ہر سال ۸ مارچ کو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی سطح پر ’’یوم خواتین‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو خواتین کے حقوق کے لیے بیدار کرنا اور خواتین کو عملی زندگی میں یکساں مواقع فراہم کرنے کا شعور دینا ہے۔ تاہم عالمی سطح پر اس کی کامیابی تب ہی ممکن ہے جب قول وفعل میںتضاد اور منافقت کو ختم کیا جائے، اس کے ساتھ کمزور اور طاقتور میں امتیاز کرنے کے بجائے ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا سلوک یا برتاؤ کیا جائے اور سب کے لیے انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے دنیا بھر میں آواز اٹھائی جارہی ہے اور کئی ممالک کی حکومتیں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی کررہی ہیں۔ خواتین کا عالمی دن لوگوں کو شعور دیتا ہے کہ وہ معاشرے سے اس برائی کو ختم کریں، اس کے بغیر نہ معاشرہ پائیدار امن حاصل کرسکتا ہے اور نہ گھریلو زندگی سکون سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے خواتین کے حوالے سے عدم مساوات اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے سبب ہی تنزلی کا شکار ہوئے۔ لہٰذا دور جدیدمیں پائیدار ترقی کے خواہشمند تمام ممالک کو عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرکے مواقع کی یکسانیت فراہم کرنی ہوگی۔
آج دنیا تسلیم کرنے لگی ہے کہ عورت معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد۔ تاہم، اس کے باوجود عوامی سروے رپورٹس ظاہرکرتی ہیںکہ آج بھی خواتین کو صنفی امتیاز اور عدم مساوات کا ہی سامنا نہیں بلکہ اس کی عزت و عصمت اور اس کا شخصی وقار بھی مجروح ہو رہا ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر دیتا پھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کے گراف کو پیش کیا جاسکتا ہے جس میں مشرق سے لے کر مغرب تک یکسانیت نظر آتی ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ دور کی بدقسمتی یہ ہے کہ خواتین کی آزادی او رمساوات کے اس حسین دور میں بھی عورت مظلوم اور مقہور نظر آتی ہے۔ اور جو ممالک جس قدر ترقی یافتہ ہیں وہ اسی قدر خواتین کی مظلومیت کے لیے بھی ذمے دار ہیں۔
عورت کی سب سے قیمتی چیز اس کی عصمت و عفت ہے جو اس کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر کی عورت اپنی اس کمزوری کے سبب دنیا بھر میں مظلوم ہے اس کے لیے ان دس ممالک کو دیکھیں جو خواتین کے زنا بالجبر میں سب سے آگے ہیں تو آپ کو حیرت ہوگی۔ اس میں سرفہرست امریکہ دوسرے نمبر پر جنوبی افریقی، تیسرے نمبر پر سویڈن چوتھے نمبر یہ ہمارا ملک ہندوستان اور اور پانچویں نمبر پر برطانیہ ہے پھر جرمنی، فرانس اور کناڈا آتے ہیں۔
چودہ سو سال پہلے محمدؐ نے خواتین کو جو مقام عملا عطا فرمایا تھا موجودہ دور کی عورت آج اسے حاصل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہی ہے مگر ابھی تک اس کے قریب بھی پہنچنے میں ناکام ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب لڑکی کو عار سمجھا جاتا تھا اور پیدائش کے بعد اسے قتل کردیا جاتا تھا۔ اس دور کی تاریخ بتاتی ہے کہ عار تصور کی جانے والی بیٹی کو اللہ کے رسول نے جنت کی ضمانت بنا دیا اور عملی زندگی میں اس کے لیے بے مثال مواقع فراہم کردیے۔ علم کا حصول لازمی رہا جس نے اسے بڑے بڑے علما کا استاذ بنا دیا۔ اس دور کی عورت مسجد نبوی سے لے کر میدان جنگ تک میں نظر آتی ہے۔لیکن آج کی عورت خصوصا مسلم عورت کہاں کھڑی ہے یہ مسلم سماج کے سامنے بڑا سوال ہے۔
عالمی یوم خواتین کے موقع پر اہل مغرب و مشرق سے مناقشہ اور بحث کرنے کے بجائے اہل ایمان کو اپنے دامن میں جھانکگنا زیادہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کا احتساب کریں اور دیکھیں کہ اسلام نے عورت کو کیا مقام و مرتبہ دیا اور ہمارے موجودہ معاشرے نے اس کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا عورت کے مسئلے کو لے کر اسلام پر حملے کرتی ہے اور ہم اسلام میں عورت کے مقام پر بحث کر کے جواب دینا چاہتے ہیں۔ ایک عورت مسجد نبوی میں خلیفہ وقت کو اس وقت چیلنج کرتی ہے جب وہ مہر کی رقم کو محدود کر دینا چاہتے ہیں اور انہیں قاتل کر دیتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جسے محدود نہیں کیا اسے محدود کرنے والے آپ کون ہیں؟ اور خلیفہ وقت تسلیم کرلیتے ہیں۔ لیکن آج ! آج کا مسلم معاشرہ اور علما اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ عورت مسجد جاسکتی ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں سماج کا عام موقف کتنا افسوس ناک ہے غور کیجیے۔
تعلیم سماجی و معاشرتی ترقی کے ساتھ ہمہ جہت ترقی کا بنیادی آلہ ہے مگر موجودہ مسلم سماج میں خواتین کی تعلیم کی شرح کیا ہے یہ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ جو پورے معاشرے کے لیے قابل توجہ چیز ہے۔
یوم خواتین کے موقع پر یکساں مواقع، آزادی اور مساوات کی بات کی جاتی ہے جو عورت کا ہی نہیں ہر صنف کا بنیادی حق ہے۔ مسلم سماج میں مساوات کو مغرب کے مقابلے نفی انداز میں دیکھا اور برتا جاتا ہے جو اسلام کی نہیں مسلمانوں کے اندر کی برائی ہے اور اس برائی کا خاتمہ معاشری سطح پر ضروری ہے۔ تعلیم کے مواقع سے لے کر لڑکوں کو اچھے اسکولوں میں اور لڑکیوں کو عام اسکولوں میں تعلیم دلانا عام بات ہے جب کہ بعض خاندانوں میں دیگر اقسام کی تفریق بھی دیکھی جاتی ہے جو بنیادی طور پر سوچ میں فساد کا نتیجہ ہے۔
موجودہ وقت میں مسلم خواتین کے اندر مختلف النوع صلاحیتوں کا نمایاں ہونا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلم خواتین اپنی طاقت اور فطری صلاحیتوں کے اعتبار سے کافی مضبوط اور مستحکم ہیں اور ماضی میں مسلم سماج محض مواقع کی عدم فراہمی کے سبب ان صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ موجودہ حالات میں مسلم خواتین جس انداز میں سیاسی تحریک کو آگے بڑھا رہی ہیں اور اولو العزمی و ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ جس مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہی ہیں وہ امت مسلمہ ہی کا نہیں ملک کا بڑا سرمایہ ہے۔ اگر ہم نے خواتین کے لیے مواقع فراہم کیے ہوتے اور خواتین کی صلاحیتوں کو بھرپور استعمال کی کوشش کی ہوتی امت کو کافی فائدہ مل سکا ہوتا۔
عالمی یوم خواتین اگرچہ مغربی دنیا کا دیا ہوا تصور ہے مگر یہ موقع ہے کہ اس مناسبت ہے ہم اپنا ایجنڈا بھی لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اپنی معاشرتی اصلاح کی فکر بھی کریں کہ ہمارے معاشرے خواتین کو وہ مقام و مرتبہ عملا حاصل ہوجائے خود اسلام انہیں فراہم کرتا ہے۔lll