میں بیچ سمندر میں کھڑا ہوں اور میرے ساتھ میرا سایہ ہے۔ میرا سایہ ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے اور طرح طرح سے اس نے مجھے بہلانے کی کوشش کی ہے، کبھی سمٹ کر چھوٹا ہو جاتا ہے، کبھی پھیل کر درواز قد بن جاتا ہے۔ اور جب میں اپنے پیروں کے نیچے سے نکل کر جانے والی مٹی کے تختے کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوں تو یہی سایہ میرے اندر مدغم ہوکر میری ڈھارس بندھاتا ہے۔
اب میرے پاؤں کے نیچے مٹی کا تختہ نہیں ہے، پانی کا ریلا ہے اور کبھی کبھی میرے پاؤں ریت پر ٹکنے کی کوشش کرتے ہیں تو پانی کا ریلا مجھے پھر بیچ سمندر میں پہنچا دیتا ہے۔ اور میرا سایہ سمٹتا سمٹتا میرے اندر مدغم ہونے لگتا ہے۔
بیچ سمندر میں کھڑا اپنے سائے کو اٹھکھیلیاں کرتے دیکھتے ہوئے مجھے اپنی تنہائی ٹوٹتی پھوٹتی ہوئی سی محسوس ہوئی۔ اس وقت میرا سایہ پھیلتا ہوا میرے پیچھے بہت پیچھے لمبا ہوتا چلا گیا تھا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا اور اپنے ہی جیسے چھوٹے چھوٹے قد، پیلے پیلے چہرے اور چپٹی چپٹی ناک والوں کو اپنی طرف بڑی امید و بیم کی کیفیت میں بڑھتے ہوئے پایا۔ یہ بہت سارے لوگ تھے جو میرے چاروں طرف جمع ہو رہے تھے، دور سے یہ سب ایک جیسے نظر آرہے تھے۔ مگر نزدیک آنے پر یہ بھانت بھانت کی شکلوں والے، چھوٹے بڑے، عورت مرد، موٹے پتلے سب طرح کے لوگ نظر آئے۔ جب ان سبھوں نے مجھے اچھی طرح دیکھ لیا اور میں بھی انہیں اپنوں میں سے ایک نظر آیا تو ان کی امید و بیم کی کیفیت اُن کے چہرے سے زائل ہوگئی اور پھر جب ایک دوسرے کی شکل تکنے لگے اور پھر سمندر کی بپھری اور دھاڑتی ہوئی لہروں پر اُن سب کی ملی جلی سسکیوں اور ہچکیوں کی آوازیں بھاری سی پڑ گئیں۔ میرا سایہ سمٹتا ہوا میرے قریب بڑے غور سے مجھے اور اس منظر کو تکتا رہا تھا، وہ بھی اس منظر کی تاب نہ لاسکا اور میرے اندر مدغم ہوگیا۔
’’تم لوگ کون ہو؟‘‘
میں نے انہیں کچھ پرسکون ہوتے دیکھ کر کچھ دیر بعد پوچھا۔
’’ہم سب۔۔۔‘‘ وہ رکا، پھر بولا۔ ’’ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہے۔ ہم سب پر آتش فشاں پھٹ پڑا تھا اور اس کا لاوا ہمیں بہائے چلا جا رہا تھا اور جب ہماری آنکھیں کھلیں تو ہم پانی کے مسلسل بہاؤ پر اپنے قدم جمائے تمہاری سمت کھنچتے چلے آرہے تھے۔ تم کون ہو بھائی؟‘‘
اس نے مجھ سے پوچھا مگر میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کیا اور پھر پوچھا۔
’’تمہارے پیروں کے نیچے سے زمین کس طرح کھسک گئی بھائی؟ کیا اچھی طرح مٹی میں پیوست نہیں تھے؟
اس بار اس انبوہ سے دوسرا بڑھا۔ اس نے کہا۔
’’اصل میں ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہم بڑے متوازن تھے مگر اچانک کچھ طاقتور ہاتھوں نے ان دونوں پلڑوں کو پھیلا لیا اور ہمارا توازن قائم نہ رہ سکا، ہم ایسے لڑکھڑائے کہ پھر نہ سنبھل سکے اور اس وقت خود کو یہاں موجود پا رہے ہیں۔‘‘
ایک اور آگے بڑھا۔
’’اصل میں ہماری زمین پھٹ گئی اور ہم اس میں دھنستے چلے گئے۔ آنکھ کھلی تو سمندر میں تیر رہے تھے۔‘‘
ایک اور بڑھا۔
’’ہوا یوں کہ ہمیں بتایا گیا کہ وہ زمین جس پر ہم کھڑے تھے ہماری نہیں تھی، ہم نے بتایا کہ ہم تو دو سو سال سے اس پر کھڑے ہیں۔ بتایا گیا کہ دو سو سال پیروں کو مٹی میں جمانے کے لیے ناکافی ہیں۔ ہم سو دو سو سال پہلے والی اس مٹی کو تلاش کرنے چل پڑے جس پر ہمارے پیروں کے نشان موجود ہوں گے مگر راستے میں یہ سمندر حائل ہوگیا۔
’’اصل میں ہم گمراہی کے راستے پر نہ چل سکے اور ہم سے ہماری مٹی ۔۔۔۔‘‘
’’اور ہم سے ہماری دھرتی۔۔۔۔‘‘
’’اور ہم سے ہماری ماں۔۔۔‘‘
’’اور ہم سے ہمارا لخت جگر۔۔۔۔‘‘
’’اور ہم سے ہمارا جسم۔۔۔‘‘
’’اور ہم سے ہماری جان۔۔۔۔‘‘
میں ایک ایک کہانی سنتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ یہ ساری کہانیاں ایک دوسری سے کس قدر مماثلت رکھتی ہیں۔ میری اپنی کہانی بھی تو کچھ ایسی ہی تھی۔ مجھے بھی اپنا ہوش کب رہا تھا۔ جب ہوش آیا تھا تو میرے پیروں کے نیچے پانی کا ایک مسلسل بہاؤ تھا، جس سے توازن قائم تھا اور میرا سایہ مجھ سے لپٹا ہوا سسک رہا تھا۔ میری کہانی سن کر وہ سب سوچ میں پڑگئے۔ پھر سب نے صلاح مشورہ شروع کیا اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے لگے مگر کوئی راہ نہ سجھائی دیتی تھی۔ جب پاؤں کے نیچے زمین نہ ہو تو دماغ بھی کوئی راہ دکھانے سے قاصر ہوتا ہے۔ سب کا ایک ہی مسئلہ تھا۔ سب کا ایک ہی مقصد تھا۔ مٹی کے بغیر نہ پیٹ کی آگ بجھ سکتی تھی، نہ سر پر سایہ تانا جاسکتا ہے۔
بیچ سمندر میں کھڑے ہم سب نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی سوائے پانی کے دور دور تک کچھ بھی نظر نہ آیا۔
ہم شب و روز اس معاملے پر غور کرتے۔ ایک دوسرے کی کہانیاں سنتے۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھتے۔ ایک دوسرے کی سسکیوں میں سسکیاں ملاتے اور چاروں طرف دیکھ دیکھ کر مایوس ہوتے رہتے۔ کب تک۔ آخر کب تک۔
آخر ایک روز ایک دلیر آگے بڑھا۔
میں۔ میں مٹی دریافت کروں گا۔‘‘
سب نے اس کی طرف حیرت اور امید سے دیکھا۔
’’ہاں میں مٹی دریافت کروں گا۔۔۔ میں کولمبس ہوں۔‘‘
وہ ایک مہم جو اور باہمت شخص کی طرح دھاڑا اور میں نے دیکھا کہ سب اس کولمبس کو بڑی امید سے دیکھ رہے ہیں۔
ایک اور شخص آگے بڑھا۔ عجیب سی ہیئت تھی۔
’’میں تمہارے ساتھ ہوں کولمبس۔ میں تمہاری دریافت کو منظر عام پر لاؤں گا۔ میں۔ میں ابن بطوطہ ہوں۔‘‘
’’ہاں ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم سب۔‘‘
اور ایک بار پھر ہم سب نے سر جوڑے۔ ایک نئی صبح ایک متعین سمت کی جانب اپنے کولمبس کی سربراہی میں ہم سب سمندر کی سطح پر چل پڑے۔ مہم بڑی جان لیوا تھی۔ مگر کبھی ہمارا کولمبس ہم سب کی ہمت بندھاتا اور کبھی ابن بطوطہ منزل کی قربت کا مژدہ سناتا۔ ہم سب چلتے رہے اور جب اس سمت نے ایک مرکزیت اختیار کرنی شروع کی تو ہماری خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا۔ سمندر کی گہرائی کم ہونے لگی تھی اور ساحل پر پڑی ہوئی رات کی چمک آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی تھی۔ ہماری آنکھیں خوشیوں سے نم اور بند ہونے لگی تھیں کہ اچانک عجیب سا شور سنائی دیا اور ہماری آنکھیں سہم کر کھلیں اور پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہم پر تو آتش فشاں پھٹ پڑا تھا اور اس کا لاوا ہمیں بہائے لئے جا رہا تھا، جب غشی ٹوٹی تو ہم سب بیچ سمندر میں پہلے کی طرح جمع تھے اور کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے سہارے بنے ہوئے تھے۔ ہمارا کولمبس ہمارے درمیان موجود تھا اور ابن بطوطہ پھر سے ڈھارس بندھا رہا تھا۔
’’کیا ہوا اگر مشرق کی سمت نہیں۔ ابھی تین سمتیں اور موجود ہیں۔
آؤ اس بار مغرب کا تعین کریں۔
ایک روشن صبح پھر سے کولمبس کی سربراہی میں مٹی کی دریافت کی مہم پر قافلہ چل پڑا۔ راستہ یہ بھی جان لیوا تھا۔ قدم اکھڑ اکھڑ جاتے تھے مگر ہمارے نزدیک ایک مقصد تھا، سو ہم آگے بڑھتے رہے۔ اور پھر جب ریت کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرنے لگی اور آنکھیں خوشیوں سے نم آلود اور بند ہونے لگیں تو پھر وہی ہیبت ناک سا شور سنائی دیا۔ ہم پر پھر آتش فشاں پھٹ پڑا اور اس کا لاوا ہمیں بہانے لگا، ہم میں سے بہتیرے چیختے گڑگڑاتے، روتے بلکتے رہے مگر تھوڑی ہی دیر بعد ہم سب بیچ سمندر میں تھے۔
اس مہم میں بہت سارے لوگ کام آئے۔
کولمبس زخمی سانپ کی طرح پھنکارتا رہا۔
ابن بطوطہ سب کے کانوں میں منمناتا پھر رہا تھا۔
طے پایا کہ آئندہ شمال کا رخ ہوگا اور مغرب کو بھی آزمایا جائے گا اور اس کے بعد بھی ہمارے ذہنوں کا دروازہ بند نہیں ہوگا۔
شمالی سمت کی مہم میں پھر بہت سارے لوگ کام آئے اور جنوبی سمت کی مہم میں بھی بہت سارے لوگ کام آئے اور پھر میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا تو انبوہ ویسے کا ویسا تھا۔ میں ایک ایک کا چہرہ تکتا رہا۔ کسی کو بھی مستقبل سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں تھی۔
میری نظر ایک کے چہرے پر ٹھٹک گئی۔
وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا۔ سر جھکائے، ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ساکت کھڑا رہا۔
’’میں کولمبس ہوں۔ میں مٹی دریافت کروں گا۔
ایک اور آگے بڑھا۔
’’میں ابن بطوطہ ہوں۔ میں اسے زیر تحریر لاؤں گا۔‘‘
میں نے ان کی دھیمی آوازوں کو بڑی مشکل سے سنا۔ پھر وہ دونوں بلک بلک کر رونے لگے۔ پھر سب نے ان کی آوازوں میں آوازیں ملائیں۔ میں بیچ سمندر میں کھڑا اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے سمندر کو اتنا پرسکون میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔lll