اتنا بڑا جھوٹ

شرون کمار ورما

کھنہ صاحب برآمدے میں آگئے۔ صبح اپنا اجلا آنچل لہرا چکی تھی۔ تپائی پر تازہ اخبار رکھا تھا۔ ایک سرخی بڑی دلدوز تھی۔ ایک کسان نے قرضہ ادا نہ کرنے کے باعث اپنے تین بچوں اور بیوی کو قتل کر کے خود کشی کر لی تھی۔ کھنہ صاحب کو منہ میں کڑواہٹ کا احساس ہوا۔ اچانک انہیں لگا کہ چوکیدار کی کوٹھڑی کے پچھواڑے پڑی گٹھڑی نے حرکت کی ہے۔ گٹھڑی… حرکت… حیرت سے دیکھتے ہوئے انہوں نے چوکیدار کو آواز دی اور اس گٹھڑی کے بارے میں پوچھا۔
چوکیدار نے بتایا کہ رات کے پچھلے پہر اس نے ایک چور پکڑا تھا جو دیوار پھاند کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وہی گٹھڑی میں بندھا پڑا ہے۔ کھنہ صاحب نے چور کو سامنے لانے کا کہا اور بے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ وہ اس گھر میں کئی برس سے مقیم تھے اور ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ مضبوط دروازہ جس کے نزدیک چوکیدار کی کوٹھڑی اور دو خطرناک کتے تھے۔ چور کی شامت نہ آئی تھی جو وہ اندر آ کر پکڑا گیا، اس کا سامنا دونوں کتوں سے ہو جاتا تو وہ اسے پھاڑ کھاتے۔
چوکیدار ایک منحنی، بیمار اور مریل آدمی کو تقریباً دھکیلتا ہوا لے آیا۔ میلے کپڑے، بڑھی ہوئی داڑھی اور میلی آنکھیں۔ وہ بے حد ڈرا ہوا تھا۔ ڈھنگ سے کھڑا بھی نہیں ہو پارہا تھا۔ بار بار ہاتھ جوڑ کر گڑ گڑاتے ہوئے کھنہ صاحب سے معافی مانگنے لگا۔ وہ ایک ہی بات دہرائے جا رہا تھا:’’ صاحب جی! میں چور نہیں ہوں۔‘‘
کھنہ صاحب اپنی تجربہ کار نظروں سے اس کے اندر کا سچ سمجھنے کی خاموش کوشش کرنے لگے۔ تاہم وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ اگر وہ چور نہیں تھا تو کس نیت سے اندر آیا تھا اور پھر دیوار پھاندتے ہوئے کیسے پکڑا گیا؟ لیکن وہ اندر آیا ہی کیوں اور کیسے؟ اگر دونوں کتے …وہ اس شخص کو بھول گئے، چوکیدار کی طرف دیکھا اور سوچا ’’ہولی کے چکر میں کام چور نے زیادہ پی لی ہوگی! ایک دو بار پہلے بھی وہ مرکزی دروازے کا تالا لگانا بھول گیا تھا۔‘‘ انہیں اب اس شخص سے زیادہ چوکیدار پر غصہ آنے لگا، بولے:’’ تم پھر تالا لگانا بھول گئے۔ زیادہ پی گئے ہو گے۔ اور ہاں! اور وہ دونوں کتے انہوں نے اسے کیسے چھوڑ دیا بھونکے تک نہیں ۔‘‘
چوکیدار اپنی چوری پکڑے جانے پر ڈر گیا۔ پچھلی شام چھوٹے مالک نے ہولی کا تہوار آنے پر اسے رقم دی تھی تاکہ بچوں کے لیے کچھ خرید سکے لیکن وہ کم بخت ٹھرا پی گیا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ رات جب پانی پینے اٹھا، تو اسے باہر کچھ آوازیں سنائی دیں ۔ باہر نکلا تو ایک آدمی نظر آیا جو گھر کی دیوار پھلانگ رہاتھا۔ اس نے چور کو لنگوٹیسے پکڑ لیا۔ آدمی نے نکل بھاگنے کی زیادہ کوشش نہیں کی، شاید اس میں اتنی طاقت ہی نہیں تھی، بہت جلد ہتھیار ڈال دیے۔ بس عورتوں کی طرح روکر چھوڑنے کی التجا کرنے لگا لیکن چوکیدار کو یقین تھا کہ یہ شاندار کارنامہ دکھانے پر کم از کم چھوٹے مالک اسے ضرور انعام دیں گے۔ اس نے بڑی آسانی سے آدمی کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے پھر اندر سے پرانی چادر لا کر اسے کس کر باندھا اور قریب ہی ڈال دیا۔
’’بولتا نہیں، رات کو ٹائیگر اور ہیرو کہاں تھے؟ انہیں بھی پلا دی ہوگی۔‘‘
چوکیدار ہاتھ جوڑ کر سنجیدگی سے بولا:’’ارے نہیں مالک، ٹائیگر کو تو بخار ہے، چھوٹے مالک نے کہا تھا کہ اسے کھولنا نہیں۔ ہیرو اس کے بغیر رکتا ہی نہیں۔‘‘
اچانک چور کھنہ صاحب کے قدموں میں ڈھیر ہو گیا، تو وہ کہنے لگے : ’’پتا نہیں کون ہے؟ اندر کب اور کیسے آگیا؟ دونوں کتے با ہر ہوتے تو یہ مارا گیا تھا۔‘‘ گھر کے دروازے پر یہ تختی لگی تھی:’ اندر خونخوار کتے ہیں! خبردار ،ہندی، پنجابی، انگریزی تینوں زبانوں میں یہ جملہ لکھا تھا۔ ان کا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ آدمی چور نہیں، یہ شخص چوری کر ہی نہیں سکتا،اس میں اتنی سکت اور ہمت ہی نہیں۔ اور اس حالت میں …یہ تو… لیکن سچ مچ مر ہی نہ جائے۔
’’ارے سیدھے ہو کر بیٹھو۔‘‘
آدمی نے سیدھا ہونا چاہا لیکن یوں تیورا گیا جیسے یہ اس کے لیے بڑا مشکل مرحلہ ہے ۔ کھنہ صاحب نے چوکیدار سے کہا: ’’اندر جا کر بہادر سے کہو کہ اس آدمی کے لیے کچھ کھانے پینے کی اشیاء لائے۔‘‘ اس نے حیرانی سے مالک کی طرف دیکھا اور سوچا کہ کھنہ صاحب بھی عجیب آدمی ہیں۔ کبھی بالکل پتھر ہو جائیں گے اور کبھی موم کی طرح بہ نکلیں گے۔ اس چور کی اتنی آؤ بھگت! ویسے اس کا من بھی بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ آدمی چور نہیں ۔ اس کے پاس سے کوئی شئے نہیں ملی تھی ۔ اگر وہ چوری کرنے آیا تھا تو دیوار کیوں پھاند رہا تھا ؟ اندر سے دروازہ تو کھلا تھا۔ چوکیدار بھی الجھ کر رہ گیا۔ کھنہ صاحب نے ناگواری سے اسے دیکھا، تو وہ لچکتا ہوا چل پڑا۔
کچھ دیر بعد بہادر بڑے سے گلاس میں گرم چائے، رات کی بچی دو روٹیاں اور سالن لے آیا۔ آدمی نے ممنون نظروں سے کھنہ صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ بڑھتے ہوئے جھجک رہا تھا۔ لیکن بھوک اس کی آنکھوں کے راستے پورےچہرے پر پھیل گئی، پتا نہیں وہ کب سے بھوکا تھا۔
’’کھا لو۔‘‘ کھنہ صاحب نے ہمدردی سے کہا۔ ’’ضرورت ہو تو اور مانگ لینا، جھجکنا نہیں گھر کے لیے بھی لے جانا۔‘‘
آدمی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس نے پہلے اپنی قمیض کے گندے دامن سے آنکھوں کے کونے صاف کیے اور پھر منہ پھیر کر روٹی کھانے لگا۔ سیر ہو کر اس نے کھنہ صاحب کےپاؤں چھوئے اور بولا:’’ صاحب جی ! اب میں جاؤں ۔ میری گھر والی …ہوسکتا ہے اب تک مرگئی ہو۔‘‘
کھنہ صاحب اس کے آخری جملے پر چونک اٹھے۔ اب وہ اسے اور زیادہ گہری نظروں سے تکنے لگے۔ سوچا کہ کیا یہ آدمی سچ بول رہا ہے یاڈراما کر رہا ہے ؟ بولے: ’’گھر کے لیے بھی کچھ لے جاؤ۔‘‘
وہ اب اس قابل نہیں کہ کھایا پیا ہضم کر سکے۔ خونی سرطان کی مریضہ ہے، دھیرے دھیرے مر رہی ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہا۔ صاحب جی ! کیا کہا جا سکتا ہے؟ صبح شام آنکھیں موندیں پڑی رہتی ہے۔ کوئی گلہ شکوہ نہیں کرتی بلکہ بولتی ہی نہیں ۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا ہے کہ اب وہ کسی پل بھی … میں کام کی تلاش میں نکل جاتا ہوں۔ میں شاید اسے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ دھوکا دے رہا ہوں خود کو۔ صاحب جی! پر میں بھی کیا کروں؟‘‘ وہ رو پڑا ۔
جب دل کا غبار نکلا، تو پھر بولنے لگا:’’اس عورت نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ میں …ڈرتا ہوں… گھبراتا ہوں… یہ کیسی موت ہے، آپ کا پیارا پل پل گھل جائے اور انسان کچھ بھی نہ کر سکے… اس کے لیے جسے آپ چاہنے کا دعویٰ کرتے ہوں۔‘‘
’’مگر اسے یہ مرض کیسے لگا ؟‘‘
’’ مفلسی اوربھوک۔‘‘ وہ بولا:’’ میرا باپ ایک چھوٹا سا تاجر تھا۔ دو بیٹیاں بیاہ کر مقروض ہو گیا۔ بڑے بھائی کے دماغ میں ایک شاطر ایجنٹ نے یہ بات بٹھا دی کہ وہ اسے باہر بھیج کر ملازمت کا بندوبست کر دے گا۔ یوں گھر کے تمام قرضے اتر جائیں گے ۔ ایک ڈالر پچاس روپے کا ہوتا ہے۔ بھیا نے اس کی باتوں میں آکر گھر میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ مکان اور رہی سہی زمین بھی بک گئی۔ اب بھائی جعلی دستاویزات پر سفر کرنے کے جرم میں اسپین کی کسی جیل میں ہے۔ کچھ عرصے بعد میرا باپ ایک حادثے میں مر گیا۔ جب مجھ سے کام نہ چلا، تو میں تاجر سے مزدور بن گیا۔ بیوی کے ساتھ اپنے شہر سے یہاں چلا آیا اور ایک کارخانے میں ملازمت کرلی ۔‘‘
اس نے کارخانے کا نام اور کام کی تفصیل کے بارے میں بتایا تو کھنہ صاحب چونکے۔ وہ کارخانے کے مالکوں کو جانتے تھے، وہ مقابلے میں مار کھا گئے تھے۔ ان کا دیوالیہ نکل گیا تھا۔ ’’یہ آدمی چور تو بالکل نہیں۔‘‘ کھنہ صاحب نے من میں فیصلہ کر لیا۔ پھر سوچا ’’آدھی رات کو سڑکوں پر آوارہ گردی کے جرم میں پولیس اسے گرفتار کر سکتی تھی مگر انہیں فائدہ کیا ہوتا ؟ مفت کے اندراج، کیس اور گواہیاں۔ خود مجسٹریٹ کہتے ہیں کہ گرفتاریوں سے گریز کیا کرو۔‘‘
اسی وقت چھوٹا مالک، را جیش آگیا، وہ کتوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جار ہا تھا۔ دونوں کتے گاڑی کی پشت پر مزے سے لیٹے تھے۔
’’یہ ابھی تک یہیں ہے ؟‘‘ راجیش نے تمسخرانہ انداز میں کہا: ’’بابا ! اسے دے دلا کر وداع کیجیے۔ کیوں میاں! کیسا ’’فیل‘‘ (محسوس) کر رہے ہواب؟ قمیص، پتلون یا چاہے تو کچھ رقم مانگ لو۔ بابا آج…‘‘ وہ پھر چند لمحے خاموش رہ کر بولا:’’میں آپ کے شیروں کو لے جارہا ہوں ۔ ڈاکٹر سےوقت لے رکھا ہے۔‘‘
را جیش رخصت ہوا، تو آدمی نے کھنہ صاحب کے پاؤں چھوئے اور کہنے لگا: ’’صاحب جی! میں بھی جاؤں؟‘‘
لیکن کھنہ صاحب پر سکوت طاری رہا، نہ جانے وہ آدمی سے اور کیا جاننا چاہتے تھے۔ انہیں اب اس سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ وہ انہی کی کوٹھی میں کیوں آیا ؟ آگے پیچھے اور بھی کوٹھیاں ہیں۔ آخرانہوں نے پوچھ ہی لیا:
’’تم اندر کیسے آگئے اگر کتے کھلے ہوتے تو… کیا تمہیں معلوم تھا کہ دروازہ کھلا ہے؟‘‘
’’نہیں صاحب جی، میں دو دن سے کام کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں ۔ رات کو جان بوجھ کر دیر سے گھر جاتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ چارپائی پر زندہ لاش پڑی ہوگی، گھر جا کر کیا دیکھوں گا ؟ وہ کچھ کہتی ہے نہ آنکھیں کھولتی ہے ۔ میں نے اسے چند دن پہلے کہا تھا کہ تمہاری آنکھوں میں چھپی کوئی بات مجھے مجرم اور گناہ گار ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ یہ غریبی یا بیکاری، کیا میرا قصور ہے؟ تب اس نے آنکھیں موند لیں اور پھر میرے سامنے نہیں کھولیں۔‘‘
صاحب جی ! اب میری آتما پر ہمیشہ بوجھ رہے گا۔ میں نے کتنا بڑا پاپ (گناہ) کر دیا۔ اسے کتنی ٹھیس پہنچی ہوگی۔ ایک مرنے والے سے ایسی بات کہنا، تو بہ تو بہ ! اب میں اس کے سامنے خالی ہاتھ جاتے ہوئے ڈرتا ہوں، نہ کچھ کھانے کو، نہ دو میٹھے بول نہ ہمدردی۔ شاید میں آدمی نہیں رہا، سوچتا ہوں کہ اتنا گر گیا، اتنا کمینہ اور گھٹیا ہو گیا! دو چار دن سے سوچ رہا تھا کہ تبھی گھر جاؤں گا جب وہ مرچکی ہو۔ صاحب ! میں اسے اپنے سامنے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔
کھنہ صاحب اس کی باتیں سن کر سر تا پا لرز گئے۔ یہ تو وہ سمجھ گئے کہ آدمی چور نہیں، اب سوچنے لگے کہ وہ اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اتنا بڑا ادیس اور روٹی کا سنگین … مسئلہ کوئی حکومت و عدوں اور باتوں کے سوا غریبوں کو کچھ نہیں دے سکی اور مسئلہ الجھتا ہی چلا گیا۔ جو دیش اتنی ترقی کر رہا ہے وہاں ایسا غیر انسانی رویہ، ایسی سنگ دلی!
’’رات میں خود کو گھسیٹتا ہوا چلا جارہا تھا کہ مجھے غراتے ہوئے کتوں نے گھیر لیا۔ آٹھ دس بازاری کتے تھے۔ اندھیرے میں ان کی آنکھیں شعلوں کے مانند دہک رہی تھیں۔ وہ مجھے گھیرے میں لینا چاہتے تھے ۔ دائرہ سا بنا کرمیری طرف بڑھنے لگے ۔ شاید وہ بھوکے تھے۔ میں ڈر گیااور دیواروں کے سہارے آگے بڑھا ۔ سب دروازے بندتھے، آپ کی کوٹھی کے دروازے پر دباؤ ڈالا تو کھل گیا۔ میںبچاؤ کے لیے اندر آیا اور کنڈی لگا دی۔ کچھ دیر ایک کونے میںپڑا ر ہا۔ شدید بھوک لگی ہوئی تھی، شاید کمزوری کے باعث جھپکی آگئی ۔ جب آنکھ کھلی اور مجھے محسوس ہوا کہ میں کہاں ہوں، توڈر گیا۔ مگر میں کتوں کے ڈر سے دروازے کے ذریعے باہرنہیں جانا چاہتا تھا، اسی لیے دیوار پھاند نی چاہی۔ جسم میں جان ہی نہیں تھی لہٰذا گر گیا اور…‘‘
ادھر کھنہ صاحب اس کی باتیں سنتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ جس بستی میں اس آدمی کا گھر ہے، وہ تو ناجائز قرار دی جاچکی ہے۔ بلدیہ نے اسے دلی کے ایک بڑے تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ آج ہی دس ایکڑ زمین سے جھونپڑیاں ہٹا دی جائیں گی۔ اس آدمی کے وہاں پہنچنے سے پہلے دیو ہیکل مشینیں اپنا کام شروع کرچکی ہوں گی۔ یوں یہ سر چھپانے کے ٹھکانے سے بھی محروم ہو جائے گا۔ انہوں نے اس آدمی کو کچھ مالی امداد دینی چاہی تو اس نے دھیمے سے انکار کر دیا اور بولا: ’’صاحب جی ! کام مل جاتا تو…‘‘
کھنہ صاحب کو عجب بے چینی کا احساس ہوا۔ وہ جیسے شرمندگی محسوس کرنے لگے، بولے:’’اب تم جاؤ، میں دیکھوں گا کہ تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ مگر ان کے اندر کوئی کہہ رہا تھا کہ تم کچھ نہیں کر سکتے۔
اس آدمی کو اٹھنے اور چلنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ اٹھتے اٹھتے اچانک وہ گر پڑا۔ ابھی ابھی اس نے کہا تھا کہ وہ پہلے سے بہتر محسوس کر رہا ہے۔ کھنہ صاحب اس کے قریب گئے اور سہارا دے کر اٹھایا، تو لگا کسی لاش کو اٹھا رہے ہوں۔ چوکیدار نے اسے ایک طرف بٹھا دیا۔ کھنہ صاحب کھڑے رہے۔ چند منٹ بعد بولے:
’’کیسا لگ رہا ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہوں صاحب جی !‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی… تھکی تھکی، نڈھال سی مسکراہٹ۔
کھنہ صاحب کو غصہ آگیا، اب تک یہ آدمی سچ بول رہا تھا، اب ایک دم اتنا بڑاجھوٹ بول دیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146