اسی سال نومبر دسمبر میں ہونے والے ریاستوں کے انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی ملکی سیاست کا ’تاپ مان‘ بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ برسر اقتدار اور اقتدار پر قبضہ کی خواہش مند اور اس کے لیے کوشاں سیاسی پرٹیوں نے ہر طرح کے ’پاک نا پاک‘ ہتھکنڈے اپنانے شروع کردیے ہیں۔ اور مخالفین پر الزام تراشی سے لے کر پگڑی اچھالنے تک کی ممکنہ کوششیں شروع کردی ہیں۔
اٹل اور اڈوانی کی قیادت سے جانی جانے والی شدت پسند بھارتیہ جنتا پارٹی نے قیادت بدل کر ’نئے عزم و حوصلہ‘ کے ساتھ انتخاب کے میدان میں کودنے کا اعلان کیا ہے بلکہ کود پڑی ہے۔ اس کی نظر اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر پر جس کے بعد وہ برسر اقتدار کانگریس کا ہٹا کر دہلی کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اس کی قیادت نے NDA میں توسیع کی مہم بھی شروع کردی ہے اور نئے حلیفوں کی تلاش جاری ہے۔ مذکورہ پارٹی نے گجرات دنگوں کے لیے معروف اور بدنام زمانہ لیڈر نریندر مودی کو وزارتِ عظمی کا امیدوار نام زد کر کے اور انتخابی قیادت انہیں سونپ کر جہاں پارٹی کے سیاسی و فکری دیوالیہ پن کا اعلان کیا ہے وہیں اہل وطن کو یہ پیغام دیا ہے ہ وہ اڈوانی اور اٹل سے زیادہ شدت پسندی کی کٹر ہندو وادی سیاست کی داعی اور اسی پر عامل ہوگی۔ چناں چہ اترپردیش کے مظفر نگر میں ہزاروں مسلمانوں کو بے گھر کر کے انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ گجرات ہی نہیں یہ تجربہ پورے ملک میں دہرایا جائے گا۔ اس لیے اگر اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے اور اس کا شدھی کرن چاہیے تو ہمیں ووٹ دو۔ اور اس بات کو در پردہ عوام تک پہنچانے کے لیے گجرات کے ترقی کے مڈل کو پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ ترقی کا ماڈل جس کے قائد اور ان کی ٹیم مجرمانہ سرگرمیوں انکاؤنٹر س اور بے گناہ انسانوں کے قتل کے لیے عدلیہ کے سامنے کٹہرے میں ھڑی ہے۔
۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخاب کا بگل بجتے ہی سیاسی پارٹیاں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے لیے لبھاؤنے سیاسی وعدوں کی جھڑی لگادیں گی اور ان کے ووٹ کو سمیٹنے کی کوشش شروع کردیں گی۔ کچھ طاقتیں مسلمانوں کو فرقہ پرست طاقتوں کا خوف دلا کر اور کچھ خود کو ان کا حامی ومددگار ظاہر کر کے ان کے ووٹ بٹوریں گی۔ اور فی الواقع اس طرح کی کوششوں کا آغاز ہو بھی چکا ہے۔ چناں چہ مظفر نگر کے فساد بلکہ شدت پسند ہندوؤں کی دہشت گردی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اتر پردیش میں جہاں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے اور اس پارٹی کی قیادت مسلمانوں کے حامی سمجھے جانے والے ملائم سنگھ یادو، جن کو کسی زمانے میں لوگ ’مولانا ملائم‘ کہا کرتے تھے، انھوں نے بھی دراصل مسلمانوں کو خوف زدہ کرکے ان کا ووٹ سمیٹنے ہی کی ایک کوشش کی ہے۔
یہ بات ظاہر ہے، اور اترپردیش کی برسر اقتدار پارٹی یہ سمجھتی بھی ہے کہ مسلمانوں نے BSP کے مقابلے میں اسے ووٹ دیا ہے اور اسی کے ذریعے وہ یوپی کے اقتدار پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اب کیوں کہ اس کے مختصر دورِ اقتدار میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ قائم ہے اس لیے اسے اس بات کا ڈر تھا اور ہے کہ مسلمان کہیں اس سے کنارہ کش نہ ہوجائیں اس لیے انھوں نے قوت و اقتدار رکھنے کے باوجود فرقہ پرستوں کو چھوٹ دی اور وہ کچھ ہوا جس نے دسیوں ہزار مسلم خاندانوں کو بے گھر اور سیکڑوں کو ہلاک کر دیا۔ حالاں کہ اگر حکومت چاہتی تو فرقہ پرستوں پر لگام کس سکتی تھی اور جانی ومالی نقصان کو روکا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو ایک ہفتہ بعد مظفر نگر پہنچے حالاں کہ اگر وہ چاہتے تو صرف چند گھنٹوں میں وہاں پہنچ کر سب کچھ کنٹرول کرسکتے تھے۔ پھر ان کی کیبنٹ کے مسلم وزراء کو بہ شمول اعظم خاں سانپ سونگھ گیا اور کسی کی زبان سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔ اور اب جب کہ ہزاروں مسلمان ابھی تک راحتی کیمپوں میں پڑے ہیں اور اپنے گھروں کو خوف کے سبب لوٹنے پر آمادہ نہیں ہیں، حکومت نہ تو ان کے خوف کو امن میں بدل پائی ہے اور نہ ان کی بازآباد کاری کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں، اس سے اس کے علاوہ اور کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت غیر سنجیدہ ہے اور وہ محض سیاسی روٹیاں سینک رہی ہے حالاں کہ حالات ابھی تک کشیدہ اور غیر یقینی ہیں۔
یوپی کی سیاست تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس کے دو بنیادی اسباب ہیں ایک تو یہ کہ یہاں ملک کی بڑی آبادی مقیم ہے اور یہاں پارلیمانی سیٹوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے جو کسی بھی سیاسی پارٹی کو قوت عطا کرتی ہے۔ اور دوسرے مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد اسی ریاست میں مقیم ہے اور وہ بہ آسانی اقتدار کو متاثر کرسکتی ہے۔ چناں چہ یوپی میں اگر مسلم سیاست مضبوط اور مستحکم ہو تو سیاسی ’سمی کرڑ‘ ادھر سے ادھر ہوسکتے ہیں۔
پارلیمانی انتخابات میں ابھی اتنا وقت باقی ہے کہ مسلمان اور مسلم قیادت معمولی سیاسی مفادات اور ذات برادری اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر موثر سیاسی حکمت عملی پر غور کریں اور مسلم ووٹ کو مستحکم، موثر اور خاطر خواہ تبدیلی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں۔ عام مسلمانوں کے لیے لازمی ہے ہ وہ ابھی سے نئے سیاسی افق اور مواقع تلاش کریں اور ملت فروش قائدین اور خرید و فروخت کا شکار ہوجانے والے سیاسی لیڈروں کا دامن چھوڑ کر مخلص، مضبوط اور ان کے حقیقی مسائل میں دلچسپی رکھنے والے سیاست دانوں کو دریافت کریں۔ ان کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ مضبوط بنیادوں پر سیاسی حکمت عملی وضع کریں اور مسلم سیاست کو آلہ کار کے بجائے فیصلہ کن قوت میں تبدیل کرنے کی اسٹریٹجی بنائیں اور اس کے لیے ملی اتحاد کے ساتھ ساتھ فکری ہم آہنگی ضروری ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دین کی بنیاد پر بھی مطلوب ہے اور سیاسی ضرورت بھی ہے۔