احساسِ کمتری کا شکار

ڈاکٹر جاوید احمد

میں ایک ایسے شخص سے واقف ہوں، جسے سب ہی شریف آدمی سمجھتے تھے، وہ شائستہ آدمی تھا اور گھر میں بھی اور باہر بھی لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتا تھا، اسے کوئی ناکامی ہوئی تو اچانک اس شخص کے رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے شوخ اور بھڑکیلے کپڑے پہننے شروع کردیے، اس نے مونچھیں بڑھالیں، جارحیت پسند ہوگیا اور دوسروں پر رعب جھاڑنے لگا۔ اس کا یہ رویہ اپنے خاندان کے اندر اور باہر بھی ایک جیسا تھا، اس تبدیلی سے اس کی بیوی پڑوسی اور اس کے دوست سب حیران رہ گئے۔ کئی دوستوں نے اسے چھوڑ دیا کیوں کہ ان کی نظر میں اس کی عزت جاتی رہی۔ یہ کیفیت چار سال تک رہی پھر وہ بتدریج اپنی پرانی روش پر آگیا۔ مگر اس وقت وہ اپنے پرانے نقصانات اور ناکامیوں کی تلافی کرچکا تھا۔
متضاد رویہ
بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس نے متضاد رویے کا مظاہرہ کیا۔ اسے ناکامی ہوئی تو وہ سخت اور جارحیت پسند ہوگیا، جب وہ کامیاب ہوا تو دوبارہ پرانے رویے کی طرف لوٹ آیا ایسا احساس کمتری کے شکار لوگوں میں ہوتا ہے۔ اپنی شرمندگی اور کمزوریوں کو دوسروں کی نظروں سے چھپانے کے لیے وہ بہروپ بدل لیتے ہیں اور خود کو ایک نقاب کے پیچھے چھپا لیتے ہیں۔ بعض اوقات لوگوں کے ساتھ کافی وقت گزارے بغیر ان کے بارے میں صحیح اندازہ قائم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ گو لوگوں کو ان کے قول کی بجائے ان کے فعل سے پہچاننا بہتر ہوتا ہے تاہم کبھی کبھی ان کا قول بھی ان کے بارے میں بہت سے انکشافات کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امیروں سے نفرت کرنے والا شخص اپنی دولت نہ کماسکنے کی کمزوری کو چھپا رہا ہو، یا فنکاروں کو فضول قرار دینے والا اپنے فنکار بننے کی ناکام خواہش کو چھپا رہا ہو۔ محاورہ ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ اپنے اندر ایک جہان معنی چھپائے ہوئے ہے۔ احساس کمتری مایوسی سے جنم لیتا ہے اور مایوسی اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب انسان حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ جب انسان کی خواہشوں اور حقیقت کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہو اور انسان اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو پھر وہ ایک ردِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے، جسے احساسِ کمتری کہتے ہیں اور جن کا مقصد اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے، ایسا آدمی بظاہر تو بڑا مطمئن اور شائستہ دکھائی دیتا ہے، مگر اندر سے اتنا ہی تضادات کا شکار ہوتا ہے۔
اپنی کمزوریوں کو سمجھیں
ہر شخص خامیوں اور اچھائیوں کا مجموعہ ہوتاہے۔ ہم میں سے مضبوط ترین نظر آنے والے میں بھی کمزوریاں ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے بعض وراثتی ہوتی ہیں جو ہمارے کروموسومز کے ساتھ آتی ہیں، ہم ان کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ انھیں تسلیم کرلینا ہی ٹھیک ہوتا ہے۔ دوسری خامیاں وہ ہوتی ہیں، جو ہمارے ماحول کی وجہ سے ہوتی ہیں، ہم ان کو کسی حد تک بدلنے پر قادر ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے۔ تیسری قسم کی خامیاں وہ ہوتی ہیں جو ہم میں ہمارا سابقہ تجربہ اور ہماری عادات پیدا کرتی ہیں، ہم ان کو بدل سکتے ہیں ان کے حصار سے نکل سکتے ہیں، ہم نئے تجربات کی مدد سے خود کو وسعت دے سکتے ہیں۔ یہ ہمارے بس میں ہے کہ ہم انھیں بدل سکیں۔ بچپن اور جوانی میں ہمارے سامنے بہت سے انتخابات ہوتے ہیں، مگر جوں جوں ہم بوڑھے ہوتے ہیں، یہ انتخابات کم ہوتے چلے جاتے ہیں، اگر ہم ایک سمت میں جانا چاہیں تو ہم کسی دوسری سمت میں نہیں جاسکتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے فیصلہ کرلیں کہ ہمیں کس سمت میں جانا ہے اور پھر اس سمت میں ساری توانائیاں لگادیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے فیصلہ کرلیںکہ ہمیں زندگی میں کیا کرنا ہے، پھر منزل کی طرف جانے والے راستے پر ثابت قدمی سے چل دیں۔ ہماری راہ میں کئی مشکلات ہوں گی مگر ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم خود سے ان مشکلات میں اضافہ نہ کریں، اسی راستے پر اور بھی بہت سے افراد محوِ سفر ہوں گے، ہمیں چاہیے کہ ان کی مدد کریں اور ان کی مدد لیں ایسا نہ ہو کہ ہماری حرکتوں کی وجہ سے وہ ہماری راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔
اپنی کمزوریوں کو تسلیم کریں
اگر آپ اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرلیں تو آپ کی خود ترحمی اور مایوسی ختم ہوجاتی ہے۔ ایک باپ کی مثال میرے سامنے ہے، اس کی ایک بیٹی تھی جس کو مرگی کے دورے پڑتے تھے، اس نے اس کا بہتیرا علاج کراویا مگر بیٹی کو آرام نہ ہوا۔ بیماری کی صورت میں بیٹی کی شادی نہیں ہوسکتی تھی اس لیے باپ نے بیٹی کی بیماری کو چھپائے رکھا اور ایک شخص سے اس کی شادی کردی مگر شادی کے بعد جب بیماری کا راز افشا ہوا تو دونوں کے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے جو آخر طلاق پر منتج ہوئے۔ طلاق کے بعد یہ خاندان ایک اور مسئلے کا شکار ہوگیا۔ اپنی کمزوریوں کا ادراک اور انھیں تسلیم کرنا حقیقی شخصیت کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے، تسلیم کی منزل کے بعد تلافی کا مرحلہ آتا ہے، آپ کی کمزوری آپ کے لیے مہمیز ثابت ہوسکتی ہے جو آپ کو کسی اور سمت میں آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے۔
فطری طور پر جھجک کا شکار آدمی تحقیق کا کام کرسکتا ہے، جہاں اس کی کمزوری یعنی جھجک اس کے لیے رکاوٹ نہیںبنتی بلکہ اس کی مددگار ثابت ہوتی ہے ایک قدرے بدصورت لڑکی اپنی ذہانت اور حاضر جوابی میں اضافہ کرکے زیادہ خوبصورت اور پرکشش دکھائی دے سکتی ہے۔ اپنی کمزوریوں اور معذوریوں کو تسلیم کریں، اس کمزوری کی وجہ سے انھیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور توہین محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اس سمت میں کام کریں جو آپ کی ضروریات کے مطابق ہو۔ یہ احساسِ کمتری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ٹینشن اور پریشانیوں کا واحد حل ہے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں