اس وقت مجھے تمہاری آرزو تھی جس طرح اب تمہیں میری تمنا ہے لیکن دریا کا پانی آخری پل کے نیچے سے بھی گزرچکا ہے۔ وہ سمندر کی جانب راستہ بنائے بغیر نہیں رہ سکتا اور پھر لوٹ کر بھی نہیں آتا۔ راستے کی سب رکاوٹیں اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہیں لیکن پانی ان کی پروا نہیں کرتا۔
اس وقت مجھے تم سے محبت تھی، جس طرح اب تمہیں مجھ سے الفت ہے۔ مگر نسیم سحر کا تیز جھونکا غنچہ وگل کو گدگدا کر آگے بڑھ گیا ہے اور جب نسیم سحر کا کوئی جھونکا گل کو گدگدا کر آگے بڑھ جاتا ہے تو وہ اس سے دبارہ اٹکھیلیاں کرنے کے لیے واپس نہیں آتا۔
اس وقت میں تمہارا پجاری تھا جس طرح اب تم میری پرستار ہو لیکن تمہاری سابقہ سردمہریوں سے من مندر کے پٹ بند ہوگئے ہیں اور جب من مندر کے پٹ کسی کی سرد مہریوں سے ایک بار بند ہوجاتے ہیں تو کسی کی آہوں کی گرمی یا آنسوؤں کی تپش انہیں دوبارہ کھول نہیں سکتی۔ وہ بند ہی رہتے ہیں۔
اس وقت مجھے تمہاری کج ادائی کا گلہ تھا جس طرح اب تمہیں میری بے رخی کی شکایت ہے لیکن محبوب کی تلون مزاجی جب عاشق کے دل کو گھائل کردیتی ہے اور جب کسی کالبریز محبت دل ایک بار شکستہ ہوجاتا ہے تو مخلوق سماوی کی مسیحائی یا ستاروں کی معجز بیانی غیر مرئی زخموں کا اندمال نہیں کرسکتی۔
اب بتاؤ، یہ تمہارا اپنا قصور ہے یا خود میری شومئی قسمت کہ ہماری زندگی ایک دوسرے سے جدا رہ کر بسر ہورہی ہے۔ تم محبت کی اہل نہیں ہو یا میں اس لائق نہیں۔ لہٰذا ہمارا ایوانِ محبت منہدم ہوکر بنیادوں سے بھی نیچے گرچکا ہے۔ اسے نئے سرے سے تعمیر کرنا اگر ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرے در سے تمہیں محبت کی بھیک نہیں مل سکتی ، کبھی نہیں۔
میں دے سکتا ہوں اختلاج قلب، ایک درد محرومی، ایک احساس ناکامی اور بس، اس کے سوا کچھ نہیں، تاہم ماضی کے فنا شدہ حالات میں تجدید حیات قرین قیاس ہے۔ یعنی اگر سچی محبت دلوں میں جاگزیں ہوتو غیر ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
جاؤ … دریا کی سطح پر نشیب کو فراز سے بدل کر پانی کی روانی کا رخ پلٹ دو۔ نظام قدرت میں دخل اندازی کرکے نسیم سحر کے جھونکوں کا رخ تبدیل کردو، عشق کے دیوتا کو رام کرکے من مندر کے پٹ کھلوادو اور ان سب سے زیادہ یہ کہ میرے دل کو، جو پامال تمنا ہوچکا ہے، دوبارہ موہ لو۔ کسی طرح میرے احساسات و جذبات کی دنیا میں ہلچل پیدا کرکے مجھے اپنا بنالو۔ اس سے قبل تم میری رفیق حیات نہیں بن سکتیں۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ بالکل آخری فیصلہ!ll