باپ نے بڑے فخر اور مان کے ساتھ اس کا نام بہادر شاہ ظفر رکھا تھا مگر یار لوگوں نے اسے بہادر شاہ ڈفر بنا دیا۔ اس میں قصور کہنے والوں کا نہیں، وہ واقعی ڈفر تھا۔ اس نے کبھی کوئی کام سوچ سمجھ کرنہیں کیا۔ اس کے نزدیک سوچ بچار کرنا دنیا کا فضول ترین کام تھا۔ چناںچہ وہ جب بھی کوئی کام انجام دیتا تو سوچنے کی زحمت گوارا نہ کرتا۔ نتیجہ اس کی توقع کے برعکس نکلتا۔مگر وہ بھی اپنی نوعیت کا واحد انسان تھا۔ ہمیشہ اپنی حماقت تقدیر کے سرتھوپ کر بری الذمہ ہو جاتا۔
بھلے وقتوں میں اس نے جیسے تیسے میٹرک تک تعلیم حاصل کر لی تھی۔ چناںچہ اسے ایک سرکاری دفتر میں کلرک کی ملازمت مل گئی۔ ملازمت کے متعلق اس کا خیال تھا کہ یہ باپ کی پھٹکار اور ماں کی دعائوں کا ثمر ہے۔ لیکن کچھ بدخواہ اور حاسد قسم کے لوگ برملا کہتے، یہ نوکری اس کی خداداد حماقتوں کا نتیجہ ہے۔
وہ لوگوں کی باتوں کا قطعی برا نہ مانتا۔ جانتا تھا کہ لوگوں کا کام ہی باتیں بنانا ہے۔ اگر سماعتوں کو ایسی باتوں پر غور کرنے کی زحمت نہ دی جائے تو دل کو تکلیف نہیں ہوتی۔ سو وہ ایسی باتوں پر توجہ نہ دیا کرتا۔ کلرک کی ملازمت اس کے لیے سود مند ثابت ہوئی۔ اس میں عقل استعمال کرنے کی قطعی ضرورت نہیں پڑتی اور یہی شے اس کے پاس نہیں تھی۔
اس کے ہاتھ پائوں پہلوانوں کی طرح مضبوط تھے۔ اس میں بہترین پہلوان بننے کی تمام خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ لیکن ڈفر کا اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ دفتر میں اس کی زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ بس ہفتے میں ایک دو بار بے عزتی ہو جایا کرتی جو اس کے نزدیک معیوب بات نہیں تھی۔ اس کے بقول بے عزتی صحت مند رہنے کے لیے بہت ضروری تھی۔ ہفتے میں کم از کم ہر شخص کو ایک بار ضرور بے عزتی کرانی چاہیے ورنہ آدمی کا نفس موٹا اور معدہ خراب ہوجاتا ہے اور وہ الٹے سیدھے خواب دیکھنے لگتا ہے۔
ایک دن اس نے دفتر سے تنخواہ کے ۲۰ہزار روپے وصول کیے۔ وہ پھر ایک شاپنگ پلازہ پہنچ گیا جہاں سے وہ جوتے خریدنا چاہتا تھا۔ پلازہ کے سامنے لوگوں کا جمگھٹا لگا تھا۔ وہ سب سامنے سڑک کے کنارے کھڑی موٹر سائیکل کو یوں دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی اڑن طشتری ہے اور غلطی سے زمین پر اتر گئی۔ لوگوں کی آنکھوں میں حیرت اور چہروں پر خوف طاری تھا۔
قریب جا کر اس نے ایک نوجوان سے استفسار کیا تو وہ بولا ’’یہ لاوارث موٹرسائیکل ہے، پتا نہیں کون کم بخت یہاں چھوڑ گیا۔ اس کا بٹوا بھی نشست پر پڑا ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’تو اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟ بٹوے میں اس کا شناختی کارڈ موجود ہو گا۔ نکال کر دیکھ لو، سب معلوم ہو جائے گا۔‘‘
’’تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے؟‘‘ نوجوان نے گھورا۔ ’’یہ کیسی بات کر رہے ہو؟
آج کل تو کوئی پاگل کتا اور پولیس والا بھی لاوارث موٹر سائیکل کے قریب نہیں پھٹکتا تو ہم کیسے جائیں؟کیا پتا اس میں کسی نے بم فٹ کر رکھا ہو۔ ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ ’’اگر یہ بات ہے تو میں دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ وہ آگے بڑھا۔ ’’ابھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ موٹر سائیکل کس کی ہے؟‘‘ ’’رک جائو احمق!‘‘ نوجوان نے اسے بازو سے پکڑ لیا۔ ’’کیوں کتے کی موت مرنا چاہتے ہو؟‘‘
وہ بولا ’’کتے کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں اور میری دو ہیں۔ میں کتے نہیں آدمی کی موت مروں گا۔ چھوڑ دو مجھے، میں ضرور معلوم کروں گا کہ یہ موٹر سائیکل کس کی ہے؟‘‘ نوجوان اسے بازوئوں میں جکڑتے ہوئے چلایا ’’بھائیو! اس پاگل کو روکو، یہ موٹر سائیکل کی نشست پر پڑا بٹوا دیکھنا چاہتا ہے۔ مجھے یہ پاگل خانے سے بھاگا ہوا لگتا ہے۔ خدارا! میری مدد کرو۔‘‘ لوگوں نے جب یہ سنا کہ ایک پاگل موٹر سائیکل کے قریب جا رہا تو وہ بدحواس ہو کر مختلف اطراف میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ نوجوان نے لوگوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ بھی اسے چھوڑ کر یوں بھاگا جیسے سو میٹر کی دوڑ میں حصہ لینے والا کھلاڑی بھاگتا ہے۔ اب میدان صاف تھا۔ وہاں دور دور تک کوئی آدمی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ اطمینان سے چلتا موٹر سائیکل کے قریب پہنچا اور بٹوا اٹھا کر دیکھنے لگا۔
بٹوے میں چند مڑے تڑے کاغذ اور نصف درجن کے لگ بھگ ملاقاتی کارڈ بھرے ہوئے تھے۔ ابھی اس نے تین عدد کارڈ ہی دیکھے تھے کہ اچانک ایک خطرناک صورت شخص اس کے سرپر پہنچ گیا۔ ’’اوئے چور کے بچے! تمھیں ہمت کیسے ہوئی میرا بٹوا اٹھانے کی؟‘‘ وہ اسے گریبان سے پکڑتے ہوئے بولا ’’چوری کرتے ہو اور وہ بھی دن دہاڑے، شرم نہیں آتی؟‘‘ ’’نن… نہیں… جناب…مم… میں چور نہیں۔‘‘ اس نے گھبرا کر جواب دیا۔ ’’بکواس مت کرو۔‘‘ وہ گرجا۔ ’’دلاور بھائی نام ہے میرا، مار مار کر حلیہ بگاڑ دوں گا۔‘‘
’’دلاور بھائی! خدا کی قسم… مم… میں چوری نہیں کر رہا تھا۔‘‘ وہ گڑگڑایا۔ ’’میں تو آپ کا شناختی کارڈ تلاش کررہا تھا۔ دراصل میں…‘‘ ’’چپ۔‘‘ دلاور بھائی نے قطع کلامی کی۔ ’’میرے شناختی کارڈ کے ساتھ تمھارا کیا تعلق ؟ بول… جواب دے؟‘‘ ’’وہ جی… مم… میں… میں…‘‘ اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن دلاور بھائی نے اس کے ہاتھ سے بٹوا جھپٹا اور کھول کر دیکھنے لگا۔ ’’اوئے چور!‘‘ دلاور بھائی چلایا۔ ’’ا س میں پورے بیس ہزار روپے کی رقم تھی۔ وہ کہاں گئی؟‘‘
’’مم… میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس میں ایک روپیا بھی نہیں تھا۔‘‘ اس نے ہمت کا مظاہرہ کیا۔ ’’آپ مجھ پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں۔‘‘ ’’نام کیا ہے تمھارا؟‘‘ دلاور نے پولیس والوں کے انداز میں پوچھا۔ ’’بہادر شاہ ظفر۔‘‘
’’وہ جسے انگریزوں نے رنگون میں پھڑکا دیا تھا؟‘‘ ’’نن… نہیں جی… میں دوسرا ہوں۔‘‘ ’’ہوں۔‘‘ دلاور نے ذو معنی انداز میں سرہلایا اور پھر ٹھوڑی کھجاتے ہوئے بولا۔ ’’سنو بھئی بہادر شاہ ڈفر…‘‘ ’’ڈفر نہیں جی ظفر۔‘‘ اس نے تصحیح کی۔ ’’ایک ہی بات ہے۔‘‘ دلاور بولا۔ ’’اب میری بات غور سے سنو۔ اگر تم نے میری رقم چرائی ہے تو چپ چاپ واپس کر دو۔ میں تجھے معاف کر دوں گا ورنہ بات تھانے تک جائے گی۔ پھر تمھیں وہ چوریاں بھی تسلیم کرنا پڑیں گی جو تمھارے باپ دادا نے کی ہوں گی۔‘‘
’’میں نے کوئی چوری نہیں کی،خدا کے لیے میرا اعتبار کریں۔ اس بٹوے میں یہی کچھ تھا جو تمھارے سامنے ہے۔‘‘ ’’اس کا مطلب ہے کہ تم سیدھی طرح نہیں مانو گے؟‘‘ ’’مم… میں کوئی بھی قسم کھانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ وہ گڑگڑایا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ دلاورجیب سے موبائل فون نکالتے ہوئے بولا ’’اگر تم خوشی سے تھانے کی سیر کرنا چاہتے ہو تو یونہی سہی۔‘‘
٭٭
بہادر شاہ ڈفر گزشتہ تین گھنٹوں سے حوالات میں بند تھا۔ تھانہ انچارج خون خوار قسم کا انسپکٹر تھا۔ اس نے بہادر شاہ ڈفر کی تمام منتوں اور قسموں کو سر کی ایک ہی جنبش سے رد کر دیا۔ تلاشی لینے پر اس کی جیب سے واقعی بیس ہزار روپے کی رقم برآمد ہوئی۔ چناںچہ انسپکٹر نے اسے چوری کرنے کے جرم میں قید کر دیا۔ دن کے دو بجے اس کا باپ دو پڑوسیوںکی معیت میں تھانے پہنچا اور انسپکٹر کی منت سماجت کرنے لگا۔
انسپکٹر نے اس کی بات توجہ سے سنی۔ مگر جونہی وہ خاموش ہوا انسپکٹر اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ’’بزرگو! ایسے کیسے چھوڑدیں جب کہ اس سے مال مسروقہ بھی برآمد ہو چکا۔ اس کے خلاف تو ایف آئی آر کٹے گی، کم سے کم دو سال اسے بڑے گھر میں رہنا پڑے گا۔‘‘ ’’جناب! مہربانی فرمائیں، میں آپ کے ہاتھ جوڑتا ہوں۔‘‘
’’نا۔‘‘ انسپکٹر نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’میں قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ اسے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔‘‘ ’’اس کی نوکری چلی جائے گی جناب۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔ ’’خدا کے لیے اس پر نہ سہی مجھ غریب پر ہی رحم کر لیں۔ بیٹے کی آمدن ہی سے میرا گھر چلتا ہے۔ اس کی ملازمت چلی گئی تو میرا چولھا بجھ جائے گا۔ میں آپ کے پیروں پر گرنے کو تیار ہوں۔ مجھ پر رحم کریں۔‘‘ ’’میں مجبور ہوں بابا جی۔۔۔کاش کہ یہ میرے اختیار میں ہوتا۔‘‘
بابا جی رونے لگے۔ ساتھ ساتھ انسپکٹر کی منت سماجت بھی جاری رکھی۔ غیرمتوقع طور پر انسپکٹر کا دل پسیج گیا۔ ’’بس بابا جی بس۔‘‘ انسپکٹر نے پتلون کی جیب سے رومال نکالا اور اپنی پلکیں صاف کرتے ہوئے بولا ’’آ پ نے تو مجھے بھی رلا دیا۔ ٹھیک ہے ،میں آپ کے بیٹے کو شخصی ضمانت پر چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ مگراسے اچھی طرح سمجھا دیں کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے۔‘‘
’’مم… میں سمجھا دوں گا جی۔‘‘ بابا جی نے خوشی سے کانپتی ہوئی آوازمیں کہا۔ ’’آ پ کا بہت بہت شکریہ انسپکٹر صاحب! میں آپ کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھوں گا۔‘‘ بابا جی ضمانتی ساتھ لے کر آئے تھے۔ پولیس والوں نے مچلکہ تیارکیا، ضابطے کی کارروائی مکمل کی اور پھربہادر شاہ ڈفر کو حوالات سے نکال انسپکٹر کے سامنے پیش کر دیا۔ انسپکٹر نے پولیس والوں کے روایتی انداز میں اسے لیکچر دیا اور آخر میں بولا ’’اب جائو آئندہ کبھی ایسا مت کرنا ورنہ سیدھے جیل جائوگے۔‘‘
وہ باپ اور ضمانتیوں کے ساتھ باہر نکلا تو معاً اس کی نظر ایک سپاہی پر پڑی۔ وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ باپ نے کہا ’’کیابات ہے، تم اس پولیس والے کو اتنی حیرانی سے کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ ’’یہ… یہ وہی ہے، جس نے مجھے پولیس کے حوالے کیا تھا۔میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ ’’بکواس مت کرو۔‘‘ باپ نے اسے ایک تھپڑ جڑا اور پھر کھینچتا ہوا باہر لے گیا۔
٭٭
’’کچھ دیر بعد وہ سپاہی مسکراتا ہوا اندرداخل ہوا اور جیب سے بیس ہزار روپے کی رقم نکال انسپکٹر کے سامنے میز پر رکھ دی۔ دونوں نے زوردار قہقہہ لگایا اور پھر رقم تقسیم کرنے لگے۔lll