بیس سالہ اکبر خوش باش زندگی گزار رہا تھا۔ صبح کالج جاتا، واپس آکر مطالعے میں مشغول رہتا اور شام کا وقت فٹ بال کھیلتے گزارتا۔ اچانک ایک دن وہ پژمردگی محسوس کرنے لگا، جو بڑھتی چلی گئی۔ اب وہ صبح اٹھتا تو سستی طاری ہوتی۔ وہ تھکا تھکا بھی رہنے لگا۔
جب والدین نے اپنے دلارے کی حالت زار دیکھی تو پریشان ہوگئے۔ وہ اسے قریبی ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ معالج نے چند ادویہ دیں مگر اکبر کی حالت نہ سنبھلی۔ چناں چہ دیگر معالجین آزمائے گئے۔ آخر ایک ڈاکٹر نے تشخیص کی کہ اکبر کا غدہ درقیہ کم ہارمون پیدا کر رہا ہے۔ اسی خرابی نے اسے ڈپریشن، تھکن اور جسمانی درد میں مبتلا کر دیا۔ جب علاج سے غدہ درقیہ دوبارہ مطلوبہ مقدار میں ہارمون پیدا کرنے لگا تو اکبر جلد صحت یاب ہوگیا۔
غدہ درقیہ (Thyroid Gland) ہمارے حلق میں واقع ہے۔ اس سے خارج ہونے والے ہارمون جسم کے تقریباً ہر حصے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں دماغ، دل، عضلات اور جلد بھی شامل ہیں۔ غدہ درقیہ کی اہم ذمے داری اس عمل کو کنٹرول کرنا ہے، جس کے ذریعے ہمارے جسمانی خلیے غذا سے توانائی پاتے اور اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ عمل ’’نظام استحالہ‘‘ (Metabolism) کہلاتا ہے۔
نظامِ استحالہ ہمارے جسمانی درجہ حرارت اور دل کی دھڑکن کو متوازن رکھتا اور جسم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ حرارے (کیلوریز) صحیح طریقے سے جلا سکے۔ لیکن غدہ درقیہ مطلوبہ مقدار میں ہارمون پیدا نہ کرے تو جسم کے اہم اعمال سست پڑ جاتے ہیں۔ تب جسم مناسب توانائی پیدا نہیں کرتا اور ہم سستی، تھکن اور پژمردگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ طبی کیفیت اصطلاح میں ’’ہائپوتھائروئڈزم‘‘ (Hypothyroidism) کہلاتی ہے۔
اکبر بھی ہائپوتھائروئڈزم میں مبتلا ہوگیا تھا مگر عام ڈاکٹر اس بیماری کی تشخیص نہ کرسکے۔ اسی لیے اکبر کی حالت بگڑ گئی۔ لیکن جب مرض پکڑا گیا تو علاج سے وہ صحت یاب ہوگیا۔ اسی طرح بعض اور بیماریاں بھی جسمانی درد پیدا کردیتی ہیں۔ مگر ان کی صحیح تشخیص نہ ہونے کے باعث انسان الٹا پلٹا علاج کرتا اور اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ کچھ ایسے ہی امراض کا ذکر درج ذیل ہے۔
چینی (کھانڈ)
مغرب میں طویل عرصہ ماہرین طب نے چربی یا چکنائی کو معتوب کیے رکھا۔ لیکن اب چینی ان کی دشمن نمبر ایک بن چکی۔ در اصل چینی زیادہ مقدار میں استعمال کی جائے تو وہ انسانی جسم میں سوزش پیدا کرتی اور سر درد کے علاوہ مختلف اقسام کی تکالیف پیدا کردیتی ہے۔ انسان درد کی شدت سے تڑپتا رہتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کی تکلیف کا سبب بھی چینی ہے۔
چینی سے منسلک طبی خلل سے محفوظ رہنے کے لیے ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ عام بوتلوں، ریفائنڈ ڈبل روٹی، کیک، بسکٹ اور پاستا بہت کم استعمال کیجیے۔ ان غذاؤں کے بجائے سبزیاں، پھل اور مناسب مقدار میں گوشت کھائیے۔
مزید برآں چینی سے پیدا شدہ بداثرات ختم کرنے کی خاطر کچھ عرصہ مچھلی کے تیل والے کیپسول کھائیے۔ اس تیل میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کثیر مقدار میں ملتے ہیں۔ یہ غذائی تیزاب رفتہ رفتہ چینی کے مضر اثرات مٹا ڈالتے ہیں۔
وزن میں کمی
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ جسمانی وزن میں اضافہ کئی بیماریوں مثلاً گنٹھیا، پیر کا درد وغیرہ میں تکلیف کی شدت بڑھا دیتا ہے۔ وجہ یہ کہ وزن میں زیادتی سے جسم سوزش کا نشانہ بن جاتا ہے۔ ماہرین طب کی رو سے پیٹ اور کمر میں جمی چربی سب سے زیادہ سوزش پیدا کرتی ہے۔ وزن کم کرنے کے لیے ریفائنڈ کاربو ہائیڈریٹ والی اور میٹھی غذائیں کھانا ترک کردیجیے۔ روزانہ ۳۰ تا ۴۰ فیصد حرارے چکنائی سے پاک گوشت کھاکر حاصل کیجیے۔ نیز پروٹین پر مشتمل گوشت دیگر غذاؤں سے پہلے کھائیے۔ باقاعدگی سے ورزش بھی وزن گھٹانے میں معاون بنتی ہے۔
نیند پوری لیجیے!
آج کل کی تیز رفتار زندگی میں بہت سے مرد و زن پوری نیند نہیں لیتے۔ یہ ایک خطرناک عادت ہے کیوں کہ نیند کی کمی بھی جسم میں سوزش و درد پیدا کرتی ہے۔ نیند کم لینے سے ہمارے جسم میں دباؤ جنم دینے والے ہارمونوں کی افزائش بڑھ جاتی ہے۔ چناں چہ انسان بے چینی و سوزش محسوس کرتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان مطلوبہ نیند پالے تو اس میں جسمانی درد کی شرح ۷۵ فیصد تک گھٹ جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ انسان اسپرین یا پیراسیٹا مول کھاکر افاقہ محسوس کرنے لگا۔ مزید برآں اگر آپ سہ پہر کو چائے یاکافی نوش کرتے ہیں تو یہ عادت ترک کردیجیے۔ ان مشروبات میں شامل کیفین نیند بھگانے میں طاق ہے۔ نیز سوتے وقت کمرے کا درجہ حرارت تھوڑا سرد رکھیے۔ ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ ٹھنڈے ماحول میں انسان زیادہ خوش گوار اور بھرپور نیند لیتا ہے۔
ہارمونز کا عدم توازن
ایسٹروجن اور ٹیسٹو سٹیرون بالترتیب زنانہ اور مردانہ ہارمون ہیں۔ یہ عورتوں ارو مردوں میں مخصوص خصوصیات پیدا کرتے ہیں۔ جب عورت سن یاس اور مرد بڑھاپے کا شکار ہو تو ان میں درج بالا ہارمونز کی افزائش گھٹ جاتی ہے۔ تب ہارمونوں کی کمی سے مرد و خواتین جسم میں عموماً درد محسوس کرتے ہیں۔
اگر بدن میں تکالیف بڑھ جائیں تو ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ بذریعہ تھراپی ایسٹروجن یا ٹیسٹوسٹیرون لیا جائے۔ اس صورت میں اکثر مرد و خواتین افاقہ محسوس کرتے ہیں اور ان کا جسمانی درد کافور ہو جاتا ہے۔
غذائی اضافیات
ڈبوں یا پیکٹوں میں غذائیں بند کر کے فروخت کرنے والی کمپنیاں ان میں بعض کیمیائی مادے ملاتی ہیں تاکہ ان کا ذائقہ ٹھیک رہے یا وہ تادیر اپنی تازگی برقرار رکھیں۔ یہ کیمیائی مادہ اصطلاح میں ’’غذائی اضافیات‘‘ (Food additive) کہلاتا ہے۔ غذائی اضافیات قدرتی طور پر بھی ملتی ہیں، مثلاً سر کہ جو اچار ڈالنے میں استعمال ہوتا ہے یا نمک جو سوکھے گوشت کو تادیر محفوظ رکھتا ہے۔
جدید دور میں انسان سے مصنوعی غذائی اضافیات بھی بنالی ہیں۔ غذا میں شامل ہونے کے باعث ہمیں ان کا پتا نہیں چلتا۔ لیکن جب جسم میں ان کی مقدار زیادہ پہنچنے لگے تو وہ مختلف اقسام کے درد پیدا کردیتی ہیں۔ مثلاً جوڑوں کا درد، نسوں اور اعصاب میں اینٹھن اور سوزش۔
ڈاکٹر عموماً سمجھ نہیں پاتے کہ غذائی اضافیات درد کا موجب بنی ہیں۔ لہٰذا درست علاج نہ ہونے کی وجہ سے درد بڑھ کر سوا ہو جاتا ہے۔ ماہرین طب مشورہ دیتے ہیں کہ مصنوعی مٹھاس (Artificial Sweeteners) اور مونو سوڈیم گلو ٹامیٹ سے خاص طور پر پرہیز کیجیے۔ آخر الذکر غذائی اضافہ عرف عام میں اجینو موتو کہلاتی اور چینی یخنیوں اور کھانوں میں استعمال ہوتی ہے۔
کیلشیم اور میگنیشیم
انسان کے جسم میں دو معدنیات، کیلشیم اور میگنیشیم کا توازن ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ توازن بگڑ جائے تو انسان کئی عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ان میں آدھے سر کا درد، اعصاب میں تکلیف، گنٹھیا، بدہضمی، گردن، کمر، گھنٹے، پیر اور کولھوں میں درد شامل ہے۔ بعض اوقات انسان سینے میں بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔
جو خواتین و حضرات باقاعدگی سے دودھ نوش کریں انہیں تو مطلوبہ کیلشیم مل جاتا ہے۔ تاہم میگنیشیم پانے کی خاطر اس معدن سے بھرپور غذائیں کھانا پڑتی ہیں مثلاً پالک و ساگ، مغزیات، مچھلی، پھلیاں، دہی اور چاکلیٹ وغیرہ۔ ایک بالغ کو روزانہ ۶۰۰ ملی گرام میگنیشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔
چاق چوبند رہئے!
آسائشات کی فراہمی نے دور جدید کے انسان کو سہل پسند بنا دیا ہے۔ اب اسے نکڑ کی دکان پر بھی جانا ہو تو وہ گاڑی یا موٹر سائیکل پر جاتا ہے۔ لیکن بڑھاپے میں اسے اس سہل پسندی کا خمیازہ بھگتناپڑتا ہے۔ وجہ یہ کہ استعمال نہ ہونے سے جوڑوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ چنانچہ بڑھاپے میں تھوڑی سی حرکت بھی ان میں شدید درد (Chronic Pain)پیدا کردیتی ہے۔
لہٰذا جوانی میں خود کو چاق چوبند رکھیے اور تھوڑی بہت ورزش ضرور کیجیے۔ جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ہفتے میں محض ایک گھنٹے کی ورزش بھی بڑھاپے میں آپ کو جسمانی درد سے محفوظ رکھے گی۔
درد کا فطری علاج
قارئین! درج بالا معلومات کا مقصد آپ کو ان عوامل سے آگاہ کرنا ہے جو عموماً ہمارے جسم میں درد پیدا کرتے ہیں، مگر انسان ان کے متعلق جان نہیں پاتا۔ اس فہرست میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ غلط ادویہ کھانے سے اکثر درد کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایلوپیتھک ادویہ درد والی جگہ اور دماغ کے مابین رابطہ منقطع کردیتی ہیں۔ مگر جب دوا کا اثر ختم ہو، تو درد زیادہ شدت سے نسوں اور اعصاب پر حملہ آور ہوتا ہے۔
خوش قسمتی سے قدرتی طریق علاج درد والی جگہ اور دماغ کا رابطہ ختم نہیں کرتا۔ اسی لیے جڑی بوٹیوں سے درد کا علاج مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حکیم بیماری کی تشخیص کے بعد موزوں ادویہ دیتے ہیں۔ ازخود درد کا علاج کرنا نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔lll