اس بات پر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی کہ سرکار نے مختلف شعبوں کی نوکریوں میں مسلمانوں کا تناسب معلوم کیا ہے۔ خاص طور پر جب دفاعی محکمہ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ فوج کے تینوں شعبوں میں کتنے مسلمان ہیں، تب تو ایسا لگا کہ اگر اس سوال کا جواب دے دیا گیاتو ہندوستان کی حفاظت پوری طرح سے خطرے میں پڑ جائے گی اور ہندوستانی فوج جو مذہبی بنیاد پر تعصب سے کام نہیں لیتی وہ فرقہ پرست ہوجائے گی۔ اور یقینی طور پر ہندوستان کے دشمنوں کی تمام سازشیں کامیابی کی طرف تیزی سے بڑھنے لگیں گی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ کسی طرح کی عقلمندی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ان کو تو اس طرح کی باتیں اچھا ل کر وہی انتہا پسندی ظاہر کرنی ہے جس سے بچنے کی بات وہ سینہ ٹھوک کرکرتے ہیں۔
دراصل ایسے سوال اس لیے پوچھے جارہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے پچھڑے پن کے اسباب کا تجزیہ کرکے اس کو دور کرنے کا طریقہ تجویز کرے گی۔ اس کام کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس بات کی پوری معلومات حاصل کی جائے کہ حکومتی اور غیر حکومتی نوکریوں، مختلف تعلیمی اور دوسرے اداروں میں مسلمانوں کی شمولیت کی حالت کیا ہے۔
اکھل بھارتی جنوادی مہلا سمیتی، پچھلے کئی سالوں سے ملک کے الگ الگ صوبوں میں اور شہروں میں مسلمان خواتین کے سیمینار منعقد کررہی ہے۔ ان سیمیناروں کے ذریعہ سے نہ صرف خواتین کو اس تنظیم کے نزدیک لانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ ان کو اپنے خاص مسائل کے بارے میں بولنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔ تنظیم کے دوسرے تمام افراد کو بھی ان کے مسائل کی واقفیت دی جاتی ہے تاکہ ان کے ارد گرد جدوجہد اور آندولن کو منظم کیا جاسکے۔ ان سیمیناروں کی تیاری کے دوران ہمارے کارکنان نے ایک مشاہداتی سروے بھی شروع کیا ہے۔ اس سے ہمیں بے شمار معلومات تو حاصل ہوتی ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ کچھ غلط فہمیاں بھی دور ہوجاتی ہیں۔
آزادی کے پہلے مدھیہ پردیش کا دارالحکومت بھوپال ایک ایسا صوبہ تھا جس کے حاکم مسلمان تھے اور غور کرنے والی بات تو یہ ہے کہ حکومت کرنے والے آخری تین حکمران نواب ’’خواتین‘‘ تھیں۔ اور وہ اس لیے حکمران نہیں بنیں کہ وہ کسی نواب کی بیوہ تھیں یا کسی نابالغ نواب کی والدہ تھیں بلکہ اپنے اس حق وراثت کی وجہ سے حکمران بنیں جو اسلام انہیں دیتا ہے۔ لیکن یہ باتیں تو اب تاریخ بن کر رہ گئی ہیں۔ آج کے بھوپال میں سب سے غریب اور بے توجہی کے شکار علاقوں میں مسلمان رہتے ہیں۔ بھوپال میں ہوئے جنوادی مہیلا سمیتی کے صوبائی سطح کے سیمینار سے پہلے ۶۰۰ خواتین کا جائزہ لیا گیا تھا ان جائزوں کے نتیجوں سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ یہاں کی عورتیں کتنی غریب ہیں۔ آدھی عورتیں گھر کے کام کے علاوہ کسی طرح کا کام نہیں کرتیں۔ حالاںکہ ان میں سے بڑی تعداد ایسی ضرور ہے جو کام کرنا چاہتی ہے۔ جو کام کرتی ہیں ان میں سے صرف ۱۸ ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ نوکری تو کرتی ہیں لیکن وہ بھی گھریلو کام کاج تک ہی محدود ہیں۔ جنھیں مہینے میں صرف پانچ سو روپے کی تنخواہ ملتی ہے اور وہ بھی وقت پر نہیں۔ بقیہ خواتین، زردوزی، بیڑی بنانے، یا بیگوں اور کپڑوں پر موتی سلنے کا کام کرتی ہیں اور ان کو ملنے والی تنخواہ کچھ اس طرح ہے: ۱۰ فیصد عورتوں کو ۱۰ روپے روز، ۳۳ فیصد کو ۲۰ روپے، ۱۴ فیصد کو ۳۰ روپے اور تین فیصد کو ۴۰ روپے ملتے ہیں اور یہ بھی تب جب وہ روز ۴ سے ۱۰ گھنٹے تک کام کرتی ہیں۔
جہاں تک تعلیم کی حالت ہے۔ ان ۶۰۰ خواتین میں سے ۳۶ فیصد پوری طرح سے ان پڑھ ہیں۔ ۸ فیصد اپنا نام لکھنا جانتی ہیں۔ کل خواتین میں تقریباً ۱۲۰ ایسی ہیں جو پانچویں پاس ہیں، اور ۸۴ جو آٹھویں پاس ہیں، بارہویں پاس ۷ فیصد اور گریجویٹ ۴ فیصد ہیں۔ لیکن یہی خواتین اپنی لڑکیوں کو پڑھانے میں اپنی پوری طاقت لگا رہی ہیں۔ ان کی بیٹیوں میں سے ۴۹ فیصد اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور ۲۶ فیصد مدرسوں میں پڑھ رہی ہیں۔ کئی عورتوں نے اس بات کی شکایت کی کہ ان کے علاقے میں آس پاس کوئی ایسا اسکول اور مدرسہ نہیں ہے جہاں وہ اپنی بیٹیوں کو پڑھنے کے لیے بھیج سکیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ غریبی کی وجہ سے وہ اپنی لڑکیوں کو نہیں پڑھا پار ہی ہیں۔
ان عورتوں سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ ان کے کتنے بچے ہیں۔ یہ سوال اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ مسلمانوں پر سنگھ پریوار اور ان کے مریدوں کا یہ الزام ہے کہ مسلمان دوسری قوم کے لوگوں کے مقابلے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں اپنی باتوں کو وہ اس لہجے میں پیش کرتے ہیں کہ مسلمان زیادہ بچے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کرتے ہیں۔ لیکن مدھیہ پردیش میں اس تنظیم کے ذریعے کیے گئے ایک تجزیے سے بالکل الگ نتیجے سامنے آئے ہیں۔ ۶۰۰ خواتین میں سے ۸۵ ایسی تھیں جنھیں ایک بچہ اور ۸۰ ایسی جن کے دو بچے تھے۔ ۶۰ ایسی تھیں جن کے ۴ بچے تھے اور ۶۶ عورتیں ایسی ہیں جن کے ۵ بچے تھے اور پانچ سے زیادہ بچوں کی ماؤں کی تعداد ۴۴ تھی۔ لیکن وہ بھی کیوں؟ اس کا جواب پانے کے لیے ہمیں کچھ دوسرے سوالوں کے دئے گئے جوابوں کا سہارا لینا ہوگا۔ سروے کا یہ سوال کہ’’ آپ چھوٹا خاندان چاہتی ہیں‘‘ کے جواب میں ۸۶ فیصد عورتوں نے کہا ’’ہاں‘‘ جو اپنی مرضی کے مطابق چھوٹے پریوار کی اپنی خواہش کو پورا نہیں کرپاتی ہیں۔ ان میں سے جہاں کچھ نے اس کے لیے اپنے شوہروں یا اپنے پریوار کے دوسرے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں اوروں نے کہا کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا فائدہ نہیں اٹھا پارہی ہیں۔ کیونکہ ان کے آس پاس کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہے۔ جس سے وہ اس کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرسکیں۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگ سکتی ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ہوگا کہ ایک سوال کے جواب میں ۹۳ فیصد عورتوں نے کہا کہ علاج کے لیے وہ غریبی کی وجہ سے صرف سرکاری دوا خانوں تک جانے کی حیثیت رکھتی ہیں اور جب وہ وہاں جاتی ہیں تو اکثر دوائیاں نہیں ملتی ہیں۔ یا ڈاکٹر نہیں ملتے ہیں۔ ایسی حالت میںیہ ممکن ہے کہ لیڈی ڈاکٹر بھی ان میں سے اکثر کو نہیں ملی ہوں گی جن کو ان سے ملنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
سیمینار کے دوران کئی عورتوں نے کافی بے باکی سے اپنی باتیں رکھیں۔ خواتین اس بات پر بہت خفا تھیں کہ اسلام میں جو کچھ خواتین کے حق میں ہے اس کو نافذ کروانے کی بات مولانا نہیں کرتے۔ طلاق و جہیز کے مسئلے پر بولنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ غریبی اور جہیز کی مانگ لڑکیوں کی زندگی تباہ کررہی ہیں۔ اور کوئی مولانا اس پر احتجاج نہیں کرتا۔ کئی خواتین کو اس بات پر بہت تکلیف تھی کہ دنیا بھر کے مولانا سالوں تک نشستیں کرکے بھی آدرش نکاح نامہ تیار نہیں کرپائے۔ اس پر کچھ عورتوں نے کہا جب یہ لوگ کسی مسئلہ پر متفق ہی نہیں تو پھر یہ اسلام کے ٹھیکے دار اور فتوے دینے والے کہاں سے بن گئے۔ کچھ عورتوں نے تو یہاں تک کہا کہ ہم آدرش نکاح نامہ خود تیار کرلیں گی، ان مولاناؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر عورت یہ مانتی تھی کہ اس کی زندگی کے بچھڑے پن کے لیے غریبی اور تعلیم سے ناآشنہ ہونا ہی ذمہ دار ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتاکہ افسر آپا، رشیدہ بی، شبنم، شکیلہ بانو،ہاجرہ، صفیہ، اختر، ممتاز بیگم، گلشن جہاں اور ان کے جیسی بے شمار عورتیں جو صبح سے شام تک مسئلوں سے دوچار رہتی اور ان سے جوجھتی ہیں، بہادری اور زندہ دلی سے روشنی کی چھوٹی چھوٹی کرن کی سمت میں چل پڑنے کے لیے تیار ہوں۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کی بھی رائے کبھی پوچھی جائے۔ اپنی بات کرنے کا موقع بھی دیا جائے۔ شاید یہ تبھی ممکن ہوگا جب یہ ایک اتنی بڑی طاقت کا حصہ بن جائیں گی کہ ان کی بات کو ان سنی کرنا ناممکن ہوگا۔(ہندوستان ہندی سے ترجمہ)