اترپردیش میں اس وقت مسلم نوجوانوں کے لیے غیر معلنہ ایمرجنسی جیسی صورتِ حال ہے۔ ایس ٹی ایف (اسپیشل ٹاسک فورس) اور اے ٹی ایس (اینٹی ٹیرارزم اسکوائڈس) نے پوری ریاست کے مسلم نوجوانوں میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے مختلف دہشت گردانہ حملوں سے ان کا تعلق بتاکر انہیں جیل کے اندر بند کردینے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس سے نہ صرف ریاست کے مسلمانوں میں بلکہ تمام انصاف پسند لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ مگر حیرت ہے کہ پڑے پیمانے پر مسلم نوجوانوں کی ان ناجائز گرفتاریوں پر ملکی میڈیا میں کوئی مخالف ردعمل سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اگر کوئی نوجوان گرفتار کیا جاتا ہے تو مختلف نام نہاد دہشت گرد تنظیموں سے اس کے تعلق اور مختلف واقعات میں اس کے ملوث ہونے کے ساتھ خبر شائع ہوجاتی ہے۔ ان کی برأت اور بے گناہی پر کوئی بولنے کے لیے تیار نہیں خواہ انہیں عدالت سے باعزت بری کیوں نہ کردیا جائے۔
۲۶؍ اپریل ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں ہفت روزہ تہلکہ نے اس موضوع پر ایک چشم کشا رپورٹ When Lawyers Turn Judges کے نام سے شائع کی ہے جس میںان تمام واقعات و عوامل کا احاطہ کرتے ہوئے پولیس اور اس طبقے کے تعصب کو بے نقاب کیا ہے جو انصاف کے لیے جنگ کرتے ہیں اور مظلوم کو انصاف دلانے کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ اس طبقہ کو لوگ وکیل کے نام سے جانتے ہیں اور ان کی تنظیم کو بار ایسوسی ایشن کہا جاتا ہے۔
اسے ملک کے لیے سانحہ ہی کہا جائے گا کہ یہاں ایک طرف تو ایک خاص طبقہ کو دہشت گردی سے جوڑ کر پیش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں دوسری طرف وکلاء کا یہ طبقہ جس کی پیشہ وارانہ اور اخلاقی، ہر طرح کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بلا تفریق و تعصب انصاف کے حصول کی جدوجہد میں مدد کرے خود منصف بن بیٹھے ہیں۔ اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے بجائے پہلے ہی انہیں مجرم گردان چکے ہیں۔ اس کی مثال ضلعی بار ایسوسی ایشنز کے وہ رزولیوشنز ہیں جو انھوں نے مشتبہ دہشت گردوں کے کیس کی پیروی نہ کرنے کے لیے پاس کیے ہیں۔
۲۰۰۵ء میں بابری مسجد کی جگہ بنے عارضی مندر پر حملے کے بعد فیض آباد ضلع کی بار ایسوسی ایشن نے یہ قرار داد منظور کی کہ ضلع کے وکلاء دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ملزمین کی پیروی نہیں کریں گے۔اس کی اتباع کرتے ہوئے بنارس کی بار ایسوسی ایشن نے بھی اسی طرح کی قرار داد پاس کی جبکہ ۲۰۰۶ء کے سنکٹ موچن مندر اور ریلوے اسٹیشن بم بلاسٹ کے ملزم ولی اللہ کا ٹرائل شروع ہونے والا تھا اور پھر لکھنؤ و فیض آباد کی بار ایسوسی ایشنز نے بھی ایسا ہی کیا جب ۲۲؍نومبر ۲۰۰۷ء کو لکھنؤ، فیض آباد اور بنارس کی عدالتوں میں سیریل بم دھماکے ہوئے۔ ان بم دھماکوں سے چند روز پہلے لکھنؤ کی عدالت کے وکلا نے تو راہل گاندھی کے قتل کی سازش کے نام پر گرفتار کیے گئے کچھ لوگوں کو بھری عدالت میں پیٹا بھی جو حیرت انگیز اور افسوسناک حرکت تھی۔
جو وکلاء اس طرح کے کیس کی پیروی کرتے ہیں انہیں بھی اچھوت بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات دھمکیاں بھی ملتی ہیں۔ اور یہ سوچ نیچے تک کے افسران میں سرایت کرچکی ہے جس کا اندازہ جیل کے افسران تک کے ملزم کے ساتھ عدم تعاون کے رویہ سے ہوتا ہے۔ جیل کے افسران اور عدالت کے کارکنان کیس کی کاپیاں تک وکیل کو دینے میں آنا کانی کرتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے بھی خاموش سپورٹ بار ایسوسی ایشنز کو دے رکھی ہے۔
شعیب جو اس طرح کے کئی معاملوں میں ملزمین کی پیروی کرنے والے تنہا وکیل ہیں انھیں بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جب وہ اپنے موکل کی درخواست ضمانت کے لیے بارہ بنکی گئے تو وہاں کی بار ایسوسی ایشن کے سکریٹری پردیپ سنگھ نے واضح الفاظ میں ان سے کہا کہ اگر وہ اپنی درخواست واپس نہیں لیتے تو ان کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اور نتیجہ انہیں اپنی درخواست واپس لینی پڑی۔ دوسری طرف بار ایسوسی ایشن اپنے اس غیر منصفانہ طرزِ عمل کو حب الوطنی اور انصاف پسندی قرار دیتی ہیں۔ فیض آباد بار ایسوسی ایشن کے سکریٹری سبھا جیت پانڈے کہتے ہیں: ’’وکلاء کا یہ اپنا موقف ہے جو اس رزولیوشن کی شکل میں سامنے آیاہے۔ اور وطن سے محبت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اور آئندہ بھی اسی طرح جاری رہے گا۔‘‘
بہرحال ملک کی سب سے بڑی ریاست میں یہ ایک افسوسناک صورتِ حال ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعصب اور فرقہ پرستی کی جڑیں کتنی گہرائی تک پہنچ گئی ہیں اور یہ کہ حکومتی سطح پر ہونے والی نا انصافیوں اور مظالم کے خلاف انصاف کے حصول کی امیدیں کتنی کم اور موہوم نظر آتی ہیں۔ اور ایس ٹی ایف اور اے ٹی ایس کا یہ رویہ مایا وتی کے دورِ حکومت میں جاری ہے جو مسلمانوں کی مسیحائی کی دعویدار بھی ہیں اور مسلمانوں کے ووٹ سپورٹ سے اقتدار تک پہنچی ہیں۔ حکومت و سیاست تو دہشت گردی کے اشو پر تقریباً متحد ہیں اور کسی نہ کسی حد تک مسلمانوں کے سلسلے میں تعصب کا شکار بھی البتہ عدالتی نظام کو بہرحال اس سے محفوظ رکھنے کی کوشش ہونی چاہیے تھی مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔
’’کوئی بھی شخص مجرم نہیں جب تک وہ مجرم ثابت نہ کردیا جائے۔‘‘ بہ الفاظ دیگر ہر ملزم بے گناہ ہے جب تک اس کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔ مگر یہاں کا عدالتی نظام وکلاء جس کا اولین حصہ ہیں انصاف کے اس بنیادی اصول کی دھجیاں اڑاتے ہیں محض شبہ کی بنیاد پر ہی ملزم کو ٹرائل سے پہلے ہی مجرم گردانتے ہیں اور اپنے رویہ سے اس کے لیے انصاف کے دروازے بند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک طرف تو اے ٹی ایس اور ایس ٹی ایف کا یہ عمل کہ وہ معصوم و بے گناہ مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات لگا کر قید میں ڈال رہی ہے دوسری طرف حکومت جس کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت اور ان کے جان و مال کا تحفظ ہے وہ اس پر تجاہل عارفانہ و چشم پوشی سے کام لے رہی ہے اور سب سے بڑا حادثہ یہ ہے کہ وہ گروہ جو عدل و انصاف کے حصول میں معاون ہوتا ہے یا کہیے کہ انصاف کا محافظ ہے، خود ہی اس کا قاتل بنا ہوا ہے۔ انصاف کے اس فطری عمل کو معطل کرنے کی کوشش کو کسی بھی طرح حب الوطنی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حق کے لیے جنگ اور انصاف کا قیام بھی حب الوطنی کے بنیادی تقاضے ہیں جنھیں پامال کیا جارہا ہے۔
یہ صورت حال مسلم لیڈران، مسلم تنظیموں اور ملک کے تمام انصاف پسند طبقات کے لیے قابلِ تشویش ہے۔ اور ضرورت ہے کہ پورا ملک اس کا متحدہ نوٹس لے اور بار ایسوسی ایشنز کے اس طرح کے غیر منصفانہ طرزِ عمل کے خلاف قانون کا راستہ لیتے ہوئے اسے عدالت عالیہ میں چیلنج کرے۔ یہ کام بہتر طور پر وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خود اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ اگر وہ اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ کر اس کے خلاف لڑائی لڑیں گے تو یہ عین انصاف کے قیام کے لیے عظیم جدوجہد ہوگی جسے موجودہ حالات کے تناظر میں قانونی جہاد تصور کیا جائے گا۔