اس وقت دنیا بھر میں انسانی آبادی سات ارب اکیاون کروڑ سے آگے بڑھ چکی ہے اور ہر سکنڈ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اضافہ کی رفتار اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے مطابق 1.11فیصد سالانہ ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ 8000 قبل مسیح میں دنیا کی آبادی محض پچاس لاکھ تھی اور بعد از مسیح یہ آبادی بیس کروڑ ہوگئی۔ اگلے ۱۸۰۰ سال میں یہ آبادی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھی اور انیسویں صدی تک بڑھ کر ایک ارب ہوگئی اور پھر اگلے ۱۳۰ سالوں میں ۱۹۳۰ میں یہ آبادی دو ارب کو پار کر گئی۔ اس کے بعد محض تیس سالوں میں یعنی ۱۹۵۹ تک انسانی آبادی تین ارب کو جاپہنچی۔ اس کے بعد آبادی کی رفتار اور تیز ہوئی اور محض پندرہ سالوں میں انسانی آبادی چار ارب ہوگئی۔ یہ ۱۹۷۴ کی بات ہے۔ اگلے تیرہ سالوں میں مزید ایک ارب کا اضافہ ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف بیسویں صدی کے دوران کرۃ ارض پر انسانی آبادی ایک ارب پینسٹھ کروڑ سے بڑھ کر چھ ارب ہوگئی۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ۱۹۷۰ کے مقابلے آج تک دنیا کی آبادی تقریبا دو گنی ہوگئی ہے۔
لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں آبادی کی شرح اضافہ کم ہوگئی ہے پھر بھی اس میدان کی ماہرین آبادی کے مستقبل کو لے کر خوفناک تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق سالانہ آٹھ کروڑ آبادی کا اضافہ ہو رہا ہے لیکن آئندہ برسوں میں اس میں اور کمی آئے گی۔ ان کے مطابق ۲۰۲۰ تک آبادی میں اضافہ کی شرح ایک فیصد سالانہ سے بھی کم ہوجائے گی اور ۲۰۵۰ تک 0.5 فیصد سالانہ سے بھی کم۔
گلوبل پاپولیشن سے متعلق ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ ۲۰۵۰ تک دنیا کی نصف آبادی محض چھ ملکوں کی آبادی پر مشتمل ہوگی ان میں چین، ہندوستان، امریکہ، انڈونیشیا، برازیل اور پاکستان شامل ہیں۔
ماہرین معاشیات اور ماہرین آبادیات گزشتہ نصف صدی سے آبادی میں ’’دھماکہ خیز اضافے‘‘ کو لے کر اندیشوں کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بعض ماہرین معاشیات نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آبادی پر کنٹرول ضروری ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو بہت جلد قدرتی وسائل ختم ہوجائیں گے او رحقیقت یہ ہے کہ اسی نظریہ پر حکومتوں نے عمل بھی کیا اور دنیا بھر میں حکومتوں نے آبادی کے کنٹرول کے لیے پوری طاقت جھونک دی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب آبادی میں اضافہ کی شروع غیر معمولی حد تک کم ہوچکی ہے بلکہ بعض ممالک تو اس کے سبب بحران کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں ان میں چین سرفہرست ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آبادی میں اضافے کے سبب دنیا بہت سارے مسائل سے دوچار ہے جن میں جنگلات کی کٹائی کے سبب ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی سے لے کر فضائی آلودگی، شہر کاری ، صفائی ستھرائی کے نظام کا مسئلہ، پانی و غذا کے بحران سے لے کر ماحولیاتی بحران تک شامل ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری زمین مزید تین ارب انسانوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ (یہ ان کی رائے ہے) وہ مزید آبادی کی صورت میں قدرتی وسائل کی کمی، غذا کی قلت، بھوک، افلاس اور موذی امراض سے انسانیت کو ڈراتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آبادی کو نہ بڑھنے دیا جائے۔ جب کہ بعض غذائی ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کو درپیش مسائل میں اہم ترین مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ بھوک ہوگا۔ حالاں کہ یہ آج بھی بہت بڑا مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں ۹۰ کروڑ انسان بھوک کا شکار ہیں او راگلی تین دہائیوں میں یہ تعداد بڑھ کر دو ارب ہوجانے کا اندازہ ہے جب کہ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تین ارب سے زیادہ انسان خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق صرف براعظم افریقہ میں سوا کروڑ سے زیادہ انسان فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی۔ اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے سبب موسم کی تبدیلی کا عمل بھی جاری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں مستقبل میں طویل خشک سالی کا اندیشہ ہوگا ان خطوں میں جنوب ایشیا کے ممالک شامل ہیں، اسی طرح بعض خطوں میں شدید اور طوفانی بارش کا اندیشہ جتایا جا رہا ہے۔ جو بھی ہو، اتنا واضح ہے کہ آئندہ دنوں میں صاف پانی ہی کا نہیں بلکہ زراعت کے لیے استعمال ہونے والے پانی کا بھی بحران ہوسکتا ہے۔
ہم اپنے ملک کے مختلف علاقوں میں اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ زمین میں سطح آب مسلسل نیچے جا رہی ہے اور یہی نہیں بلکہ زمین سے نکلنے والا پانی اپنی خصوصیات تبدیل کر رہا ہے اور اس میں زہریلے اثرات کا مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دونوں صورتیں عوام کے لیے، خصوصاکسانوں کے لیے خطرہ بتائی جا رہی ہیں۔
فضائی آلودگی موجودہ زمانے کا اہم ترین مسئلہ بن گیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے ہک زمینوں کے بنجر ہونے، آبی ذخائر کے آلودہ ہونے اور سانس لینے کے لیے ہوا کے آلودہ ہوکر زہر بن جانے تک جا پہنچا ہے۔ ہندوستان اس کی بڑی مثال بن رہا ہے جہاں ملک کی راجدھانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے غیر مناسب جگہ بنتی جا رہی ہے۔ مضر صحت گیسوں اور مختلف اسباب سے زمین کے درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ دنیا کے سامنے چیلنج بنتا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آئندہ پچاس سالوں میں زمین کا درجہ حرارت کافی بڑھ جائے گا، جس سے سنگین ماحولیاتی نتائج سامنے آئیں گے۔
یہ تمام چیزیں اپنی جگہ حقیقت ہوسکتی ہیں مگر دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ان تمام مسائل کے پیچھے کون ہے اورکون کیا کردار ادا کر رہا ہے۔ الیکٹرانک کچرا جس کا وزن او رحجم دونوں تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں، دنیا کے سامنے بڑا خطرہ اور نیا چیلنج بن رہا ہے۔
وہ طاقتیں جو ان تمام خطرات اور مسائل کے لیے دنیا کی بڑھتی آبادی کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں یہ بھول جاتی ہیں کہ دنیا میں ان تمام مسائل اور مشکلات کا سبب بھی ترقی یافتہ اقوام اور ان کا نقطہ نظر ہی ہے۔ اس میں سب سے اہم رول اس سوچ کا ہے کہ وہ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کے ذریعے پیسہ کمانے کی ہی فکر رکھتی ہیں۔ اس کے لیے وہ استحصالی طریقے اختیار کرتی ہیں اور کہیں وہ غریب اقوام کو جھانسہ دے کر اور کہیں ڈرا دھمکا کر تو کہیں ان کی قیادت کو خرید کر ان کے مالی و قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور دولت اکٹھا کرنے کے منصوبے پر کاربند رہی ہیں اور آج بھی ہیں۔
ان طاقتوں کا اندازفکر و عمل اپنے لیے الگ اور دوسری اقوام کے لیے الگ ہے۔ وہ اپنے ملک کے قدرتی وسائل کو محفوظ رکھ کر دوسری اقوام کے قدرتی وسائل کو استعمال بلکہ برباد کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں اپنی مضنوعات ان غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کو فروخت کرنی ہیں خواہ وہ کتنی ہی مضر کیوں نہ ہوں اور وہ انسانوں یا کرہ ارض کے لیے کتنی بھی تباہی کا سبب ہوں۔ پسماندہ دنیا کیوں کہ ان کے نتائج و اثرات سے آگاہ نہیں یا پھر ان کی مخالفت کی جرأت نہیں رکھتی اس لیے مجبور ہے۔
آج ترقی یافتہ ممالک اپنے ملکوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں صنعتی یونٹ لگاتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس طرح ان اقوام کے لیے روزگار پیدا ہوگا۔ اس میں کچھ تو حقیقت ہے کہ ان خطوں میں سستی لیبر میسر آجاتی ہے مگر کیا اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ صنعت کاری کے نتیجے میں ہمارے ملک کے قدرتی وسائل کس طرح برباد ہوں گے۔ آبی ذخائر کس طرح آلودہ ہوں گے او رہو رہے ہیں اور فضائی آلودگی پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ کیا دنیا یہ نہیں جانتی کہ انڈسٹریل ڈویلپمنٹ ہی ہمہ جہت فضائی آلودگی کا سبب ہے اور کیا وہ اقوام یہ کام اپنے ملک میں نہیں کرسکتیں۔ وہ یقینا کرسکتی ہیں مگر وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ یہ کام اپنے ملک کی حدود میں کریں گی تو اس کے معاشی اور فضائی آلودگی کے اعتبار سے کیا نتائج برآمد کرے گا۔ اس طرح ترقی یافتہ دنیا نے غریب اور پسماندہ ممالک کو روزگار کا خواب دکھا کر دنیا کو کوڑے دان بنا دیا ہے اور اس نظریے میں مسلسل توسیع ہوتی جاتی ہے۔ یہی طاقتیں ماحولیات پر کانفرنس کرتی ہیں، معاہدے کراتی ہیں مگر جب مضر صحت گیسوں کے اخراج کی بات آتی ہے اور اگر انہیں کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے تو معاہدوں سے نکل جاتی ہیں۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ تیسری دنیا کے قدرتی وسائل تیزی سے ختم یا آلودہ ہو رہے ہیں اور انہیں چرانے والے بلکہ ان پر ڈاکہ ڈالنے والے اور برباد کرنے والے یہی ممالک ہیں، جو دنیا کو کرہ ارض کے تحفظ کی تلقین کرتے ہیں۔
کاشت کاری ابتدائے انسانیت سے جاری عمل رہا ہے لیکن زرعی ترقی اور زرعی پیدوار میں اضافے کے لیے انہی طاقتوں نے کیمیکل کھادوں اور کیٹ ناشک دواؤں کی شکل میں ایسی زہریلی اشیا فراہم کی ہیں جن سے زمینی پیداوار میں اضافہ تو ہوتا ہے مگر زمین اپنی طاقت کھوتی جا رہی ہے۔ زیر زمین آبی وسائل آلودہ ہوگئے ہیں، ہزاروں مخلوقات کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے اور خود انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب ہے۔ کیا کوئی اعداد و شمار ہیں جو یہ بتا سکیں ان زہریلی کیٹ ناشک دواؤں کے ذریعے ہر سال کتنے کسان مرجاتے ہیں۔ کوئی اعداد و شمار نہیں کیوں کہ ان کی ضرورت نہیں اور ضرورت اس لیے نہیں کہ اگر ان کا ریکارڈ رکھ کر دنیا کو بتایا گیا تو ان مصنوعات کی بکری رک جائے گی۔ ہاں ایڈز سے مرنے والوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں غربت و افلاس اوربھوک کا سبب آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ قدرتی وسائل اور دولت کی غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ و غیر مساوی تقسیم ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے وسائل چند ممالک اور ان میں بھی محض چند خاندانوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
نوے کروڑ خط غربت سے نیچے زندگی جینے والے انسانوں کی اسی دنیا میں اور سوا کروڑ فاقہ کش انسانوں کے اس کرہ ارض پر سیکڑوں ملین ٹن غذائی اشیاء ہر سال کوڑے دان میں پھینک دی جاتی ہیں اور یہ پورے یوروپی ممالک کا حال ہے۔ جرمنی جو دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک سمجھا جاتا ہے تنہا سال میں بیس ملین ٹن غذا کو کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ یہ کتنی ناانصافی ہے کہ سوا کروڑ انسان بھوک سے بلک رہے ہوں اور کچھ لوگ ٹنوں سامان خورد و نوش کوڑے دان میں پھینک رہے ہوں۔
ہندوستان اور چین کی آبادی دنیا کی آبادی کا 37 فیصد ہے اور براعظم ایشیا کی آبادی 7.5 ارب والی دنیا میں 4.2ارب سے متجاوز ہے۔ دیکھئے محض دنیا کی 7 فیصد آبادی والا امریکہ کس طرح دنیا کے زیادہ تر وسائل پر قابض ہے۔ دنیا یہ بات جانتی ہے کہ کرہ ارض کی 98 فیصد دولت پر دنیا کے 2 فیصد افراد قابض ہیں اور حد تو یہ ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کے دس افراد کے ہاتھوں میں اتنی دولت دے دی ہے کہ اگر اس کی عادلانہ و منصفانہ تقسیم ہو تو پوری دنیا سے غربت و افلاس، بھوک اور ناخواندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔lll