احکامِ حج برائے خواتین

ساجدہ فلاحی، اعظم گڑھ

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع علیہ سبیلا و من کفر فان اللّٰہ غنی عن العالمین۔ (آل عمران:۹۷)
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تو تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
حج کو حدیثِ مبارکہ میں مسلم خواتین کے لیے جہاد کے مثل قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ انھوںنے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: ’’یا رسول اللہ! کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ ان پر جہاد ہے جس میں قتال نہیں ہے۔ وہ ہے حج و عمرہ۔ ‘‘ (احمد، ابن ماجہ) دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ سے ہی مروی ہے: ’’حضرت عائشہؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم جہاد کو افضل عمل سمجھ رہے ہیں تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپؐ نے فرمایا : افضل جہاد حج مبرور ہے۔‘‘ (بخاری)
حج کے وہ احکام جو عورت کے لیے خاص ہیں:
محرم
محرم کی موجودگی جس کے ساتھ وہ سفر کرسکے جیسے شوہریا دوسرے محرم رشتہ دار۔ اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریمﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت (تنہائی) میں نہ رہے مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار ہو، اور عورت سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو، پس ایک آدمی کھڑا ہوا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میری بیوی حج کے لیے نکل رہی ہے اور میں نے فلاں غزوہ کے لیے نام لکھوالیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: پس جاؤ تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ (متفق علیہ)
اسی طرح عبداللہ بنِ عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عورت تین دن کا سفر نہ کرے، مگر اس کے ساتھ محرم ہو۔‘‘
مزید براں محرم کے لیے شرط ہے کہ وہ عاقل، بالغ اور مسلم ہو، پس اگر محرم کا وجود ممکن نہ ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ کسی کو نائب بنادے جو اس کے بدلے حج کرے۔
اجازت و نیابت
اگر حج نفل ہو تو شوہر کی اجازت ضروری ہے، اس لیے کہ حج کے سبب سے اس کے شوہر کا حق فوت ہوجائے گا۔ ابن المنذر نے کہا ہے کہ:اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شوہر کو حج تطوع سے منع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس لیے کہ حق زوج واجب ہے اور غیر واجب کے لیے واجب کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔
حج وعمرہ میں عورت کے لیے مرد کی نیابت کرنا درست ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ (مجموع الفتاویٰ ۲۶/۱۳) میں رقم طراز ہیں:
’’عورت کے لیے دوسری عورت کی طرف سے حج کرنا جائز ہے خواہ وہ اس کی بیٹی ہو یا کوئی اور ، اس پر علماء کا اتفاق ہے۔‘‘ اسی طرح عورت کا مرد کی جانب سے حج کرنا ائمہ اربعہ اور جمہورعلماء کے نزدیک جائز ہے جیسا کہ نبیؐ نے ایک خشعمی عورت کو اس کے والد کے بدلے حج کرنے کا حکم دیا جبکہ اس نے کہا کہ ’’اے اللہ کے رسولؐ! بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے اور یہ فریضہ میرے والد کے لیے بھی ثابت ہوتا ہے۔ تو آپؐ نے اس کو حکم دیا کہ اپنے والد کی جانب سے حج کرے باوجود اس کے کہ عورت کا احرام مرد کے احرام سے مختصر ہے۔
حیض یا نفاس
اگر عورت کو حج کے سفر میں احرام کے وقت حیض یا نفاس لاحق ہوجائے تو دیگر خواتین کی طرح وہ بھی احرام باندھے گی اس لیے کہ احرام کے لیے طہارت شرط نہیں ہے۔المغنی ۳/۲۹۳، ۲۹۴ میں درج ہے :’’احرام کے لیے غسل کرنا خواتین کے لیے بھی اسی طرح مشروع ہے جس طرح مردوں کے لیے، اس لیے کہ یہ حج کے مناسک میں سے ہے۔ اور حائضہ اور نفساء کے حق میں مزید اس کی تاکید ہے جیسا کہ حضرت جابرؓ سے مروی ہے: ’’ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس کے یہاں محمد بن ابی بکر کی پیدائش ہوئی تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس کہلا بھیجا کہ میں کیا کروں؟ آپؐ نے جواب دیا غسل کرلو اور ضرورت کے حساب سے تیار ہوکر احرام باندھ لو۔ ‘‘ (متفق علیہ)
دوسری حدیث عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’حائضہ اور نفساء جب میقات پر پہنچ جائیں تو احرام باندھ لیں اور تمام مناسک حج کو پورا کریں سوائے خانۂ کعبہ کے طواف کے۔ ‘‘ (ابوداؤد)
غسل اور صفائی
نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہؓ کو حکم دیا کہ حج سے حلال ہونے کے لیے غسل کریں اس حال میں کہ وہ حائضہ تھیں۔
عورت احرام کے وقت وہ سب کچھ انجام دے گی جو مرد انجام دیتے ہیں مثلاً نہانا دھونا اور ناخن وغیرہ تراشنا تاکہ حالت احرام میں وہ اس کی محتاج نہ ہو۔ اسی طرح ہلکی خوشبو کے استعمال میں بھی اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ’’ہم رسول ﷺ کے ساتھ نکلتے تھے تو احرام کے وقت اپنی پیشانی پر مشک کی پٹی باندھ لیتے تھے۔ پس جب کسی کو پسینہ ہوتا تو مشک اس کے چہرے پر بہتی نبی کریمﷺ اسے دیکھتے تو ہمیں منع نہ فرماتے۔‘‘ (ابوداؤد)
نقاب
عورت احرام کی نیت کے وقت برقع اور دستانے نہ پہنے۔ نبی کریمﷺ کے اس قول کی بنا پر جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’احرام والی عورت نقاب نہیں پہنے گی۔‘‘ (بخاری) ’’نقاب‘‘ سے مراد وہ کپڑا ہے جس میں دیکھنے کے لیے دو سوراخ ہوں۔ عربی میں ’نقب‘ کے معنی سوراخ کے ہیں۔ برقع جو انسان کے پورے بدن کو ڈھانکتا ہے۔
فقہاء اس بات کے قائل ہیںکہ نامحرم مردوں سے پردہ کے لیے اپنے چہرے کو دوپٹہ یا کسی کپڑے سے پوشیدہ رکھے، اس لیے کہ یہ ستر میں سے ہے اور حالتِ احرام میں بھی اس کو ڈھاکنا واجب ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’عورت مکمل طور سے پردے میں رہنے کی چیز ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسا لباس پہنے جو اس کی مکمل ستر پوشی کرے، (اونٹ کی سواری ہے تو) کجاوہ میں سایہ حاصل کرے، لیکن نبی کریمؐ نے نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ پس اگر عورت کسی ایسی چیز سے چہرہ ڈھانک لے یا آڑ کرلے جو چہرے کو نہ چھوئے تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔ اور اگر وہ چہرے کو چھوئے، تو بھی درست اورجائز ہے۔ عورت جس چیز سے پردہ کررہی ہے اس کو لکڑی ہاتھ یا کسی اور چیز کے ذریعے چہرے سے الگ رکھنے کا تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات چہرے سے الگ رکھنے کااہتمام کیے بغیر اپنے چہروں پر پردہ کے لیے کپڑا لٹکاتی تھیں اور اہلِ علم میں سے کسی نے آپؐ کی طرف منسوب کرکے یہ بات نہیں کہی ہے کہ ’’عورت کا احرام اس کے چہرے میں ہے۔‘‘ یہ صرف بعض سلف سے منقول ہے۔
لباس
عورت کے لیے حالتِ احرام میں ہر وہ لباس پہننا جائز ہے جو عام طور پر خواتین پہنتی ہیں، مگر یہ کہ اس میں زینت نہ ہو۔ مردوں کے لباس سے مشابہ نہ ہو۔ اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ اس کے اعضاء نمایاں ہوں۔ اور اتنے باریک نہ ہوں کہ ستر پوشی ممکن نہ ہو، اس قدر چھوٹا نہ ہو کہ ہاتھ پیر کھلتے ہوں بلکہ لباس مکمل ہو، موٹا اور کشادہ ہو۔ اسی طرح عورت کے لیے کسی متعین رنگ کا کپڑا پہننا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ سبز، سرخ و سیاہ ہر اس رنگ کے کپڑے پہن سکتی ہے جو عام طور پر خواتین پہنتی ہیں۔
تلبیہ
احرام کے بعد تلبیہ اس کے لیے سنت ہے اسی قدر آواز کے ساتھ جس کو وہ خود سن سکے۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے: ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت تلبیہ میں اپنی آواز کو بلند نہ کرے، فتنہ کے خوف سے آواز بلند کرنا اس کے لیے مکروہ ہے۔
استیلام
طواف اس کے لیے واجب ہے کہ مکمل ستر پوشی ہو، آواز ہلکی رکھے اور نگاہیں پست ہوں۔ مردوں کے ساتھ مزاحم ہونے سے بچے، خاص طور سے رکن یمانی اورحجرِ اسود کے پاس۔
عورت کا بھیڑ بھاڑ سے بچتے ہوئے مطاف (طواف کی جگہ) کے کنارے کنارے طواف کرنا زیادہ افضل ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ مزاحمت کے ساتھ کعبہ کے قریب سے طواف کرے مردوں سے مزاحم ہونا اس کے لیے حرام ہے رہا کعبہ سے قریب ہونا اور حجرہ اسود کا بوسہ لینا تو بہ سہولت انجام دینا سنت ہے۔
امام نوویؒ (مجموع ۸/۳۸ میں) تحریر کرتے ہیں: ’’ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ عورتوں کے لیے حجرِ اسود کا بوسہ صرف اس وقت مستحب ہے جبکہ مطاف رات کے وقت یا جب بھی خالی ہو بصورت دیگر اس میں خود ان کے لیے بھی ضرر ہے اور دوسروں کے لیے بھی۔
سعی
ابن قدامہؒ نے المغنی ۳/۲۹۴ میں لکھا ہے: ’’عورت کے لیے طواف وسعی میں صرف چلنا ہے، دوڑنا نہیں ہے۔‘‘
ابن المنذر نے کہا ہے کہ ’’اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کے لیے طواف کعبہ اور سعی صفا و مروہ کے دوران رفل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لیے اضطباع ہے اس لیے کہ ان دونوں ہی میں عضو کا ظاہر ہونا ہے اور عورت کا حکم ستر پوشی پر مبنی ہے جبکہ رمل اور اضطباع میں ستر کھل جاتا ہے۔‘‘
حائضہ عورت مناسک حج میں سے کون سے امور انجام دے سکتی ہے اور کن چیزوں سے اجتناب کرے گی؟ حائضہ عورت تمام مناسک حج ادا کرے گی، مثلاً احرام، وقوف عرفہ، مزدلفہ میں رات گزارنا، اور رمی جمار کرنا البتہ یہ کہ وہ خانۂ کعبہ کا طواف نہیں کرے گی حتی کہ پاک ہوجائے نبی کریمؐ کے اس قول کی بنا پر جو آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے اس وقت فرمایا تھا جبکہ وہ حائضہ ہوگئی تھیں۔’’تم وہ سب کچھ کرو جو حجاج کرام کرتے ہیں مگر یہ کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا یہاں تک کہ پاک ہوجاؤ۔‘‘ (بخاری و مسلم) دوسری روایت ہے کہ ’’تم وہ مناسک پورے کرو جو حجاج کرام کرتے ہیں مگر بیت اللہ کاطواف نہ کرنا یہاں تک کہ غسل کرلو۔‘‘
البتہ اگر عورت طواف مکمل کرچکی تھی اور حیض ظاہر ہوا تو وہ اسی حالت میں سعی کرسکتی ہے اس لیے کہ سعی کے لیے طہارت کی شرط نہیں لگائی جاتی۔
مغنی ۵/۲۴۶ پر ذکر ہے کہ اکثر اہلِ علم کے مطابق سعی کے لیے طہارت شرط نہیں ہے جن میں عطاء، امام مالک، امام شافعی اور ابو ثور رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت عائشہؓ اور ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ’’جب عورت بیت اللہ کاطواف کرے اور دو رکعت نماز پڑھ لے پھر حائضہ ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ صفا و مروہ کا طواف کرے۔‘‘
رمی
خواتین کے لیے جائز ہے کہ چاند ڈوب جانے کے بعد مزدلفہ سے گروہ کی شکل میں روانہ ہوجائیں اور جمرہ عقبہ کی رمی کرلیں (ازدحام سے بچنے کے لیے)
امام شوکانیؒ نے نیل الاوطار ۵/۷۰ میں لکھا ہے: ’’دلائل سے ثابت ہے کہ رمی کا وقت طلوع شمس کے بعد ہے البتہ جن کے لیے رخصت ہے ان کے لیے اس سے پہلے بھی جائز ہے جیسے خواتین اور ضعیف لوگ۔‘‘
حلق
عورت حج و عمرہ کے لیے چند انگلیوںکے بقدر اپنے بالوں کو کاٹے گی، حلق اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے۔’’رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنے سر کو منڈوائے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’خواتین کے لیے حلق (جڑ سے بال کاٹنا) نہیں ہے ان کے لیے صرف تقصیر (چھو کرنا) ہے۔
مسئلہ: حائضہ عورت بھی رمی جمرہ عقبہ اور تقصیر کے بعد احرام کھول دے گی اور اس کے بعد وہ سب حلال ہوجائے گا جو احرام کی وجہ سے حرام تھا۔ البتہ وہ طواف افاضہ سے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی اور اگر اس نے شوہر کے لیے خود کو حلال کرلیا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا۔
اگر عورت افاضہ کے بعد حائضہ ہوجائے تو طواف وداع اس سے ساقط ہوجائے گا جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے: ’’صفیہ بنت حی طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہوگئیں تو میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے کہی، آپؐ نے کہا: کیا وہ ہم کو روک رہی ہیں؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں پھر حائضہ ہوئی ہیں تو آپ نے فرمایا: پس وہ چلی چلیں ان کے لیے اجازت ہے۔‘‘ (متفق علیہ) خواتین کے لیے مسجد نبویؐ کی زیارت اور اس میں نماز و دعا مستحب ہے لیکن قبر کی زیارت اس کے لیے جائز نہیں ہے اس لیے کہ ان کو زیارت قبور سے منع کیا گیا ہے۔
شیخ عبداللہ بن باز نے اپنی منسک میں زیارت قبر رسولؐ کے تعلق سے ذکر کیا ہے: ’’یہ زیارت خاص طور سے مردوں کے حق میں مشروع ہے، رہیں خواتین تو ان کے لیے قبور میں سے کسی کی زیارت نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ سے ثابت ہے کہ ’’رسول اللہ! نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے اور ان پر مساجد بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘ رہا یہ کہ مسجد رسولؐ میں نماز کے لیے مدینہ کا قصد کرنا اور اس میں دعائیں مانگنا، یہ تمام لوگوں کے حق میں یکساں مشروع ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں