رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تربیت کا ایک منظر دیکھیں۔ آپؐ مسجد نبوی میں جلوہ افروز ہیں، صحابہ کرام بھی تشریف فرما ہیں۔ ایک اعرابی آیا، اس نے کھڑے ہوکر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ ’’مسجد میں پیشاب‘‘ لوگ دوڑے اسے روکنے شاید مار بھی دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو چھوڑ دو، اس کو حاجت پوری کرلینے دو۔ جب وہ فارغ ہو گیا تو آپؐ نے اسے اپنے پاس بلا کر نہایت شفقت سے سمجھایا کہ یہ مسجد ہے ایک مقدس جگہ یہاں پیشاب نہیں کرتے۔ یہ اللہ کی یاد نماز اور قرآن پڑھنے کی جگہ ہے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہاں ایک ڈول پانی لاکر بہادو، تم کو نرمی کرنے والا بنایا گیا ہے سختی کرنے والا نہیں۔
آپﷺ کبھی کسی ناخوشگوار واقعہ پر بھی کبھی مشتعل نہ ہوتے بلکہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے، حسن تدبیر سے ہر مسئلے کا حل تلاش کرتے۔ آپؐ نے قاضی کی حیثیت سے لوگوں کے معاملات کے فیصلے بھی کیے۔ کمزوروں کو ان کا حق دلایا۔ ظالموں کو ظلم سے روکا۔ آپؐ پر کسی کی داد رسی کرتے ایک مرتبہ ایک بدو قرض خواہ کا قرض کا مطالبہ کرنے آیا اس نے اپنے بدویانہ مزاج کے مطابق تیز و کرخت لہجے میں بات کی۔ صحابہ کرام نے کہا کہ تم جانتے نہیں ہو کس ہستی سے بات کر رہے ہو۔ اس نے کہا کہ میں تو اپنا حق طلب کر رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی حمایت کرنی چاہیے، کیوں کہ اس کا حق ہے۔ پھر اس کا حق بے باق کرنے کا حکم دیا اور اس کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دلوا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا انداز مشفقانہ ہوتا۔ ہر بات حکمت سے پر۔ اگر کسی شخص میں کوئی خرابی دیکھتے تو اسے ڈائریکٹ سرزنش نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ ایسا کرتے ہیں ویسا کرتے ہیں (یعنی اس کی غلطی کی نشان دہی فرماتے) سامنے والا کود ہی سمجھ جاتا کہ میری تربیت کی جا رہی ہے ہفتہ میں دو تین ہی وعظ و نصیحت کرتے کہ لوگ اوب نہ جائے۔
محسن انسانیت کی سیرت کا ہر پہلو اتنا تاب ناک و روشن اور پیارا ہے۔ جیسے کسی خوب صورت البم میں بہت خوب صورت تصویریں آویزاں ہوں۔
سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلمکے اس خوب صورت ترین البم سے ایک اور پیاری سی تصویر کی جھلک دیکھئے: ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی نو عمر صحابی کے ساتھ اونٹ پر سفر کر رہے تھے۔ سامنے ایک خوب صورت عورت نظر آئی نو عمر صحابی مسلسل اسے گھورنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماجرا دیکھا تو نہایت عمدہ طریقہ سے صحابی رضی اللہ عنہ کی ٹھوڑی پکڑ کر چہری بائیں طرف موڑ دیا۔
سبحان اللہ قربان جائیے اس پیارے انداز پر کہ زبان سے کچھ کہے بغیر کام ہوگیا۔ ہم ذرا اپنا محاسبہ کریں کیا ہم اصلاح معاشرے کے لیے کوئی اقدام کرتے ہیں۔ کیسا ہمارے پاس ایسا صبر و تحمل و قوتِ برداشت ہے۔ کیا ہم ایسا درد مند دل رکھتے ہیں۔
انتہائی درجہ کا حلم، نرمی اور وسعب قلبی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا حصہ تھی، کیا ہم اپنے اندر پاتے ہیں۔ اگر نہیں تو ہمیں سیرت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے درخشاں پہلوؤں سے اپنی زندگیوں کو سنوارنا ہوگا۔ کیوں کہ ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے نمونۂ حیات ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر ہم دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کر سکتے ہیں۔lll