ایک مشہور مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ اسلامی فکر کے حامل شاعر اور ادیب تھے۔ سیماب اکبر آبادی کے شاگرد ہونے پر فخر کرتے تھے۔ بحیثیت شاعر ۱۹۴۷ء سے قبل ہی مشہور ہوچکے تھے، چنانچہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ایک مشاعرے میں اسی زمانے میں صدارت کے فرائض انجام دیے۔ تقسیم کے فوراً بعد نعیمؔ صدیقی مرحوم نے ان کو پاکستان منتقل ہونے کی دعوت دی تھی، جو مسترد کردی گئی۔ ۱۹۶۲ء میں ماہنامہ سیارہ میں نعیم صدیقی نے ان کی طویل نعت محمد ﷺ چار صفحات پر شاندار طریقے سے شائع کی تھی۔
زاہدؔ صاحب کے کلام میں شوکت الفاظ کے ساتھ ساتھ بلا کی روانی تھی، ان کو فن عروض پر ملکہ حاصل تھا۔ تقسیم ہند کے معاً بعد کے معروف شعراء سے ان کا گہرا رابطہ تھا۔ چنانچہ جگر مرادآبادی مرحوم بھی ان کے گھر تشریف لائے تھے۔
مرحوم نے ماہنامہ نئی نسلیں لکھنؤ کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ زاہدؔ صاحب کا دماغ پرانی تاریخی یادوں کا خزینہ تھا۔ مجازؔ کے انتقال کے واقعہ کو بڑے درد انگیز انداز میں بیان کرتے تھے ۔ مرحوم کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں وہ پیش پیش رہے۔ انھوں نے فرمایا کہ مجازؔ کی والدہ ایک دیندار خاتون تھیں۔ انھوں نے بیٹے کے انتقال کے وقت فرمایا: افسوس میرا بیٹا گمراہ تھا، شراب میں دھت رہتا تھا اس کو ہمارے آبائی قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔ چنانچہ مجازؔ کو ایک دوسرے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
زاہدؔ صاحب برجستہ شعر کہہ لیتے تھے۔ دہلی میں ایک مرتبہ پاکستان کے مشہور شاعر اعجازؔ رحمانی تشریف لائے۔ انھوں نے اپنی دلکش و پرسوز آواز میں اپنی نعت پڑھی جس کے چند اشعار پیش ہیں:
ہر طرف تیرگی تھی نہ تھی روشنی
آپؐ آئے تو سب کو ملی روشنی
اسوہ مصطفی کی یہ تفسیر ہے
روشنی روشنی روشنی روشنی
اعجازؔ رحمانی
میں نے زاہدؔ صاحب سے درخواست کی کہ اس بحر میں وہ بھی ایک نعت لکھ دیں۔موصوف نے دوسرے دن اپنی مشہور نعت سنائی:
جب حرا سے ہویدا ہوئی روشنی
چیخ اٹھی تیرگی روشنی روشنی
آفتاب جہاں تابِ پیغمبری
آپ کی روشنی دائمی روشنی
تیرے صدیق فاروق عثمان علی
روشنی روشنی روشنی روشنی
زیست بھی روشنی موت بھی روشنی
ابوالمجاہد زاہدؔ