زندگی کیا ہے؟ دنوں، مہینوں، سالوں کا مجموعہ جو ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ شاید اس ترقی یافتہ دور کی طرح انھوں نے بھی تیزی اختیار کرلی ہے۔ گردش لیل و نہار کا عالم یہ ہے کہ ادھر صبح سورج اپنی سفید کرنوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے چاند اپنی ٹھنڈک بھری روشنی لیے پہنچ جاتا ہے۔ رات انسان کو سکون پہنچانا چاہتی ہے کہ دن اپنی مصروفیات، دوڑ دھوپ لیے بے چینی کے ساتھ حاضر ہوجاتا ہے۔ تیزی سے گزرتے ہوئے ان اوقات نے آج انسان کو حیران کردیا ہے۔
کہا اور سنا جاتا تھا کہ ’’وقت کے پر لگ گئے‘‘ لگتا ہے ابھی تو آپ نے نئے سال ۲۰۰۸ء کا استقبال کیا تھا … اور اب دیکھتے ہی دیکھتے اگلا سال ۲۰۰۹ء آن پہنچا۔ اس پورے عرصے پر غور کریں تو یہی لگتا ہے کہ ’’وقت کے پر لگ گئے۔‘‘ خاص کر اس بات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب سال کی آخری شام ہوتی ہے اور سورج کو غروب ہوتا دیکھا جاتا ہے۔
یوں تو اسلامی سال ماہ محرم سے شروع ہوتا ہے لیکن مومن ان تمام لمحات کو غنیمت جانتا ہے جن میں احتساب کیا جاسکے۔ یہ وہ خاص لمحات ہوتے ہیں، جن میںانسان زندگی کے مختصر ہونے کو محسوس کرتے ہوئے اپنی پچھلی کوتاہیوں پر شرم سار ہوکر اپنی آئندہ کی زندگی کے لیے کچھ منصوبے بناتا ہے، اپنی ذات سے کچھ وعدے کرتا ہے اور آئندہ کے لیے خود کچھ امیدیں باندھتا ہے۔
اسی کی طرف آپؐ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مومن کا ہر دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘ دانا وہ ہوتا ہے جو اپنے حاصل شدہ وقت سے فائدہ اٹھاتا ہے اورپھر ا حتساب کرتا ہے اور بے وقوف ہوتا ہے وہ جو اپنے انمول خزانے کو ضائع کرتا ہے اور پھر افسو س کرتا ہے۔
ہماری زندگی کا ایک اور سال ختم ہوگیا۔ نئے سال میں قدم رکھ کر ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ نئے سال نے دستک دے دی۔ لیکن آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ نے سال کے ۳۶۵ دن کہاں اور کس طرح گزارے؟ آپ نے ان اوقات میں کیا کیا اور آپ کیا کرسکتے تھے؟
احتساب کیجیے کیونکہ کامیابی درحقیقت اسی کا مقدر ہے، جو خدا کی عدالت میں حاضری سے پہلے خود کی عدالت میں احتساب کرتا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ ’’اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ آپ کا احتساب کیا جائے۔‘‘
آپ کا رول کیا رہا؟
٭ اس سال آپ نے اپنی شخصیت کی تعمیر میں کیا رول ادا کیا؟
٭ اپنی ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کیا یا نظر انداز کیا جنھوں نے ہمیشہ آپ کی شخصیت کو داغدار کیا ہے؟
٭ آپ نے اپنی سوچ و فکر کے لیے کون سی راہ ہموار کی؟ مثبت یا منفی؟
٭ ہم ایک ایسے معاشرہ میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں بگاڑ ہے، فسادات ہیں، فرقہ وارانہ منافرت ہے،خاندانی نفرتیں، اونچ نیچ کا فرق، قوم و مذہبیت کے نام پر ہونے والے دل دہلانے والے شرمناک واقعات، انسانی زندگی کی بے حرمتی، خون خرابہ اور قتل و غارت گری ہے۔ ان حالات میں آپ نے اس کی روک تھام کے لیے اور ملک و ملت کی تعمیر میں کیاکردار ادا کیا؟
٭ آپ نے کتنے مجبور و بے بس انسانوں کی مدد کی اور آپ کا وجود کس حد تک دوسرو ںکے لیے باعثِ خیر بنا؟
٭ آج کی نوجوان نسل غلط راہوں پر چلی جارہی ہے، ان حالات میں آپ نے وہ کون سے کام انجام دیے جن سے دوسروں کی رہنمائی ہوسکے اور جن پرآپ فخر محسوس کرسکتے ہیں؟
٭ کہاں تک سستی، کاہلی اورلاپرواہی جیسے امراض سے چھٹکارا حاصل کیا؟
یاد رکھئے اگر آپ اپنی خامیوں پر صرف شرمندہ ہیں، انسانوں سے ہمدردی کا جذبہ بھی آپ کے دل میں ہے، آپ زمانہ کے نشیب و فراز سے واقف بھی ہیں اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کو لے کر حساس بھی لیکن آپ نے اس کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو آپ کی سوچ، جذبات و احساسات سب بے نتیجہ ہیں۔ جنھیں ایک ایسے بے منفعت درخت سے تشبیہ دی جانی چاہیے جس کی نشوونما کے لیے آپ نے سال بھر محنت کی لیکن نہ اس سے کوئی پھل حاصل ہوا، نہ اس کے پھولوں کی مہک نے فضا کو معطر کیا اور نہ اس کاسایہ کسی انسان کے کام آسکا۔
انسان کرنا بہت کچھ چاہتا ہے لیکن کرتا کچھ نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ’’پھر کبھی‘‘ والی سوچ ہے۔
تمام عمر اسی سوچ میں گنوا بیٹھا
کہ زندگی جو ملی ہے تو کوئی کام کروں
انسان اپنے آج کے ہر کام کو کل پر ٹالتا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سوچتا کہ کل کی ذمہ داریوں کا کیا ہوگا۔ قدرت نے انسان کی زندگی کے ہر لمحے کے ساتھ ایک اہم فرض باندھ رکھا ہے اس کو اسی کے وقت میں ادا کرنے ہی میں انسانی زندگی کی ساری کامیابیاں پوشیدہ ہیں۔
آنے والا سال، آنے والے دن اور آنے والے لمحات اپنی ذمہ داریاں، اپنے فرائض اور اپنے تقاضے بھی ساتھ لاتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنے کام کو کل پر ٹالا تو ہوسکتا ہے کہ یا تو کل کی بھاری ذمہ داریوں کو نظر اندازکرنا ہوگا، یا آج کی باقی رہی ذمہ داریاں باقی ہی رہ جائیں گی۔
جب نئے سال میں آپ قدم رکھیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ گزرا ہوا سال آپ کے لیے کتنی فرصت و فراغت اور کتنی سہولتیں لے کر آیا تھا جو اپنے ساتھ لے کر چلا بھی گیا۔ اب نیا سال ہے۔ نئے تقاضے ہیں، نئی نئی الجھنیں و مسائل ہیں۔ بڑھی ہوئی ذمہ داریاں اور ڈھیر سارا افسوس ہے۔ جو اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ شاید آخرت میں بھی ساتھ نہ چھوڑے۔ وقت کی اہمیت اور یادِ الٰہی کی فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے حدیث میں فرمایا کہ ’’آخرت میں اہلِ جنت اگر کسی بات پر افسوس کریں گے تو وہ افسوس صرف ان لمحات پر ہوگا جو انھوں نے دنیا میں اس طرح گزارے ہوں گے کہ ان میں اللہ کو یاد نہ کیا ہوگا۔‘‘
کتابوں میں آیاہے کہ ایک تابعی عامر بن قیس سے ایک دوسرے شخص نے کہا ’’آؤ بیٹھ کر باتیں کریں‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’تو پھر سورج کو بھی ٹھہرالو۔‘‘ یعنی وقت ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ عقلمند وہ ہے جو اس کے ساتھ حرکت کرے نہ کہ اس کے بعد۔حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص ڈرتا ہے کہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے گا، وہ شروع رات میں چل دیتا ہے اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے، وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘
مومن کی تو دعا ہوتی ہے کہ
اللہم بارک لی فی محیای و فی مماتی و فی عملی۔
’’اے اللہ! میری زندگی میں، میری موت میں، اور میرے عمل میں برکت عطا فرما۔‘‘
اس سال کا منصوبہ بنائیے کہ
٭ اس سال ہم اپنے کردار میں ایک بہترین انقلاب لائیں گے۔
٭ اپنی صلاحیتوں کو صحیح رخ پر لگائیں گے۔
٭ سستی، کاہلی اور لاپرواہی جیسے امراض سے خود کو چھٹکارا دلائیں گے۔
٭ ’’پھر کبھی‘‘ جیسی سوچ کو مٹا کر ’’آج اور ابھی‘‘ جیسی فکر اپنے اندر پیدا کریں گے۔
٭ معاشرے کی اصلاح میں ایک بہترین تعمیری کردار ادا کریں گے۔
٭ لوگوں کے لیے ہدایت یافتہ رہنما بنیں گے۔
٭ خدمتِ خلق کو اپنی زندگی کا ایک حصہ بنائیں گے۔
——