آزادیِ نسواں کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں غلام ہیں، انہیں آزاد ہونا چاہیے۔ سوال ہے عورتوں کو غلام کس نے بنایا اور انہیں آزاد کون کرائے گا؟ دونوں قسم کے سوال کا جواب ہے ’مرد۔‘ لیکن اب سوال یہ ہے کہ مرد نے عورت کو غلام کب بنایا اور وہ اس کو آزاد کس طرح کرے گا؟ اس سوال کا اگر کوئی جواب ہے تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ عورت جب سے دنیا قائم ہے پیدائشی غلام ہے۔ باپ کی غلام، بھائی کی غلام، شوہر کی غلام، یہاں تک کہ بیٹے کی غلام۔ عورت کی غلامی کی یہ تفصیل بعض لوگوں کو مضحکہ خیز معلوم ہوگی۔ لیکن اصل میں مضحکہ خیز تو آزادی نسواں کی ترکیب ہے، جس سے سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا آخری سوال یہ ہے کہ یہ ترکیب کس نے وضع کی؟ جواب ہے ’مغرب‘ یعنی یورپ اور امریکہ۔ اسی لیے آزادیِ نسواں کا لفظ انگریزی میں Women’s liberation کا ترجمہ ہے جو اس وقت کیا گیا، جب مشرقی سماج پر مغربی تہذیب کا غلبہ ہوگیا۔ اور اس کی اندھی تقلید یا نقالی کی جانے لگی، ورنہ اردو زبان میں آزادیِ نسواں ایک مہمل لفظ ہے، جس کا کوئی معنی اس سماج کے لیے نہیں ہے، جس سے اردو کا تعلق ہے۔ اس لیے کہ یہ سماج اصلاً اسلام کا بنایا ہوا ہے اور اسلام میں عورت کی غلامی کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ وہ اسی طرح آزاد ہے، جیسے مرد، باپ اس کا سرپرست ہے، بھائی اس کا مددگار، شوہر اس کا پاسبان اور بیٹا اس کا تابعدار۔
اردو سماج کی اس بنیادی حقیقت کے مدنظر آزادیِ نسواں کے موضوع پر گفتگو آسان نہیں، بہرحال جن باتوں یا کاموں کے لیے آزادیِ نسواں کے مغربی تصور کا استعمال تقریباً ایک سو سال سے مشرق یا ہندوستان میں ہو رہا ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) تعلیم (۲) معاشرت (۳) روزگار (۴) تہذیب (۵) سیاست۔
۱- کہا جاتا ہے کہ عورت کی تعلیم مرد کی طرح ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ سماجی علوم و فنون کے علاوہ سائنسی تکنیکی اور فوجی علوم و فنون بھی عورت کو مرد ہی کے مانند سکھائے جائیں، اس لیے کہ دونوں برابر ہیں، لہٰذا ان کے درمیان تعلیم میں کوئی فرق و امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اداروں میں بے پردہ مخلوط تعلیم دی جاتی ہے۔ مرد اور عورت کی نام نہاد مساوات کا یہ تصور عصر حاضر اور جدید تہذیب و تمدن کی وہ جہالت و حماقت ہے، جس کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں خاندانی نظام ٹوٹ چکا ہے اور معاشرہ سخت انتشار سے دوچار ہے۔ حیاتیات اور نفسیات کے اعتبار سے مرد و عورت نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لہٰذا ان کی تعلیم کے مضامین اور دائرے فطری طور پر مختلف ہونے چاہئیں۔
عقل کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے تو بے پردہ مخلوط تعلیم کا سلسلہ بند کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ اس کا حاصل ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کہلانے والے ملکوں میں صرف یہ نکلا ہے کہ عورت مرد بننے کی کوشش کر رہی ہے اور مرد عورت بنتے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ ایک تیسری جنس پیدا ہونے لگی ہے جو صحیح معنوں میں نہ مرد ہے نہ عورت۔ مشہور مفکر اور ادیب آلڈس بکسلے نے اپنے مشہور ناول The Brave new world میں اس مخنث کا نام Unisex رکھا ہے۔ دوسری بات یہ کہ سوشل سائنس یا آرٹس یا جدید اصطلاح میں انسانیات یعنی سماجی علوم و فنون کے نصابات تو مرد و عورت کے لیے یکساں رہ سکتے ہیں، مگر سائنسی اور تکنیکی علوم میں مرد و عورت کے لیے الگ الگ حدود مقرر کرنے ہوں گے مثلاً زنانہ ہسپتالوں میں کام کرنے کے لیے زنانہ میڈیکل کالجوں میں پڑھی ہوئی ڈاکٹروں اور نرسوں کی تو ضرورت و افادیت ہے، مگر انجینئرنگ میں عورت کا کوئی مصرف یا اس کے لائق کوئی مشغلہ نہیں ہے۔ اسی طرح فوج علوم میں سوائے زنانہ پولیس کی عورتوں کے کھلے میدان میں سپاہی بنانا ان کے ساتھ زیادتی اور خاندان کی تباہی کا سامان ہے۔
۲- معاشرت کا معاملہ تعلیم سے بھی تعلق رکھتا ہے اور عورت کا اصل میدانِ کار معاشرت خاص کر اس کی بنیادی اِکائی خاندان ہے۔ نہ تو عورت باپ بن سکتی ہے نہ مرد ماں۔ لہٰذا عورت سے باپ اور ماں دونوں بننے کا تقاضا جدید تہذیب کا نسوانیت اور انسانیت پر نہایت وحشیانہ حملہ ہے۔ شوہر اور بیوی کے مشاغل کا فرق ان کے دائرہ عمل کو ایک دوسرے سے فطری طو رپر الگ کر دیتا ہے۔ ایک بیٹی اور بہن کی پرورش بیوی بننے کے لیے ہی کی جاتی ہے اور کی جانی چاہیے، ورنہ اگر عورت رشتوں سے الگ ہوکر صرف عورت بن کر رہنا چاہے تو وہ عورت باقی نہیں رہ سکتی۔ لہٰذا معاشرت میں قدرتی اور عقلی تقسیم کار یہ ہے کہ عورت کو گھر سنبھالنا ہے، خانہ داری کرنی ہے اور مرد کو معاش کی فکر کے ساتھ خاندانی نظام درست رکھنا ہے۔ اس کے بجائے مغربی تصور نے ہاؤ زو ایف اور ورکنگ وومن یعنی گھریلو بیوی اور کار پرداز عورت کے درمیان تقیم و تفریق کر کے خود عورت کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے اور اس پر دوہرا بوجھ ڈال کر ظلم کی انتہا کردی ہے۔
۳- روزگار کی بات تعلیم اور معاشرت کے معاملات سے وابستہ ہے۔ عورت کو براہِ راست اور عام طور پر روزگار وکاروبار میں مردوں کے مقابلے پر لانا نہ تو انصاف کی بات ہے، نہ عقل کی، نہ کام کی۔ بالواسطہ اور خاص حالات نیز مخصوص حدود میں عورت روزگار میں حصہ لے سکتی ہے، کاروبارمیں بھی۔ مثال کے طور پر زنانہ اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں کے لیے معلّمات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح عورت اپنا سرمایہ کار وبار میں لگا سکتی ہے اور اپنے سرمایے پر کاروبار کرا بھی سکتی ہے، ورنہ بالعموم اور براہِ راست ملازمت اور تجارت کے میدانوں میں اگر عورت کو مرد کے ساتھ سرگرم کر دیا جائے تو گھر اور بچوں کی نگہ داشت کون کرے گا؟ جب شوہر بچے کی پیدائش اور ابتدائی پرورش میں عورت کا ہاتھ نہیں بٹا سکتا تو عورت روزگار کاروبار میں کیوں اور کس طرح اس کا ہاتھ بٹائے؟ اس سوال کا عبرت خیز جواب ان محکموں اور دفتروں میں موجود ہے جہاں عورتیں مردوں کی ماتحت یا افسر ہیں اور دونوں صورتوں میں اپنی عزت و نسوانیت کو تباہ کر رہی ہیں۔
۴- آج تہذیب یعنی کلچر کے نام پر مرد و عورت کے بے قید و بے حجاب اختلاط سے سماج میں جو فساد برپا ہو رہا ہے، اس سے بڑھ کر بد تہذیبی تاریخ کے کسی دور میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ فلموں اور اشتہاروں نے عورتوں کو ننگا نچا دیا ہے، ان کے بازو کھلے ہوئے ہیں، ان کا پیٹ کھلا ہوا ہے، ان کی کمر کھلی ہوئی ہے، ان کی بوٹی بوٹی مردوں کی ہوس آلود نگاہوں کے لیے تماشا بن گئی ہے۔ ناچ گانوں کی بدتمیزی مردوں کے ایجاد کیے ہوئے عریاں سے عریاں تر لباس کے فیشن کے ساتھ مل کر پورے سماج کوایک شرم ناک چکلہ بنا رہی ہے، خاندان کو برباد کر رہی ہے، بچوں اور بچیوں کے ذہن میں مہلک زہر ڈال کر ان کے کردار کو مسخ کر رہی ہے، ان کو مہذب انسان بنانے کے بجائے مادر پدر آزاد وحشی جانور بنا رہی ہے۔ آرٹ اور کلچر کے آج جتنے مظاہرے ہو رہے ہیں وہ عورت کی ذلت و رسوائی کا ایسا سامان کر رہے ہیں جیسا قدیم زمانے کی بردہ فروشی میں بھی نہیں ہوا تھا۔ سینما کی تصویریں اور ٹیلی ویژن کے سیریل طوائف کے کوٹھوں پر ہونے والی حرکتوں سے زیادہ شرمناک اور تباہ کن ہیں۔ ان تماشوں سے سماج میں ایسا زبردست بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، جس کا کوئی علاج نہیں۔ اس سے انسانوں کی نہ صرف سیرت بلکہ ان کی فطرت بھی مسخ ہو رہی ہے۔ پوپ میوزک، پوپ ڈانس، کوکٹیل پارٹی، فلمی میلے، مقابلہ حسن، کلچرل پروگرام صرف بدتمیزی، بدتہذیبی اور بے شرمی کے ہوس انگیز کاروبار ہیں جن کا منافع سرمایہ کاروں کی جیب میں جا رہا ہے اور خسارہ تماش بینوں کو ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری سنسر بدترین قسم کی سوداگری ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو عیاش دولت مندوں کے ہاتھ بیچ دیا گیا ہے۔ یہ آزادیِ نسواں ہے یا غلامیِ نسواں؟ عورتوں کے حقوق بلکہ انسانیت کے حقوق کی اس کھلی ہوئی پامالی پر متعلقہ اداروں کی بے حسی اور غفلت شعاری تعجب خیز اور تشویش انگیز ہے۔
۵- عورت کو آج کی جمہوری سیاست میں جس طرح گھسیٹا گیا ہے۔ وہ آزادیِ نسواں کے نام نہاد علمبرداروں کے گھٹیا پن کی ایک نمایاں مثال ہے۔ ووٹ کا حق بلاشبہ مرد و عورت سب کے لیے برابر ہے اور ہر عورت کو اپنی سیاسی رائے استعمال کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن پارٹیاں الیکشن میں امیدوار بنا کر عورتوں کو جس انداز سے میدانِ سیاست میں عام طور پر استعمال کر رہی ہیں وہ صرف ایک جنسی استحصال ہے، جس کے نتیجے میں عورت مرد کے ہاتھ میں ایک کھلونا بن کررہ گئی ہے اور گویا جمہوری سرکس میں مرد کا دل بہلانے کے لیے عورتوں کی بھی فنکاری کا کھیل دکھایا جا رہا ہے۔ ایک عورت اپنی نسوانیت کے پورے وقار کے ساتھ، خاندانی رشتوں کے تقدس کو بیٹی، بہن،بیوی اور ماں کی حیثیت سے ملحوظ رکھتے ہوئے، چند اخلاقی حدود میںسیاستِ وقت کے اندر ایک رول ادا کرسکتی ہے، اگر اس کی ضرورت و افادیت ہو، مگر ان حدود سے باہر نکل کر اور رشتوں کے تقدس پر مبنی اپنی نسوانیت کو پامال کر کے عورت کی سیاست گردی آزادیِ نسواں نہیں، غلامی نسواں کا جدید انداز ہے، جس کی وجہ سے سیاسی اداروں میں وہ سب خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، جو بے پردہ مخلوط سماج کی دین ہیں۔
آزادیِ نسواں کا یہ مختصر جائزہ اور تجزیہ، یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ مذکورہ اصطلاح اصلاً غلط اور عملاً فساد انگیز ہے۔ یہ عصر حاضر اور جدید تہذیب کے فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ ہے جو مغربی تصورِ حیات اور نظامِ زندگی نے پیدا کیا ہے۔ اس کا نتیجہ اقبال کے لفظوں میں ’’مرگ امومت‘‘ ہے اور ’’زن‘‘ کو ’’نازن‘‘ بنانے کا ایک طریقہ۔ انسانی سماج اور خاندان کے دو بنیادی ارکان و عوامل ہیں، ایک مرد، دوسرے عورت۔ مرد کی حیثیت فطری طور پر پدری ہے اور عورت کی مادری۔ ’زندگی نسواں‘ کے مغربی نعرے اور تماشے نے مادریت پر کاری ضرب لگائی ہے، تعلیم، معاشرت روزگار، تہذیب، سیاست سب میں عورت کی مادرانہ حیثیت مجروح ہو رہی ہے، جس کے سبب خاندانی نظام بکھر رہا ہے اورسماجی ماحول بگڑ رہا ہے۔ اس طرح آزادیِ نسواں کے نام پر مغربی تہذیب نے شاخِ نازک پر جو آشیانہ تعمیر کیا ہے۔ وہ عورت کی مادریت کے رفتہ رفتہ ختم ہونے کے باعث اجڑ رہا ہے اور تہذیب اپنے خنجر سے گویا آپ ہی خود کشی کر رہی ہے۔ یہ ایک سیلابِ بلا ہے، جو طوفانِ نوح بن سکتا ہے۔
لہٰذا اشد ضرورت ہے کہ مغرب کے غلط تصور کے مقابلے میں آزادیِ نسواں کے صحیح اسلامی تصور کو رائج کیا جائے، جس کے بنیادی نکات حسب ذیل ہیں:
۱- عورت کے انسانی حقوق مردوں کے برابر ہیں۔
۲- مرد و عورت کے باہمی رشتے میںبہرحال مرد کی حیثیت خاندان کے سربراہ کی ہے۔
۳- عورت کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم اس کی نسوانیت کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔
۴- معاشرے میں عورت کا فطری رول مادریت کا ہے۔
۵- عورت کی تہذیبی سرگرمیاں نسوانی حدود کے اندر ہونی چاہئیں۔
آخری بات یہ کہ موجودہ دور عورت کی آزادی کا نہیں غلامی کا ہے، جس سے اسے نکالنے کے لیے آزادیِ نسواں کے مغالطہ آمیز اور فتنہ انگیز تخیل کے بجائے احیائے نسوانیت کی تحریک چلانی ہوگی، اس لیے کہ عورت کی مادرانہ حیثیت کو تباہ کرکے نام نہاد آزادیِ نسواں نے در حقیقت مرگِ نسوانیت کا سامان کیا ہے۔lll