ابتلا وآزمائش میں صحیح رویہ

ملک محمد عطا

اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی عیش کدہ ہے، نہ جہنم زار بلکہ ایک امتحان ہے۔ یہ امتحان کبھی نعمت عطا کر کے لیا جاتا ہے تو کبھی مصیبت نازل کر کے۔
اس امتحان و ابتلا سے ہر شخص اور ہر قوم گزرتی ہے اس میں کسی کے لیے رعایت نہیں۔ انبیاء جو خدا کے پیارے اور محبوب ہیں، انہیں بھی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ہمارے رسولؐ اس حال میں پیدا ہوئے کہ سر پر باپ کا سایہ نہ تھا۔ چھ سال کے تھے کہ والدہ ماجدہ وفات پاگئیں، آٹھ سال کی عمر میں دادا کا سایہ اٹھ گیا۔ لڑکپن میں آپ نے مکہ والوں کی بھیڑ بکریاں چرائیں۔ نبوت کا زمانہ تو نہایت مشقت و ابتلا کا دور تھا۔
حضرت ابراہیمؑ کو بھی بار بار آزمایا گیا (البقرہ:124) آگ میں ڈالا گیا، وطن سے نکالا گیا، بیوی اور بچے کو جنگل میں چھوڑنے کا حکم اور اپنے پیارے بیٹے کو ذبح کرنے کا اشارہ ملا۔ (سورہ الصّٰفّٰت)
حضرت یعقوبؑ کا بیٹا گم ہو جاتا ہے اور غم میں ان کی بینائی تک جاتی رہی (یوسف) حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں40 دن تک رہتے ہیں۔(الانبیاء) حضرت یوسفؑ کنوئیں میں ڈالے گئے اور پھر بیچ دیئے جاتے ہیں اور بعد میں تقریباً نو سال تک جیل میں رہتے ہیں۔ (سورہ یوسف)
غرض یہ امتحان رب کائنات کا مستقل دستور ہے اور اس میں سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ کو حکومت عطا کی گئی اور وہ اس میں اپنے رب کے شکر گزار بن کے رہے۔ قوم سبا اور دوسری قوموں کو نعمتوں سے آزمایا تو وہ کفرانِ نعمت کر کے ہلاک و برباد ہوگئیں۔
مصیبت آئے تو …..
ایک مسلمان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ نعمت پر شکر کرے اور مصیبت پر صبر ۔ نبی نے فرمایا:’’ مومنین کے مزے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے جو فیصلہ کرتا ہے اس میں خیر ہی ہوتی ہے۔ اگر مصیبت آئے اور صبر کر لیں تو انہیں ثواب ملتا ہے ۔ اگر خوشی ملے اور شکر کر لیں تو بھی ان کے لیے خیر ہی ہوتی ہے، ایسا صرف مومنین کے لیے ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
مومن جہاں نعمت پا کر آپے سے باہر نہیں ہوتا اور شکر کرتا ہے وہیں وہ مصیبت کو بھی حوصلے سے برداشت کرتا اور اپنے رب سے مدد مانگتا ہے۔ في الحقيقت عقيدۂ تقدیر، غم کو غلط کرنے والا ہے کہ دکھ آیا یا ہلاکت و بر بادی ہوئی مگر زبان پر ہے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
ان الفاظ میں جادو ہے۔ یہ انسان کو تسلی دیتے ہیں کہ دنیا فانی ہے، ہم سب کو یہاں سے جانا ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ تمام نقصانات کی تلافی فرمادیں گے اور اجرِ عظیم عطا فرمائیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہومگر اللہ نے اسی میں بھلائی رکھ دی ہو’’ النساء‘‘ جیسے حضرت یوسفؑ کا کنوئیں میں جانا، مصر جانے کا سبب بنا اور وہاں کے بازار میں بکنا عزیز مصر کے گھر پہنچنے کا باعث بنا اور وہاں سے جیل جانا مصر کی حکومت ملنے کا وسیلہ ثابت ہوا۔
یہ صرف ایک مثال نہیں بلکہ ہر آدمی کی زندگی میں کئی ایسے لمحات آتے ہیں جنہیں وہ شر سمجھتا ہے لیکن بعد میں وہی خیر ثابت ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے جیسے موسیٰؑ اور خضر کا واقعہ ( سورۃ کہف) دوباتوں کی حکمت تو آسانی سے سمجھ آتی ہے۔ کشتی کا تختہ نکالنے سے ملاح بادشاہ کی بیگار سے بچ گئے اور جب نیک آدمی نے یتیم بچوں کی دیوار بنائی تو ان کا خزانہ محفوظ ہو گیا لیکن معصوم بچے کے مارنے کی علت عقل سے ماوراء ہے کہ یہ بڑا ہو کر شر بنے گا۔
ہم مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فیصلے پر راضی رہیں۔ یہ تکوینی امور ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار کیا جاتا ہے اور کوئی تندرست، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے، کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود مصائب میں خیر کے بے شمار پہلو ہوتے ہیں۔ ایک مسلمان کو ہمیشہ ان پر نظر رکھنی چاہیے ۔ یوں وہ اپنے قلب و ذہن کو پریشانی اور مایوسی سے پاک رکھ سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ شر میں بھی خیر تلاش کرے تا کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے زیادہ حو صلے سے کام لے اور ماضی کی پریشانیاں بھلا کر آج کو زیادہ کارآمد بنا سکے۔
یا در کیسے مصیبت اپنے اندر محض پریشانی ہی نہیں خیر اور بہتری کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ خیر کے چند پہلو یہ ہیں:
توبه و رجوع الى الله
مصیبت نہ آئے تو انسان فرعون بن جائے۔دیکھیے کہ فرعون ایک غوطہ کھاتے ہی مسلم بن گیا۔ (یونس)
وہ تو مہلت ختم کر بیٹھا تھا لیکن عام آدمی کے پاس وقت ہوتا ہے، وہ مشکلات و مصائب کے بعد اللہ کی طرف رجوع کر سکتا ہے اور توبہ بھی ۔ مصیبت سے دل نرم ہوتا ہے، اسباب سے نظر اٹھتی ہے اور مسبب الاسباب کے حضور ہاتھ اٹھ جاتے ہیں۔ (الانعام)
یوں اپنے رب سے دوبارہ رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ اگر مصیبت کا اور کوئی فائدہ نہ ہو تو یہی فائدہ بڑا نفع آور ہے۔
گناہوں کا کفارہ
مصائب مومن کی غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ہے:’’مسلمانوں کو جو رنج، دکھ، فکر، تکلیف اور پریشانی پیش آتی ہے، حتی کہ ایک کانٹا بھی اگر اسے چبھتا ہے، تو اللہ اسے اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ ( بخاری، مسلم)
امتحان
مصائب و ابتلا سے آدمی کو پر کھا جاتا ہے کہ وہ کھرا ہے یا کھوٹا، سچا ہے یا جھوٹا، وفادار ہے یا بے وفا، مطیع ہے یا نافرمان؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھر تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، یہاں تک کہ وہ جھنجھوڑے گئے کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مد د کب آئے گی؟ اس وقت ان کو تسلی دی تھی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ (البقرہ:214)
تربيت
انسان کو تربیت کے لیے مصائب کی بھٹی سے گزرنا چاہیے ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطرہ، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائشیں کریں گے۔ ان حالات میں جو صبر کریں گے اور کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم نے پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری دے رو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔‘‘ (البقرہ:155-157)
انسان کو خوف و خطرہ میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ طالب صادق کے عزم صمیم کا امتحان لیتے ہیں۔ یہ آزمائشیں اس لیے ضروری ہیں کہ اہل ایمان اسلامی نظریۂ حیات کی ذمے داری اچھی طرح پوری کرنے کے قابل ہو سکیں اور اسلامی نظریۂ حیات کی راہ میں جتنا زیادہ مصائب سے دوچار ہوں، اسی قدر یہ نظریہ حیات انہیں عزیز ہوتا جائے گا۔
ترقیٔ درجات
اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مومن جو مصائب برداشت کرتا ہے وہ محض اس کی کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ ابراہیم نے عرض کیا اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے ۔‘‘ ( البقرہ:124)
گناہ کی سزا
جرائم اور گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی، لیکن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو اسی دنیا میں اس کا کچھ مزہ چکھاتے ہیں ’’اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے، اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے، وہ تیرے اپنے کسب وعمل کی بدولت ہے۔‘‘ (النساء 79، الزمر51، الشوریٰ 30)
تنبیهات و سرزنش
’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزہ انہیں چکھاتے رہیں گئے شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائیں۔‘‘ (السجدۃ:21)
عذاب اکبر سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں عذاب ادنیٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ تکالیف ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں مثلاً سخت بیماریاں، عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ نیز اجتماعی زندگی میں طوفان، زلز لے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں لاکھوں انسانوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ان آفات کے نزول کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجا ئیں اور اس طرزِ فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر انہیں بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔
( تفہیم القرآن ج ۴، ص ۴۷)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگ آسمانی تنبیہات کی غلط تاویلات کر کے ان کا سبق ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:’’ جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انہوں نے نہ پہلے بھی ان واقعات سے سبق لیا ہے، نہ آیندہ بھی لیں گے۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی ہی نہیں سمجھتے، اس لیے ان کی ہر وہ تاویل کرتے ہیں جو انہیں حقیقت سے دور لے جائے ۔ ان کا ذہن کسی ایسی تاویل کی طرف کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہو جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن ،ج ۵ ص ۱۸۴)
یہی بات حضور اکرمؐ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمائی: ’’منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ جیسی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا اور جب کھول دیا تو کچھ نہ سمجھا کہ کیوں کھول دیا۔‘‘ (ابوداؤد)
(اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں