادی میں 0.45 فیصد اور 9 فیصد کی تعداد کیا بنتی ہے اس کا اندازہ کیجیے اور دیکھئے کہ یہ نو عمر اور نوجوان بیوائیں کس اذیت و استحصال کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں0.45 فیصد کی تعداد دو لاکھ باون ہزار اور ۹ فیصد کی تعداد پچاس لاکھ چالیس ہزار بنتی ہے۔

ہندو سماج میں بیواؤں کو تمام مسائل کی جڑ اس کی یہ سوچ ہے کہ بیوہ منحوس ہے اور شوہر کی موت کے بعد اسے باعزت زندگی گزارنے کا حق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے میں بیوہ عورت شوہر کی چتا پر اس کے ساتھ ہی جل کر زندگی ختم کردیتی تھی لیکن آج یہ ممکن نہیں مگر اس کے باوجود ہندو سماج اپنی پرانی سوچ سے کلیتاً باہر نہیں نکل پایا ہے۔ یہی سوچ ہے جو بعد میں مختلف مسائل کو جنم دیتی ہے۔ ان مسائل میں سر فہرست اس کے معاشی حقوق کا استحصال ہے۔ شوہر کی وفات کے بعد سسرال والے اس کے شوہر کی زمین جائداد اور ترکہ پر قابض ہوجاتے ہیں اور اس کی معاشی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ معاش زندگی کی بقا ہے اور جب یہ میسر نہ ہو تو انسان کیا کریـ؟ باہر روزی روٹی کی تلاش میں نکلنا مجبوری بن جاتا ہے۔ اس پر مستزاد نحوست کے طعنے اور کوسنے اسے جس نفسیاتی و ذہنی اذیب سے دوچار کرتے ہیں وہ سننے والوں کے لیے خود تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔

مذہبی اعتبار سے کیوں کہ ہندو عورت کو دوبارہ شادی کا حق نہیں ہے اس لیے اسے بقیہ زندگی دوسروں کے رحم وکرم پر ہی گزارنی ہوتی ہے۔ ان میں اہل خاندان بھی ہیں اور بہن بھائی اور بیٹے بھی اور اس سے آگے بڑھ کر پورا سماج۔ عام طور پر بیوہ کو خود اس کے گھر اور خاندان والے بھی اچھا نہیں سمجھتے اور باپ بھائی بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنے پر رضا مند نہیں ہوتے، اس لیے وہ سماج کا منہ دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے جہاں کبھی اسے سہارے میسر آجاتے ہیں اور کبھی نہیں جب نہیں آتے تو پھر برنداون اور کاشی جیسے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

بیوہ کا ایک بڑا مسئلہ ہندو مذہب کی وہ روایات بھی ہیں جو عورت کو زندگی بھر ڈھونی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر بیوہ کے لیے بناؤ سنگار ممنوع ہے، رنگین کپڑے پہننا، زیور و چوڑیاں وغیرہ ممنوع ہیں اور کوئی بھی ایسا کام جو اس کی نسوانیت اور حسن سے میل کھاتا ہو، اسے بداخلاقی و بدکرداری پر محمول کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں تو بیواؤں کا سرمنڈوانا لازمی تھا اور سفید ساڑی ہی ان کا لباس اور علامت ہوا کرتے تھے۔ یہ روایات و توہم پرستی کہ بیوہ منحوس ہے اس کی سماجی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح بیواؤں کا ایک بڑا مسئلہ خاص طور پر نوجوان اور جوان بیواؤں کا مسئلہ جنسی استحصال ہے۔ ایسے بھی واقعات ہیں کہ ایک بیوہ عورت گھر کے تمام مردوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہے۔ سسر اور شوہر کے چھوٹے بڑے بھائی اسے سے اپنی حیوانیت کی پیاس بجھاتے ہیں اور وہ اپنی اور خاندان کی عزت کی خاطر زبان نہیں کھول پاتی اور اور اگر کھولتی ہے تو سماج الٹا اسی کو مورد الزام ٹھہرا کر دھکہ مار کے باہر کر دیتا ہے۔ اس کے عزت و وقار سے سب کھیلنا چاہتے ہیں مگر کوئی باعزت طریقے سے اس سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

بیواؤں کے سلسلے میں اگرچہ حالات بہت تکلیف دہ ہیں مگر ساتھ ہی ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ صورتِ حال میں کچھ بہتری کے بھی آثار ہیں۔ پرانی روایتوں کے مکڑ جال کمزور ہو رہے ہیں اور نئی روشنی نظر آرہی ہے۔ نوجوان بیواؤں کی شادیوں کی شروعات ہونے لگی ہے اور یہ روایت ٹوٹ رہی ہے کہ بیوہ کو دوبارہ شادی کا حق نہیں۔ خود مذہبی اعتبار سے بھی شدت پسندی کا حصار ختم ہو رہا ہے۔ خود اس مضمون نگار نے اپنے گاؤں میں ایک روایت دیکھی کہ پنڈت جی نے لڑکی کو صرف چار پھیرے دلائے اور تین پھیرے بعد کے لیے رکھ چھوڑے۔ پنڈت جی کے اس شگن پر لڑکی والوں کے گھر کہرام مچ گیا کہ گنگا کو تو صرف آدھے پھیرے دیے گئے ہیں اور اس کا ودھوا ہونا طے ہے۔ پنڈت جی نے لوگوں کو سمجھایا بجھایا اور معاملہ شانت کیا۔ اب کئی گھروں میں یہی روایت قائم ہوگئی ہے۔

موجودہ دور کی تعلیم یافتہ نسل جو ’روشن خیال‘ ہے وہ اس قسم کے فرسودہ خیالات کو نہیں مانتی اور موقع مناسب ہونے کی صورت میں بیوہ سے بھی شادی کرلیتی ہے۔ اسی طرح اب بہت سی سماجی خدمت گار تنظیمیں اور ادارے بھی اس روایت کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ بہت سی ویب سائٹس ہیں جو مردوں اور عورتوں کو جن کے شوہر یا بیویاں وفات پاچکی ہیں، ملانے کے لیے اپنے یہاں رجسٹریشن کراتی ہیں اور باہم شادی کے لیے شوق دلاتی ہیں۔ سماجی اور معاشرتی اعتبار سے جمود ٹوٹ رہا ہے مگر یہ محدود اور شہری و تعلیم یافتہ سماج کی سطح پر ہے۔ دیہی ہندوستان میں بیواؤں کے مسائل کی پیچیدگی اور شدت قائم ہے۔ کاشی اور برنداون کی بیواؤں کے حالات ہندو سماج اور حکومت کی توجہ کے طلب گار ہیں۔

عدالتی سطح پر بھی امید کی کرن اس وقت روشن ہوتی نظر آئی جب گزشتہ سال جولائی میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ہندو بیواؤں کی دوبارہ شادی کو پروموٹ کرنے کے لیے ایک منصوبہ رو بہ عمل لائے۔ جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ بیواؤں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے اور اس سلسلہ کی کوششیں غیر معمولی حد تک معمولی ہیں۔

سپریم کورٹ کی اسی بنچ نے کئی ریاستوں کو اس بات پر سرزنش کی کہ وہ بیواؤں کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں مرکز کو ضروری معلومات فراہم کیوں نہیں کر رہی ہیں۔ انھوں نے اس بات کو بدقسمتی سے تعبیر کیا اور اگلے دو ہفتوں کے اندر معلومات دینے کی ہدایت دی۔

سپریم کورٹ نے متھرا اور برنداون کے مندروں کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ مندروں میں چڑھائے جائے والے پھول متھرا کی بیواؤں کو دیں ان کے ذریعے سے بیوائیں ماحول دوست پوجا پاٹھ کا سامان تیار کریں گی۔ سپریم کورٹ کی اس سلسلے کی کاروائی اور ہدایات سے ایک بات تو یقینا ظاہر ہوتی ہے کہ بیواؤں کی بدحالی کی طرف حکومت کو متوجہ ہونا ہوگا۔ لیکن یہ طویل سفر کی شرعات ہے۔ ایسا سفر جس کی راہ میں سماجی روایات کے بڑے بڑے پتھر پڑے ہیں اور حکومتی سطح کے کرپشن اور بے توجہی کے کانٹے دار جھاڑ بھی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں