میں بہت دیر سے گھر کے کاموں میں مصروف تھی۔ یہ میرا روز کا معمول تھا۔ جب میں انسٹی ٹیوٹ سے آتی تو میرا گھر گھمسان کی جنگ کا میدان بنا ہوتا۔ اس لیے مجھے آتے ہی بہت زیادہ مصروف رہنا پڑتا۔ لیکن میرا کام جلدی ہوگیا تو سوچا کہ جلدی سے روٹیاں بھی بنالی جائیں۔ میں باورچی خانے میں آئی اور روٹیاں پکانے لگی۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک بچے کی صدا آئی کہ مجھے کچھ کھانے کو دو میں دو دن سے بھوکا ہوں۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ میرا بڑا بیٹا جو خود ابھی نو سال کاہے، اس نے کہا کہ مما اس کو کچھ کھانے کو دے دیجیے۔ میں حیران ہوئی کہ اتنے سے بچے کے دل میں بھی احساس ہے اور وہ اس بچے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ میں اپنے مین گیٹ پر پہنچی اور اس بچے کو آواز دی۔ وہ ایک دم سہم گیا اور ڈر کر دور ہٹ گیا۔ میں خود بھی بہت گھبرا گئی کہ یہ قصہ کیا ہے! پھر میں نے اسے پیار سے بلایا اور پوچھا کہ بیٹے تم دو دن سے بھوکے کیوں ہو؟ اس نے وجہ بتائی کہ آنٹی میرے ابو مستری کا کام کرتے ہیں اور کئی دن پہلے وہ کام کرتے ہوئے گرگئے، اس وجہ سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اب وہ کوئی کام نہیں کرسکتے، میرے گھر میں چار چھوٹے بہن بھائی اور بھی ہیں جو سب بھوکے بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ اب میرے ابو کچھ عرصے تک کام نہیں کرسکتے، اس لیے اب ہمیں بھوکا رہنا پڑرہا ہے۔
مجھے اس کی بات سن کر بہت افسوس اور دکھ پہنچا کہ ہم کیسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں کہ جہاں ہم پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے ہیں اور وہ بچہ اور اس جیسے کتنے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ میں نے فوراً اس کو کھانے کے لیے دیا تو اس نے یہ کہہ کر کھانا واپس کردیا کہ آنٹی میرے گھر میں سب بھوکے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ اس کھانے کو تھیلی میں ڈال دیں تاکہ ہم سب گھر میں مل کر کھاسکیں۔ اس وقت میں نے اس کو کھانے کو دیا اور دوسرے دن آنے کے لیے کہا۔شام کو جب میرے شوہر آئے تو میں نے ان کو کھانا دیا۔ میرے گھر کے تمام افراد کھانا کھانے لگے۔ مجھے اچانک وہ بچہ یاد آیا تو میں نے اپنے شوہر سے اس کا ذکر کیا۔ وہ بہت افسوس کرنے لگے اور کہا کہ ہم اس کے گھر چلیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے اس بچے کو کل آنے کے لیے کہا ہے تاکہ میں اس کے گھر کا ایڈریس لے لوں۔ پھر میں اور میرے بچے اس بچے کا ذکر لے کر بیٹھے تو میرے دونوں بیٹے اور بیٹی نے کہا کہ ماما کیا ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کھانا پیٹ بھر کر کھائیں اور ہم جیسے اور بہن بھائی اپنے گھروں میں بھوکے رہیں؟ میں نے ان سے کہا کہ بیٹا ہم لوگوں میں احساس کرنے کا جذبہ ختم ہوگیا ہے۔ اگر ہم احساس کرنے لگیں تو ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہ رہے۔
دوسرے دن جب وہ بچہ آیا تو میں نے اس سے اس کے گھر کا ایڈریس لیا اور اسے کھانا دے کر واپس بھیج دیا اور کہا کہ ہم آپ کے گھر شام میں آئیں گے۔ پھر میں اور میرے شوہر شام کو اس کے گھر گئے اور اس کے گھر کے حالات پر نظر ڈالی تو بہت افسوس ہواکہ اس کے گھر کے حالات تو بہت خراب ہیں اور اس کے والد صاحب کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ہم ان کو لے کر اسپتال پہنچے، وہاں ان کو ایڈمٹ کرایا اور ان کی بیوی کو تھوڑا بہت خرچ دیا اور اپنے گھر آگئے۔ گھر آکر بھی دل بس یہ دعا کرتا رہا کہ اے اللہ اس گھر پر اپنا رحم فرما۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے، جنھیں روٹی کی ضرورت ہے، کپڑوں کی ضرورت ہے۔ کاش ہم ایک ہوکر سب کی مدد کرسکیں تو ہمارے ملک میں کوئی بچہ بھوکا نہ رہے اور کوئی غربت سے نہ مرے، کوئی اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور نہ ہو۔
——