اسلام کی بنیاد توحید (اللہ پر ایمان)، رسالت (رسول پر ایمان) اور آخرت یعنی یومِ جزاء وسزا پر ہے۔ ایمان بالآخرت اس حیثیت سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ جو شخص اپنی کم نظری، کم عقلی اور لاابالی پن کے سبب یہ سمجھتا ہو کہ دنیاوی زندگی ہی بس زندگی ہے اور مرنے کے بعد اٹھنا اور اٹھایا جانا محض خیالی باتیں ہیں، تو اس کا یہ نظریہ اور سوچ نہ اسے اللہ پر ایمان لانے کا اہل بنائے گا اور نہ رسول پر ایمان لانے پر آمادہ کرسکے گی بلکہ وہ اپنی اس سوچ کے سبب ہمیشہ اس کی مخالفت ہی کرتا رہے گا۔ قرآن پاک جگہ جگہ مشرکین کے اس طرزِ فکر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ آخرت کے انکار کے لیے نئے نئے نقطہ لوگوں کے سامنے آخرت کے خلاف دلیل کے طور پر رکھتے۔ مثلاً: (ترجمہ)’’جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور صرف ہڈیاں ہوں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایا جائے گا؟‘‘ (الاسراء : 49)
اور ایک جگہ ان کی سوچ کی طرف اشارہ کیا گیا :
’’بس ہماری زندگی تو یہ دنیاوی زندگی ہی ہے اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔‘‘ (الانعام: 29)
اس سوچ کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی آیات میں آخرت کو مختلف دلائل کے ذریعے پیش کرتا ہے:
’’اور یاد کرو! اس وقت کو جب قبروں کو کھول دیا جائے گا اور انسان اپنے کیے دھرے کو جان لے گا۔‘‘ (الانفطار:5-4)
جو لوگ دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں وہ آخرت پر ایمان لاکر اپنے عیش و عشرت کو کیوں تج دینا چاہیں گے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو قرآن کریم ’’حق کا انکار کرنے والے‘‘ اور ’’سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے‘‘ قرار دیتا ہے اور اس کی اصل وجہ یہ بتاتا ہے کہ وہ آخرت سے نہیں ڈرتے۔
’’ہرگز نہیں! بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ آخرت سے نہیں ڈرتے۔‘‘ (المدثر:53)
قرآنِ مجید یومِ آخرت پر جس قدر زور دیتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ روزِ جزا و سزا ہی وہ تصور ہے جو نہ صرف انسان کے عقیدے کی اصلاح کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی کو اس قدر متاثر کرتا ہے کہ انسان کا ہر عمل اسی تصور سے جڑ جاتا ہے اور انسان کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ قیامت کے دن اس عمل سے اسے کیا ملنے والا ہے۔ اس کا یہ عمل اسے نیکی سے ہم کنار کرنے والا ہے یا گناہ میں ملوث کردینے والا ہے۔ اس عمل کا بدلہ اسے جنت اور انعام کی شکل میں ملے گا یا یہ عمل اس کو اللہ کی ناراضگی اور جہنم کا حق دار بنانے والا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مقدمۂ قرآن یعنی سورئہ فاتحہ میں جہاں اللہ کی جامع صفات کا ذکر ہے وہیں ’’مالکِ یوم الدین‘‘ کا بھی واضح تذکرہ ہے اور اللہ سے دعا کی گئی ہے کہ اس راستے کی طرف ہمارے رہنمائی فرما جو راستہ تیرے انعام کا راستہ ہے اور اس راستےسے بچا جس پر چلنے والوں پر تیرا غضب نازل ہوا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مختلف پیرایوں اور اسالیب میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی زندگی محض چند روز اور خاص مدت کے لیے ہے پھر تمام انسانوں کو پلٹ کر اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے اور دنیا میں، جو کچھ انھوں نے اچھا یا برا، کیا ہے اس کا بدلہ پانا ہے۔
’’ان لوگوں سے کہہ دو کہ تمہیں جو کرنا ہے کرو، اللہ، اس کا رسول اور مومنین تمہارے عمل کو دیکھیں گے اور تم عنقریب لوٹائے جاؤگے کھلے اور چھپے ہر کچھ جاننے والے کی طرف پھر وہ تمہیں بتادے گا وہ سب جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔‘‘ (توبہ: 105)
’’ان سب کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور پھر ہم ان سے (پوری زندگی کا) حساب لیں گے۔‘‘ (الغاشیہ:36)
پھر اس دن کی ہولناکی کا بھی جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً: ’’وہ دن ایسا دن ہوگا کہ بھائی اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی بیوی اور اولاد سے بھاگے گا اور اپنے ان دوستوں سے بھی فرار اختیار کرے گے جو اسے پناہ دیتے تھے۔‘‘ (عبس: 36-33)
اس دن انسان چاہے گا کہ اس کے پاس زمین کی ساری دولت ہو اور وہ اسے دے کر چھوٹ جائے تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کو دردناک عذاب میں ڈال دیا جائے گا اور یہ عذاب ہمیشگی کا عذاب ہوگا۔ جسے ’’یوم الخلود‘‘ ہمیشگی کا دن کہا گیا ہے۔
قرآن کریم کی ان ساری آیات اور پورے قرآن کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی بے شمار آیات آخرت کا ایسا تصور انسانوں کو دیتی ہیںکہ اگروہ انسان کے ذہن میںہر وقت موجود رہے تو اس کی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے، اس کا ہر عمل انجام پانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ناپسندیدگی کے ترازو میں تلتا ہے اور انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اللہ کو خوش کرنے والا اور اس کی ناراضگی اور آخرت کے عذاب سے بچانے والا ہو۔
ایسا انسان جو آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کا طرزِ فکروعمل ان لوگوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا اندازِ گفتگو، عادات و اطوار، لوگوں کے ساتھ سلوک اور معاملات، ان کی دلچسپی اور پسند و ناپسند سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسان مالک یوم الدین پر ایمان رکھتا ہے اور اپنی زندگی کے اعمال کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔
اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے والے انسان کا کردار اندھیرے میں روشن چراغ کی طرح ہوتا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ اس کے کردار و عمل سے اسے نہ تو کوئی خطرہ ہے اور نہ وہ دنیا میں کوئی غلط کام انجام دینے کا روادار ہوسکتا ہے۔
یہ معاملہ فرد کا ذاتی ہوتا ہے مگر سوچئے کہ اگر ایک ایسی ملت اور ایسا گروہ پیدا ہوجائے جو اپنی زندگی میں آخرت کےاسی تصور کے ساتھ قائم ہو تو ملت اسلامیہ کس قدر عزت و تکریم حاصل کرلے گی۔
اگر ہم بہ حیثیت فرد اور بہ حیثیت ملت اس تصور آخرت کو اپنے ذہنوں میں تازہ اور مستحکم کرلیں تو اپنے اعمال کے آئینے میں وہ خاکہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں، جسے دیکھ کر پوری انسانیت اپنی راہ پالے گی اور امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گی — مگر — اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو قرآن کریم اور اس میں دی گئی ہدایات سے جوڑیں۔ بہ صورتِ دیگر ملت کی یہ زبوں حالی اور کردار کی پستی دور نہ ہوسکے گی۔