یومیہ ایک روپئے کی بچت کا کمال

فریدہ حسن

میں عورتوں خصوصاً دیہی علاقوں کی اقلیتی عورتوں کی اقتصادی ترقی کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل و امکانات کے میدانوں میں ریسرچ کا جو کام کر رہی ہوں وہ مجھے ہندوستان کی بہت ساری ریاستوں کے بہت سے گاؤں میں لے گیا۔ پچھلے پانچ برسوں سے میں جن چیزوں پر ریسرچ کر رہی ہوں ان میں ایک کام چاند پور گاؤں میں عورتوں کے ساتھ کا کرنا شامل ہے۔ یہ گاؤں مغربی بنگال کے جنوبی چوبیس پرگنہ کے نوٹیفائڈ اقلیتی ضلع میں واقع ہے۔ یہ گاؤں کلکتہ سے ۲۴ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے اور یہاں تک سڑک کے ذریعے آسانی سے پہنچا جاسکتاہے۔ یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ یہ کہ ہندوستان کی اس میگاسٹی سے اتنے قریبی فاصلہ پر بھی ایسا علاقہ ہو سکتا ہے جہاں اتنے غریب اور اتنے ان پڑھ لوگ آباد ہوسکتے ہیں۔ اس گاؤں میں بیشتر مسلمان ہیں۔ یہ دیہی لوگ خصوصاً عورتیں خطہ کے ترقیاتی پروگرام سے بہت دور رہ گئے ہیں اس گاؤں کی مسلم عورتیں قیمتی اثاثہ ہیں اور انسانی وسائل پیدا کرتی ہیں پھر بھی ان کی معاشی حالت بہت دگر گوں ہے۔ ان عورتوں کے ساتھ اتنے برسوں تک کام کر کے مجھے یہ تجربہ حاصل ہوا ہے اور یہ یقین ہوگیا ہے کہ اگر کسی کو معمولی قرض دیا جائے تو وہ اس پیسہ سے کچھ کاروبار کرسکتی ہے اور غریبی سے نجات حاصل کرسکتی ہیں۔ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ غریب دیہاتی عام طور پر دیہی عورتیں قابل بھروسہ ہوتی ہیں جب انہیں قرض دیا جاتا ہے تو وہ رقم سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

گاؤں میں عورتیں دوسروں کی محتاج ہوتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ اتنے الگ تھلگ اور اتنی غریب ہیں کہ کسی بھی غریبی مخالف اسکیم تک ان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ خواہ وہ اسکیم ریاستی حکومت کی ہو یا مرکزی حکومت کی اور یہی بات کلکتہ میں رہنے والے اقلیتی فرقہ کی عورتوں خصوصاً مسلم عورتوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ جوٹنگرا پارک سرکس، مومن پورہ، ہوڑہ وغیرہ جیسی تنگ و تاریک بستیوں میں رہتی ہیں۔ ان حالات کے تحت یہ ضروری ہے کہ اس فرقے کی عورتوں کو احساس کمتری سے نکالا جائے۔ یہ اشد ضروری ہوگیا ہے کہ ان عورتوں کو مدد لینے کے قابل بنا دیا جائے او رپیداواری وسائل تک ان کی رسائی ہوسکے۔ انہیں بنیادی معلومات و ہنر سے مسلح کیا جائے او راقتصادی ترقی کے معاملے میں انہیں بھی مردوں کے ایک ساجھے دار حیثیت سے اصل دھارے میں شامل کیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ رضا کار تنظیمیں، غیر سرکاری ادارے پورے جوش و خرش کے ساتھ اس میں دلچسپی لیں اور موجودہ سماجی و اقتصادی ڈھانچہ کے تحت سماجی و اقتصادی دونوں لحاظ سے خود کو بہتر بنانے کے امکانات کے سلسلے میں اس بڑے گروپ کے درمیان بیداری پیدا کی جائے۔ میں ایک متحرک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے مغربی بنگال کے گاؤںمیں آندھرا پردیش جیسی مقبول تھرفٹ اینڈ اکریڈت گروپ اسکیم کی عظیم کامیابی کا امکان دیکھ رہی ہوں۔ اگر اس اسکیم کو مناسب طریقے سے نافذ کرنا ہے اور کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس بڑے گروپ میں اس اسکیم کی مناسب طریقے سے ترغیب دینی ہوگی۔ آندھرا پردیش کے نیلور ضلع میں ۱۹۹۲ میں عورتوں نے تاڑی تحریک چلائی اور حکومت انصاف دینے پر مجبور ہوگئی اس ضلع کی عورتوں نے متعدد ہوکر جو تحریک چلائی اس سے عورتوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ہر اصلاحی تحریک کو ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے جوش و خروش میں تبدیل کر کے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

پہلی بار ۱۹۹۲ء میں نیلور کے ضلع کلکٹر کی رہنمائی اور مدد کے سہارے کو رومنڈل کے ’’نیگو ننا پڈو‘‘ گاؤں میں ۳۰ عورتوں کا ایک گروپ تیار کیا گیا جس کا مقصد ایک دن میں ایک روپیہ بچانا تھا۔ اس گروپ نے پڑوسی گاؤں کی عورتوں کے ساتھ ’’اپنی مدد آپ‘‘ اسکیم سے انہیں ہونے والے فائدوں کی باتیں بتائیں۔ اس اسکیم کے تحت ۳۰ ممبروں نے محض ایک قطرہ سے شروع کیا اور دو سال میں یہ ایک سمندر بن گیا۔ اب یہ گروپ ایک زبردست طاقت بن گیا ہے۔ ایک ایک روپیہ بچا کر ۲ کروڑ روپے جمع کر لیے گئے اور ۲ لاکھ عورتیں محنت و مزدوری میں جٹ گئیں۔ منڈل سطح پر اس تھرفٹ اور کریڈٹ گروپ کی میٹنگ میں مجھے مدعو کیا گیا۔ اس نے ایک ورکشاپ میں شرکت بھی کی، اسے پوڈوپو لکشمی مھیلا سدا سو کہا جاتا ہے۔ ضلع کے بڑے بڑے کارکنوں مثلاً ضلع کلکٹر (ڈی آرڈی اے کے پروجکٹ افسر) کے علاوہ گاؤں کی انتظامیہ کے افسران، گاؤں کے ٹرسٹ ماسٹر، گاؤں کی سطح کے اسکول ٹیچر آنگن واڑی کے ورکر وغیرہ نے اس ایک روزہ ورکشاپ میں شرکت کی۔ ۸۰۰ دیہاتی عورتوں کی شرکت سب سے زیادہ متاثر کن تھی۔ یہ عورتیں پڑوسی گاؤں سے دھوپ کی شدت برداشت کرتے ہوئے آئی تھیں اور ایک شامیانہ کے نیچے جمع ہوگئی تھیں اور اس دن کی بحث میں کافی دلچسپی لے رہی تھیں۔ اس دن مختلف عمر اور مختلف مذاہب کی عورتیں تھرفٹ اینڈ کریڈٹ اسکیم سے ہونے والے فائدوں اور تجربوں سے ایک دوسرے کو روشناس کرا رہی تھیں۔ یہ عورتیں اپنے شبہات کو اور اندیشوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کر رہی تھیں۔ گروپ کی لیڈرز مشورہ لے رہی تھیں کہ کس طرح اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ عورتیں محض تماشائی ہی نہیں تھیں بلکہ اس میں سرگرمی سے حصہ لے رہی تھیں اور اس طرح ایسی اسکیم کو عوامی پروگرام بنا دیا۔

تھرفٹ اینڈ کریڈٹ اسکیم کے گروپ نے جو غریب دیہاتیوں پر مشتمل ہے یومیہ ایک روپیہ بچت کر کے اس اسکیم کو دلچسپ اور شاندار سماجی و اقتصادی ترقیاتی پروگرام میں تبدیل کر دیا۔ نیلور ضلع کے دیہی علاقوں کے معمولی آمدنی والے خاندانوں کی ایک لاکھ ۹۲ ہزار عورتیں اس کی ممبر بن چکی ہیں جنہیں ۷۰۰۰ گروپوں میں منظم کیا گیا ہے اور ڈی ا ٓ ڈی اے اس کی پیش رفت کی نگرانی اور رابطہ قائم کرنے میں مدد پہنچا رہا ہے۔

اس پروگرام کی کامیابی کو دیکھ کر ہر شخص تعریف کر رہا ہے کہ عموماً عورتوں کے غریبی مخالف پروگرام کی کامیابی کی بہت بڑی گنجائش ہے اور اس پروگرام کی کامیابی کے نتیجے میں عورتیں یقینا اپنے طور پر اپنے بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گی۔ ان پر کوئی اسکیم مسلط کرنے کے بجائے بالکل نچلی سطح کے پروگرام کی ہمت افزائی کی جائے تو غریب دیہاتی عورتوں میں ملک میں ہونے والی اقتصادی ترقی سے فائدہ اٹھانے اور اس منصوبہ میں شامل ہونے کی ان کی صلاحیتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر دیہی عورتیں منصوبہ بنانے، فیصلہ کرنے اور پروگرام کے نفاذ میں حصہ لیں تو وہ اپنی باتوں کا اظہا رکرسکتی ہیں اور اپنی پسند کے مطابق اپنی ترجیحات کے بارے میں فیصلہ کرسکتی ہیں اور نتیجہ میں پہلے سے بھی بہتر فائدہ پہنچانے والی کامیابی کی گنجائش رہتی ہے۔

اس وقت پوڈو پو لکشمی کی اس تھرفٹ اینڈ کریڈٹ اسکیم کے بارے میں پوری تفصیل سے جاننے کی ضرورت ہے کہ اس کے مقاصد کیا ہیں یہ کس طرح بنائی جاتی ہے اور کس طرح اسے نافذ کیا جاتا ہے۔ اس اسکیم کے مقاصد (۱) دیہی عورتوں میں بچت کرنے کی عادت ڈالنا اور دیہی ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے کام کے لیے سرمایہ کی بنیاد فراہم کرنا ہیں۔(۲) بنکروں اور دیہی غریب باشندوں کے درمیان اخلاقی اعتماد پیدا کرنا اور آبادی کے اس بڑے گروپ میں بنک کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ (۳) فعال گروپ تیار کرنا تاکہ یونیورسل ایجوکیشن پروگرام سوشل فار سبٹری اور ومینس گروپ پروگرامس جو ڈی ڈبلیو سی آر اے، اور آئی آر ڈی کے تحت چل رہے ہیں بہتر طور پر نافذ کیے جاسکیں۔

گروپ کی بناوٹ: ہر گروپ کم آمدنی والے خاندان کی تیس چالیس عورتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک کو گروپ لیڈر چن لیا جاتا ہے ہر گروپ میں ایک گارجین ہوتا ہے جو عام طور پر گاؤں کا ایک سرکاری ٹیچر یا گاؤں کی انتظامیہ کا افسر یا آنگن واڑی ور کر ہوتا ہے۔ بینک یا پوسٹ آفس میں جو اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے ابتدا میں گروپ لیڈر اور گارجین مشترکہ طور پر اس اکاؤنٹ کے ہولڈر ہوتے ہیں۔

گروپ کا کام: اس اسکیم کا بنیادی مقصد شروعات میں فی ممبر عورت یومیہ ایک روپیہ کر کے تین سال تک بچت کرنا ہے۔ ہر ممبر کو روزانہ ایک روپیہ الگ کر کے رکھ دینا ہے۔ گروپ لیڈر ہر پندر ہواڑہ وہ روپے جمع کرے گی اور بینک اکاؤنٹ میں وہ رقم ہر اس ممبر کے نام جمع ہوگی۔ ہرممبر کو ایک پاس بک دیا گیا ہے۔ گروپ لیڈر کے پاس بھی ایک پاس بک رہے گا۔ توقع ہے کہ شروعات کی مدت میں گارجین ہی ممبروں کے پاس بک میں سبھی اندراج کریں گے اور پوری رقم کو تین ریکارڈ میں درج کریں گے۔ یہ تین ریکارڈ ممبرون کے پاس بک گروپ رجسٹر اور بینک پاس بک ہیں اور ہر ماہ یہ سب ریکارڈ ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہوں۔ عام طور پر گروپ ممبروں کو ایک سال کی بچت کے بعد ہی یک مشت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے قرض دینا شروع کردیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے نفاذ اس کے لیے ترغیب اور معاشرہ میں اس کی تشہیر کے لیے گرام پنچایت اور مقامی وغیر سرکاری ادارے بھی پوری سرگرمی کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ منڈل اسٹیج کی کمیٹیوں کے ممبروں کو ایک روزہ ورکشاپ میں فرصت دی جاتی ہے۔ ان ورکشاپوں میں اکاؤنٹ اور لین دین سے نپٹنے کے لیے گروپ لیڈر تیار کیے جاتے ہیں۔

گاؤں کی سطح کے متعدد خلائی و ترقیاتی پروگرام کے نفاذ کے دوران پیدا ہونے والے مرد و زن کے مسائل سے بھی گروپ لیڈروں کو واقف کر دیا جاتا ہے۔

یہ تھرفٹ اینڈ کریڈٹ اسکیم ایک ایسا رضاکارانہ پروگرام ہے جس کے تحت اپنی مدد آپ کی جاتی ہے اور یہ حکومت کی جانب سے میچنگ گرانٹ کی کسی یقین دہانی کے بغیر جاری ہے۔ تاہم اس ضلع میں جتنے سرکاری شعبے ہیں انہیں ڈی ڈبلیو سی آر اے، آئی ٓر ڈی اور دیگر پروگراموں کے تحت امداد کی منظوری میں گروپ ممبروں کو ترجیح دیے جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مالیاتی ادارے بھی ان عورتوں کو شامل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں کیوں کہ یہ ڈسپلن کی پابند اور قابل بھروسہ ہوتی ہیں۔

اس طرح اس اسکیم میں ترقی کی وسیع گنجائش ہوتی ہے اور خصوصا مالی طور پر محروم مسلم آبادی والے طبقوں کے لیے اس کامیابی کے بہتر مواقع و سہولیات ہوتی ہیں۔ رضاکار اداروں اور دیگر غیر سرکاری اداروں کو چاہیے کہ غریب دیہاتی عورتوں او رشہر کی جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والوں دونوں ہی میں اس اسکیم میں شامل ہونے کی ترغیب و تحریک پیدا کرنے کے اقدامات کریں۔ اس پروگرام کا اہم پہلو بے داری لانا ہے، خود روزگار اسکیم کے ذریعہ پورے فرقہ کو ترقی دینے کی ضرورت کا احساس پیدا کرنا اور برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے اس سے وہ پیداوار کے ذرائع کو بہتر ڈھنگ کے کنٹرول کرنے کے قابل بن جائیں گی اس سے وہ ظاہری تصادم سے بھی نپٹنے کے اہل ہوجائیں گی جس میں غریب مسلم خواتین گھری ہوتی ہیں۔ جو ایک طرف روایت کا تقاضا ہے تو دوسری طرف معیشت کو جدید بنانے اور فروغ دینے والی ایک مطلوبہ شئے ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں