اجنبی چہرے

جیلانی بانو

تھوڑی دیر بعد وہ سب چہرے بھول جاتی تھی۔
بیٹھے بیٹھے اچانک نمّو کو یاد آتاکہ وہ اپنے سب بہن بھائیوں کے چہروں کی تفصیل بھول چکی ہے۔ اب وہ کہیں مل جائیں تو جانے وہ پہچان بھی سکے گی یا نہیں!
کوئی اس سے پوچھ بیٹھے کہ بڑے بھائی جان گورے ہیں یا کالے؟ تو وہ کیا جواب دے گی؟ اسی لیے تو میکے جانے کے نام سے اس کا دم نکلتا تھا۔ رضاؔ اس بات پر خوش ہوتا تھا کہ نمو اس کی جدائی ایک دن کے لیے برداشت نہیں کرسکتی۔ میکے والے سمجھتے تھے کہ جانے کیسی محبت کرنے والی سسرال ملی ہے کہ نموّ اپنا میکہ بھول گئی۔
اور وہ ڈرتی تھی کہ کسی دن امّاں کو نہ پہچان سکی تو…؟ اپنی اس کمزوری پر سوچتے سوچتے وہ بیمار سی رہنے لگی تھی۔
بھلا یہ بھی کوئی تک ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے والوں کو اچانک بھولنے لگیں۔
آدمی صرف اپنے چہرے ہی سے تو پہچانا جاتا ہے، ورنہ دلوں کا حال تو ایکسرے سے بھی معلوم نہیں ہوتا۔ یہ کارڈیوگراف بھی کیسی چیز ہے۔ کتنی بار نمّو کا جی چاہا کہ دل کی کسی شدید بیماری کا بہانہ کرکے اپنا کارڈیو گراف کروالے۔ سنا ہے اس مشین پر سنیما کے پردے کی طرح دل کے اندر چھپی ہوئی ایک ایک لکیر نظر آتی ہے۔ مگر کیا پتہ اس کے دل میں چھپا ہوا کیا کیا دکھائی دے اوروہ رضا کے آگے مزید پشیمان ہو۔
اللہ جانے یہ مرض اُسے کب اور کیسے شروع ہوا تھا۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ شادی سے پہلے تو وہ ہر ایرے غیرے کو جھٹ پہچان لیا کرتی تھی۔ اسکول کے زمانے کی سہیلیاں ملتیں تو وہ ایک نظر دیکھتے ہی ادھر دوڑا کرتی۔ کوئی پاس پڑوس کی خالہ گھر آتیں تو ہمیشہ اُن کے نام سے مخاطب کرکے سلام کرتی۔ بڑے تاؤ کو کبھی اُس نے منجھلے یا چھوٹے تاؤ نہ کہا۔ حالانکہ یہ پانچوں بھائی اس غضب کی مشابہت رکھتے تھے کہ خود ان کی بیویاں دھوکا کھا جاتیں۔ اور تو اور اس نے بڑی آپا کی چودہ اولادوں کے ایک سے چہرے ہمیشہ الگ الگ یاد رکھے۔ جبکہ خود بڑی آپا جلدی میں بھول جاتیں کہ یہ منو ہے یا گڈو… منو ہے یا چنو…!
مگر اچانک جانے کیا ہوا کہ نمّو کے دماغ کا وہ حصہ ہی خراب ہوگیا، جہاں لوگوں کی صورتیں محفوظ رہا کرتی ہیں۔ اور کمبخت یہ مرض ایسا تھا کہ کسی سے کہہ کر اور اپنا مذاق بنوالو۔
اکثر ایسا ہوا کہ اچانک رضا ڈرائنگ روم سے چلاّنے لگا ’’نمّو ذرادیکھو تو آج کون آیا ہے ہمارے گھر؟‘‘
اور نمّو پر جیسے بجلی گرپڑتی۔
کیا آج ’’وہ‘‘ پھر آگیا…؟ کہیں نمو کی زبان سے آج پھر کچھ اور نہ نکل جائے۔ ممکن ہے رخشی ہو۔ کٹنی شادی سے پہلے سنا ہے رضا پر مرتی تھی، جبھی اتنا پرجوش استقبال کررہے ہیں۔ رضا صاحب اُس کا، یہ رخشی آخر کب میرا پیچھا چھوڑے گی؟ من من بھر کے پانوں رکھتی، اپنے آپ کو سنبھالتی وہ کمرے میں پہنچی تو اپنے سامنے ایک اجنبی عورت کو دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔ ’’یہ کون ہے؟‘‘ اپنی یادداشت کی کمزوری سے خوف کے مارے وہ کانپنے لگی۔ سارا بدن پسینے میں بھیگ گیا۔
’’اوئی، ایسا بھی کیا کمزور دل ہوگیا، ابھی سے تمہارا کہ خوشی بھی برداشت نہیں ہوتی۔‘‘ آنے والی بی بی نے ہنس کر کہا تو نمّو اور گھبرائی۔ عافی بیگم…؟ طاہر کی بہن…؟ نہیں اُس کی چھوٹی نند…؟ تو کیا یہ سلمیٰ ہے… اپنی بے بسی پر تلملا کے وہ آنے والی سے لپٹ کر سچ مچ رونے لگی۔
’’اوئی اب بس کرو۔ تین مہینے کا بچہ بھی کوئی ایسی چیز تھا کہ تم رو رو کر اپنی جان ہلکان کرو۔ اللہ تمہیں اتنے بچے دے گا کہ گنتے گنتے بھول جایا کرو گی۔‘‘
سب ہنسنے لگے اور وہ گھبرا کر سوچتی: کیا بچوں کو بھی بھول جاؤں گی! کیا بچوں کی شکلیں بھی مجھے یاد نہ رہیں گی۔
یا اللہ! تو نے اتنے سارے چہرے ایک سے کیوں کردیے کہ الگ الگ یاد رکھنا چاہو، مگر سب گھل مل جاتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لو کہ بڑی آپا اور چھوٹی آپا میں کتنا فرق ہے۔ بڑا آپا چھوٹی آپا کے مقابلے میں خوب موٹی ہیں۔ انھیں تو منوں سے تولنا پڑے۔ بس ذرا بڑی آپا کالی ہیں اور چھوٹی آپا گوری۔ مگر جانے کیوں منّو دونوں آپاؤں کو الگ الگ یاد نہ رکھ سکتی تھی۔ بس صرف یہ یاد رہتا کہ چھوٹی آپا جہاں دل پر پھاہے رکھنے میں ماہر ہیں۔ بڑی آپا وہیں کہ دل پر گھاؤ لگانے سے کبھی نہیں چوکتیں۔ اِس لیے نمّو اُنھیں اسی وقت پہچانتی جب وہ کسی سے بات کررہی ہوں، ورنہ یہ ہوتا کہ چھوٹی آپا کی ناک بڑی آپا کے چہرے پر جڑجاتی۔ کبھی بڑی آپا کی آنکھیں چھوٹی آپا کی سی لگتیں اور نمّو گھبرا کر سوچتی کہ انھیں بڑی کہوں یا چھوٹی؟
اللہ جانے سب لوگ کس طرح ہر ہر چہرے کو الگ الگ یاد رکھتے ہیں۔ اتنے سے دماغ میں اتنی جگہ کہاں سے آجاتی ہے کہ لائبریری کی طرح ہر ہر صورت کو الگ الگ خانوں میں رکھتے پھرو۔
پھر نمّو سوچتی اگر کسی دن رضا کو پتہ چل جائے کہ اس کا دماغ اتنا کمزور ہے تو پوری سسرال میں بات پھیل جائے گی۔ اس کی نندیں تو پہلے ہی ہر بات پر ناک بھوں چڑھاتی ہیں، اب اور انگلیوں پر نچائیں گی۔ اور خود رضا (جس کی وہ سر سے پیر تک ہوچکی ہے) کتنا پچھتائے گا۔ کیا اسے کوئی اچھی بھلی صحیح و سالم لڑکی نہ ملتی جو اس نے مجھ ادھوری کا انتخاب کیا اور پھر کیسا جی جان سے چاہتا ہے ۔ دنیا میں ایسے مرد کتنے کم ہوں گے، جو ہر بار اپنی بیوی کو دیکھ کر مسکراسکیں۔
یا پھر ممکن ہے سب ہی مردوں کی ایسی عادت ہو۔ یہ مردوں کی ملی جلی عادتیں ہی تو انھیں الگ الگ نہیں کرپاتیں یہیں پر ساری گڑبڑ ہوجاتی ہے۔
جب نمّو کی شادی کا گھر میں شور مچا تو وہ لاکھ لاکھ سوچتی، مگر کسی ایسے مرد کا تصور ذہن میں نہ آتا جو ’’اُس‘‘ کے سوا کوئی اور ہوسکتا ہے۔ پھر وہ تھک جاتی کہ اب تو اپنے پتوار رکھ دیے ہیں، چاہے نیّا ڈوبے کہ پار لگے۔
جب ’’وہ‘‘ نہیں ہے تو کوئی بھی سہی۔
مگر ہوا یہ کہ نمّو کا دولہا ’’وہ‘‘ نہیں تھا مگر پھر بھی ویسا ہی لگتا۔ اسی طرح ہنستا۔ ایسی ہی باتیں کرتا۔ اتنی ہی نموّ کی تعریف کرتا اور نمّو کو دیکھ دیکھ کر اسی کی طرح مسکرائے جاتا۔
نمّو کو یقین ہوگیا کہ مردوں کی عادتوں اور اُن کے پیار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر اس نے خوامخواہ رو رو کر جان گنوائی۔
شادی کے کئی مہینے بعد یہی بات جب اس نے اپنی ایک رازدار سہیلی آفتاب کو سنائی تو اس نے بڑے طنز سے کہا: ’’یوں کہو تم اسے بھول چکی ہو۔ چلو اچھا ہوا۔ ورنہ عورت کے لیے زندگی بھر کسی یاد کو سنبھال سنبھال کر رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔‘‘
’’ارے واہ… نہیں نہیں… میں بھلا اسے بھول سکتی ہوں۔‘‘
نمّو نے سوچا آفتاب مجھ سے جل گئی ہے۔ وہ خود بھی تو اس پر مرتی ہے نا۔ حالانکہ میں اب بھی ’’اسے‘‘ دن میں دس بار یاد کرتی ہوں۔ مگر جانے کیا بات ہے کہ ’’اس‘‘ کا تصور کرو تو رضا کے نقش ابھرنے لگتے ہیں۔
پھر ایک دن وہ اکیلی گھر میں بیٹھی ننھے ننھے کپڑے سی رہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
لو بھلا ایسے وقت مجھے اٹھانے کون آگیا! وہ اپنے پیٹ کا منوں بوجھ اٹھائے گئی اور دروازہ کھول کر پوچھ بیٹھی:
آپ…آپ کون ہیں…؟
’’اس‘‘ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس گردن جھکائے واپس چلا گیا۔
تب نمّو نے سوچا… یہ تو وہی تھا… مگر شاید ’’وہ‘‘ نہ ہو… تو پھر ’’وہ‘‘واپس کیوں چلا گیا۔ میری حالت بھی تو ایسی ہورہی ہے۔ منہ نہ پھیرلیتا تو کیا کرتا! مگر آج میں نے اُسے کیوں نہ پہچانا۔ ہائے میری آنکھوں کو آج کیا ہوگیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب میں سب ہی صورتیں بھولنے لگوں۔
اور وہی ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ نمّو کے ذہن سے اب ہر چہرہ محو ہونے لگا۔ صرف زبان سے کہی ہوئی بات یاد رہتی۔ یا دل پر لگنے والے زخم نہ سوکھتے۔ باقی صورتیں تو ایک جیسی تھیں۔ جانے کیسے لوگ صورت دیکھ کر دوست اور دشمن کو پہچان لیتے ہیں۔ اُس کو تو سب چہرے ایک سے لگتے تھے۔ اپنے آس پاس والوں کے نام وہ بار بار زبان سے دوہرا کے انھیں یاد رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔
نمّو کو لوگوں کی یادداشت پر رشک آتا تھا کہ دیکھتے ہی کیسے ہر آدمی کو پہچان لیتے ہیں۔ ایک وہ خود ہے کہ دیوانوں کی طرح ہر طرف جانے کسے ڈھونڈے جاتی ہے۔ (آفتاب کہتی تھی اب ’’اس‘‘ نے کبھی منہ نہ دکھانے کی قسم کھائی ہے) ایک بار یوں اس کی یادداشت کی کمزوری بھانپ کر اس کی نند نے طنز کیا تھا۔ ’’بھابی کی نظروں میں تو اب ایک ہی صورت بس گئی ہے۔ اب انھیں اور کوئی کیوں نظر آنے لگا۔‘‘
نمّو جانتی تھی کہ اس کی چھری کی طرح کٹیلی نند کو اپنا بھائی چھن جانے کا بڑا دکھ ہے اور وہ معصوم سمجھتی تھی کہ ہر عورت کی نظروں میں اس کا شوہر ہی بسا ہوتا ہے۔
حالانکہ جو چیز سامنے ہو، اسے کوئی کیوں ڈھونڈنے میں جان گنوائے گا۔ مگر لوگوں کو تو طعنے دینے سے کام تھا۔ ارے اب تو بڑی بیگم صاحب بن گئی ہیں، نجمہ بیگم… بھلا ہم کیسے یاد رہتے۔ اتنے زیوروں کپڑوں میں چھپ کر غریب آدمی کیسے نظر آئیں گے۔
’’خدا کے لیے ایسا نہ کہو… ‘‘ وہ سچ مچ اپنے آنسو پونچھ کر کہتی تھی ’’میں کسی کو نہیں بھولی۔ میرے دماغ پر کچھ اثر ہوگیا ہے۔‘‘ سچ مچ نمّو کو شک ہورہا تھا کہ کوئی سایہ اس پر اثر انداز ہورہا ہے۔ یہ جادو ٹونا ’’اسی‘‘ نے کروایا ہوگا۔ کیونکہ وہ اکثر نمّو کے خوابوں میں ڈولتا تھا۔ گھر میں چاروں طرف اس کی صورت ڈوبتی، ابھرتی۔ جیسے ابھی یہاں تھا۔ اب وہاں ہے۔ اے لو، وہ تو رضا کے فوٹو میں چھپ کر مسکرا رہا ہے۔ ذرا دیر بعد کوئی مدھم مدھم سرگوشیوں میں پکارتا، نمّو نمّو۔
وہ چونک پڑتی۔ سامنے رضا کھڑا مسکرائے جاتا۔ اب شاید اُس نے رضا کا روپ دھار لیا ہے۔
پھر ایک دن وہ اپنی بھاوج کے ساتھ چپکے سے شاہ جی کے ہاں گئی۔ اُن کی فیس کے پانچ روپئے گئے بھاڑ چولہے میں۔ اس کے دل کو قرار تو آجائے گا۔
مگر شاہ جی نے اور آگ بھڑکا دی۔
پانچ جمعراتوں کا چلّہ کھینچنے کے بعد انھوں نے کہا: ’’تو نے کسی بزرگ کی بے ادبی کی ہے۔ اس کی سزا میں تیرے دل کا چین اُڑگیا ہے۔ اور یہ کہ تو جسے اپنا سمجھتی ہے وہ بھی تیرا نہیں ہے۔‘‘
پانچ پیسے کاگنڈا اس نے اپنے دل کے پاس لٹکا لیا تھا۔ مگر پھر بھی اپنی قسمت پر پہروں روئے جاتی۔ کہتے ہیں جنّات کو خالی ہاتھ لوٹا دینے کی بڑی سزا ہوتی ہے۔ بے ادبی کرنے والا خود بھی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔
(کہیں اُس دن دروازے پر دستک دینے والا کوئی جن تو نہ تھا، جبھی تو وہ بھی میرا نہیں ہوگا جسے میں اپنا سمجھتی ہوں)
شاہ جی نے چار گنڈے دیے تھے کہ رضا کے پلنگ کے چاروں پائے تلے دبادو اور وہ دعا جو صبح سویرے رضا کے منہ پر پھونکنا ہوتی۔ اللہ مارا کیسا جان جوکھوں کا کام ہوتا۔ وہ منہ قریب لے جاتی تو میاں جانے کس خوش فہمی میں پڑجاتے اور ہنسی ہنسی میں اس دن کی دعا پھر رہ جاتی۔
ادھر پلنگ کے چاروں کونوں کی حفاظت کرنا بھی بڑا مشکل کام تھا ، کیونکہ نمّو کی ساس کو خبط تھا کہ مہترانی جھاڑو لگانے آئے تو سب پلنگ کھینچ کھینچ کر اپنی جگہ سے ہٹادو۔ جیسے ایک کونے میں جھاڑو نہ لگی تو قیامت آجائے گی۔ پتہ نہیں لوگ ظاہری صفائی پر اتنا کیوں مرتے ہیں۔ ذرا اپنے اندر توجھانک کر دیکھیں کہ کتنی گندگی سمیٹ رکھی ہے۔
رفتہ رفتہ نمّو پر ایک اور خوف چھانے لگا کہ کہیں وہ رضا کو بھی نہ بھول جائے۔ ہائے جو یوں ہوگیا تو کیا ہوگا! وہ توکہیں کی نہ رہے گی۔ لو بھلا ایک شخص دل و جان قربان کردے ہمارے اوپر۔ اپنی خوشی کو ہماری خوشی بنالے۔ ہماری اداسی پر خود رونے بیٹھ جائے۔ اور ہم ہیں کہ ایک دن اُسے پہچان بھی نہ سکیں۔ اب رضا کا چہرہ ہر وقت یاد رکھنے کے لیے اسے بڑے جتن کرنا پڑتے۔ صبح وہ آفس جانے کے لیے اسکوٹر باہر نکالتا تو نمّو پاس کھڑی بار بار اسے دیکھے جاتی۔
’’کیا بات ہے…؟‘‘ کئی بار رضا ٹھٹک کر پوچھتا تھا۔ پھر کوئی جواب نہ پاکر ایک پانچ روپے کا نوٹ اسے تھما دیتا۔
’’اچھا… تو آج پھر سلمیٰ کے ساتھ شاید پکچر کا پروگرام بنا ہے، تو پھر جاؤ عیش کرو۔ اللہ نے تمہاری قسمت میں عیش لکھا ہے تو ہم روکنے والے کون ہوتے ہیں۔‘‘
وہ بے دلی سے نوٹ لے لیتی اور کیسا کیسا اس کا جی چاہتا کہ اُس نوٹ کے عوض وہ ذرا سا مسکرادے۔ مگر توبہ کیجیے۔ دل کا چور تو مارے ڈالتا تھا۔ جاتے وقت رضا کو بھر پور نظروں سے دیکھ کر وہ یاد کیے جاتی۔ دائیں گال پر زخم کا نشان اور گردن پر سیاہ تل۔
شام کو وہ سب کام چھوڑ کر کھڑکی میں چلی جاتی اور لاکھ یاد کرنے پر بھی یاد نہ آتا کہ رضا آج سیاہ پینٹ پہن کر گیا ہے یا سفید!
کپڑے ہی تو ایک ایسا امتیازی نشان ہیں کہ جھٹ کسی آدمی کو پہچان لو۔ اگر رضا کالی پینٹ پہن کر آفس گیا ہے تو وہی پینٹ پہن کر واپس آئے گا۔ واہ… یہ تو بڑی آسان ترکیب مل گئی کسی کو پہچاننے کی۔
نمّو نے جلدی سے آکر رضا کی الماری کھولی۔ ہنگر پر دیکھا کالی پینٹ کہیں نہیں تھی۔ بس آج تو وہ رضا کو سڑک کے موڑہی سے پہچان لے گی۔ کالی پینٹ… سفید شرٹ… دائیں گال پر زخم کا نشان … اور گردن کے نیچے… اللہ میں کہیں یہ سب باتیں بھول تو نہ جاؤں گی! بس اب دس پندرہ منٹ اور رہ گئے ہیں۔ وہ سارے گھر میں یوں حیران پریشان سی گھوم رہی تھی جیسے کسی بری خبر کی منتظر ہو۔
پھر دروازے پر اسکوٹر کی پھڑپھڑاہٹ گونج اٹھی۔ روزانہ نمّو دروازے کی طرف بھاگتی تھی اور رضا کا اسکوٹرپکڑکے اسے اندر لاتی۔ کسی دن ساس کے بتائے ہوئے کسی کام میں الجھ کر وہ دروازے تک نہ آتی تو رضا کا موڈ خراب ہوجاتا تھا۔ آج بھی وہ دروازے کی طرف لپکی مگر پردے کے نیچے سے سفید پینٹ میں چھپی اجنبی ٹانگیں دیکھ کر واپس لوٹ گئی۔
’’کیا بات ہے۔ آج مجھے دیکھ کر منہ کیوں پھیرلیا…؟‘‘
نمّو آواز سن کر چونک پڑی۔ دائیں گال پر زخم کا نشان تھا اور گردن کے نیچے …
’’اوہ آپ…؟ میں سمجھی کوئی اور ہے۔‘‘ وہ سچ مچ گھبرا گئی تھی۔
’’تو گویا نئے سرے سے تعارف کروانا پڑے گا آپ سے؟‘‘ رضا شرارت سے مسکرایا تو وہ اور سہم گئی۔ یا اللہ اب کیا ہوگا؟کہیں انھیں معلوم ہوگیا کہ میں انھیں نہیں پہچانتی تو…؟
کپڑے بدل کر رضا باہر آیا تو اس نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ نمّو پر ڈالی۔
’’یہ تمہاری صورت پر ٹھیکرے کیوں برس رہے ہیں آج۔ اتنا بھی کیا کام کرتی ہو کہ بال سنوارنے کی فرصت نہیں ملتی۔ ہزار بار کہا کہ آج کل چوڑی دار پائجامے اور تنگ شرٹ کا فیشن ہے، مگر جب دیکھو وہی خرتوس ساڑیاں لپٹی ہوئی ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا باتھ روم میں چلا گیا۔
دوسرے دن نمّو نے بڑے اہتمام سے کپڑے پہنے، سنگار کیا… یہ چوڑی دار پائجامہ اورشرٹ مجھ پر کیا سجے گا۔ یہ تو نو عمر لڑکیوں کا لباس ہے۔ مگر وہ مجھے نہ جانے کون کون سے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
ابھی نموّ آئینے کے سامنے سے نہ ہٹی تھی کہ رضا کی آواز سے چونک پڑی۔
’’اوہو… آج تو رخشی آگئیں ہماری قسمت جگانے۔‘‘
نمّو نے پلٹ کر دیکھا تو رضا گھبرا گیا۔ یوں جیسے اس نے کوئی بہت بڑی غلطی کردی ہو اور اس نے پریشان ہوکر کہا۔
’’ارے توبہ، لو آج میں تمھیں بھول گیا۔ ایسا لگا جیسے رخشی۔‘‘
رضا ہنسنے لگا مگر نمّو روپڑی۔
نہیں نہیں، وہ بھی مجھے نہیں پہچانتا۔ وہ بھی زبردستی کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہے۔ شاہ جی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ تو جسے اپنا سمجھتی ہے وہ بھی تیرا نہیں ہے۔ اب ساری زندگی وہ بار بار یہی کہتا رہے گا۔
’’ارے آج تو رخشی آگئیں ہماری قسمت جگانے … لو نمّو آج میں تمھیں بھول گیا۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146