اسلام نے عورت کو جو بلند او رارفع مقام عطا فرمایا اور اس کی فطری اور طبعی مجبوریوں اور نزاکتوں کے پیش نظر اللہ کے دین نے اسے جو خصوصی سہولتیں او ررعایتیں عطا کیں ان سب کا ماخذ امہات المومنین کی بیان کردہ احادیث و روایات ہی ہیں۔
ان احادیث کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ امہات المومنین کو اپنی ذمے داریوں کا کتنا شدید احساس تھا۔ انہوں نے ہادی عالم ﷺ کے ہر ارشاد کو بغور سنا اور آپؐ کے ہر فعل او رعمل کا پوری احتیاط اور توجہ سے مطالعہ کیا۔ اگر کسی معاملے میں کوئی ابہام محسوس ہوا یا کوئی شک پید اہوا تو یقین کی کیفیت حاصل کرنے کے لیے اپنے شک و شبہ کا سوال کی صورت میں فوراً اظہار کر دیا اور آپؐ سے تسلی بخش جواب حاصل کرلیا، تاکہ پورے اعتماد کے ساتھ علم و حکمت کا یہ خزینہ اپنی روحانی اولاد کو منتقل کرسکیں۔
ذیل میں ہم امہات المومنین کی بیان کردہ احادیث کا ایک انتخاب پیش کرتے ہیں۔ سیدہ خدیجہؓ او رسیدہ زینبؓ بنت خزیمہ سے اس لیے کوئی حدیث منقول نہیں کیوں کہ ان کا انتقال حضورؐ کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔
ام المومنین سیدہ سودہؓ
دباغت سے مردہ جانور کی کھال پاک ہو جاتی ہے:
ام المومنین سیدہ سودہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مرگئی۔ ہم نے اس کے چمڑے کو دباغت دے دی۔ ہم اس پر کھجور کا پانی ڈالتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی مشک ہوگئی۔ (بخاری)
ام المومنین سیدہ عائشہؓ
مقربین کی علامات:
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت کیا: ’’جانتے ہو قیامت کے روز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سائے میں جگہ پائیں گے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ’’اللہ او راس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:
’’یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے سامنے حق پیش کیا گیا تو انہوں نے قبول کیا، جب ان سے حق مانگا گیا تو ادا کیا اور دوسروں کے معاملے میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو خود اپنی ذات کے لیے تھا۔‘‘ (مسند احمد)
کاہنوں اور نجومیوں سے بچنے کی ہدایت:
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ سے کاہنوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’کہانت کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘ اس پر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! ان کی بتائی ہوئی کوئی بات کبھی ٹھیک بھی نکل آتی ہے۔‘‘ تو حضورؐ نے فرمایا: ’’وہ صحیح بات کوئی جن کسی فرشتے سے اچک لیتا ہے او راپنے دوستوں کے کان میں پھونک دیتا ہے، جسے وہ کاہن سو جھوٹی باتوں میں گڈمڈ کر کے بیان کر دیتا ہے۔‘‘ متفق علیہ)
میت کو صدقے کا ثواب پہنچتا ہے:
ام المومنین سیدہ عائشہؓ راوی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺسے دریافت کیا: ’’میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا او رانہیں وصیت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ دیتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا اس کا ان کو ثواب پہنچے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں‘‘ (متفق علیہ)
میت کی طرف سے روزوں کی قضا:
ام المومنین سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مر جائے او راس کے ذمہ روزے واجب الادا ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ (متفق علیہ)
رضاعت سے بھی رشتے داری قائم ہوتی ہے:
ام المومنین سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے حضرت افلحؓ نے جو ابو القعیس کے بھائی تھے، میرے گھ رکے اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پردے کا حکم آچکا تھا۔ میں نے خیال کیا کہ جب تک رسول اللہؐ سے اجازت نہ لے لوں، مجھے انہیں گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیوں کہ مجھے دودھ ان کے بھائی ابو القعیس نے تو نہیں پلایا بلکہ میں نے ان کی بیوی کا دودھ پیا ہے۔ اس کے بعد جب نبی کریمﷺ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! ابو القعیس کے بھائی افلح نے میرے گھر میں آنے کا اذن مانگا تھا لیکن میں نے کہہ دیا کہ جب تک آپؐ سے اجازت نہ لوں، میں اجازت نہیں دے سکتی؟‘‘ اس پر حضورؐ نے فرمایا: ’’تمہیں اپنے چچا کو آنے کی اجازت دینے میں کیا چیز مانع تھی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! مجھے ابو القعیس نے نہیں بلکہ اس کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ انہیں آنے کی اجازت دے دو۔ وہ تمہارے چچا ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
خاوند کے مال پر بیوی کا حق:
ام المومنین سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ عتبہ کی بیٹی او رابو سفیانؓ کی بیوی ’’ہند‘‘ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، او رعرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ ایک وقت تھا جب پوری زمین پر کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جس کا ذلیل ہونا مجھے آپؐ کے گھر والوں کے ذلیل ہونے سے زیادہ پسند ہوتا۔ لیکن پھر یہ حالت ہوگئی کہ آج روئے زمین پر کوئی ایسا گھرانہ نہیں جس کاعزت مند ہونا مجھے آپؐ کے گھر والوں کے معزز و محترم ہونے سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، ابھی تمہاری محبت میں مزید اضافہ ہوگا۔‘‘
اس نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ! ابو سفیانؓ ایک کنجوس شخص ہے، تو کیا یہ بات مناسب نہ ہوگی کہ میں اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنے اور اس کے بال بچوں پر خرچ کر لیا کروں؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اس طرح خرچ کرنے کو جائز نہیں سمجھتا مگر صرف اس صورت میں جب یہ خرچ دستور کے مطابق ہو۔‘‘ (متفق علیہ)
مریض پر معوذات پڑھ کر دم کرنا:
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ جب بیما رہوتے تو معوذات (سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر خود پر دم کرلیا کرتے تھے۔ پھر جب آپؐ کی علالت نے شدت اختیار کرلی تو میں یہ معوذات پڑھ کر آپؐ کے دست مبارک پر دم کر کے آپ کے جسم اطہر پر آپؐ ہی کا دست مبارک برکت کی توقع میں پھیرا کرتی تھی۔ (متفق علیہ)
قرآن سے محبت، محبت الٰہی کا وسیلہ ہے:
سیدہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے ایک شخص کو امیر لشکر بنا کر کسی مہم پر بھیجا جب وہ امامت کرتے تو ہر نماز کی آخری رکعت میں سورہ اخلاص ضرور پڑھتے۔ جب یہ لشکر واپس آیا تو اس میں شریک کچھ لوگوں نے اس کا ذکر حضورؐ کے سامنے کیا۔ آپؐ نے فرمایا:
’’اس کی وجہ انہی سے پوچھو۔ ’’
جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’’اس سورہ میں خدا کی صفات کا بیان ہے، اس لیے مجھے اس سے محبت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسے زیادہ سے زیادہ پڑھوں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’ان کو بتادو کہ کائنات کا مالک بھی انہیں محبوب رکھتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
لڑکیوں پر شفقت کا ثمرہ:
سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ میرے پاس ایک مسکین عورت آئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ اس عورت نے سوال کیا، لیکن اس وقت میرے پاس دینے کے لیے ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے وہی اسے دے دی۔ اس نے کھجور ان دونوں میں تقسیم کردی اور خود کچھ نہ لیا۔ پھر وہ چلی گئی۔ جب رسول اللہؐ میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس عورت کا تذکرہ کیا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا:
’’جو کوئی ان لڑکیوں کے ذریعے آزمایا جائے او روہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو لڑکیاں اس کے لیے جہنم کی آگ کے مقابلے میں آڑ بن جاتی ہیں۔‘‘
(بخاری، مسلم)
دوسرے کی زمین پر ظلماً قبضہ کرنے کا انجام:
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا کچھ لوگوں کے ساتھ زمین کے سلسلے میں جھگڑا تھا۔ میں نے اس کا ذکر سیدہ عائشہؓ سے کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’ابو سلمہؓ! زمین سے بچو، اس لیے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص کسی دوسرے کی بالشت بھر زمین ناحق لے گا، قیامت کے دن اس کے گلے میں زمین کے ساتوں طبق کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘ (متفق علیہ)
ام المومنین سیدہ حفصہؓ
فجر کی سنتیں:
ام المومنین حفصہؓ بیان کرتی ہیں کہ موذن اذان دے کر بیٹھ جاتا تھا او رصبح شروع ہوجاتی تھی تونبی کریمﷺ نماز باجماعت سے پہلے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (متفق علیہ)
پانچ جانداروں کو ہلاک کرنے کی اجازت:
ام المومنین سیدہ حفصہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’پانچ جاندار ایسے ہیں جن کے ہلاک کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے: کوا، چیل، چوہا، بچھو اور کٹکھنا کتا۔ ( متفق علیہ)
عمرے کے بعد احرام کھولنے کی شرط:
سیدہ حفصہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کیا بات ہے کہ لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا ہے او رآپؐ نے عمرے کے بعد احرام نہیں کھولا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنے سر کے بالوں کو خطمی وغیرہ سے جما لیا ہے او راپنے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال رکھا ہے، لہٰذا جب تک قربانی نہ کرلوں، احرام نہیں کھول سکتا۔‘‘ (متفق علیہ)
دائیں ہاتھ کا استعمال:
سیدہ حفصہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضورؐ دائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے تھے او رلباس بھی پہلے دائیں سمت سے پہنتے تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے کام بائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے۔ (ابوداؤد)