چیری بلیر اور اسلام
چیری بلیئر برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ ہیں ان کے حوصلے بھی اپنے جنگجو شوہر کی طرح ہیں۔ لیکن بیان دینے میں ایک سفارت کار کی طرح ماہر ہیں کیونکہ وہ ایک اچھی وکیل بھی ہیں۔ ۷؍ستمبر کو دونوں لوگ ہندوستان کے دورے پر آئے۔ چیری بلیئر نے دلی میں کہا کہ انھیں مذہب اسلام بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن اپنے شوہر کی طرح وہ معقول مذہب اور غلط تشریح والے مذہب میں فرق کرتی ہیں۔ اپنے پیشہ وکالت میں چیری بلیئر نے مسلم لڑکیوں کے لیے اسکولوں میں اسلامی لباس پہننے کی حمایت کی۔ حالانکہ اس معاملے میں ان کی بیٹی ان کی مخالف ہے لیکن چیری بلیئر کہتی ہیں کہ ہر مذہبی آدمی کو اس کے مذہبی پسند کو اختیار کرنے کا حق ہے۔چیری بلیئر ایک ساتھ ماں، وکیل اور ایک اہم وزیر اعظم کی بیوی کا رول ادا کرتے ہوئے زندگی گزار رہی ہیں۔
اترپردیش میں مسلم طالبات کی پیش رفت
۱۹۷۶ء میں اترپردیش کے نوکالجوں سے ملا کر ۵۸۸ مسلم لڑکیاں انٹر بورڈ امتحان میں شریک ہوئی تھیں جن میں سے ۳۶۲ یعنی ۶۲ فیصد پاس ہوئی تھیں اور صرف انڈسٹریل مسلم کالج میں ایک عدد فرسٹ ڈویژن لائی تھیں۔ اب ۲۰۰۵ء میں ان ہی نو کالجوں سے ملاکر۱۶۶۵ مسلم لڑکیاں انٹربورڈامتحان میں شریک اور ۱۶۴۳ یعنی ۹۹ فیصد پاس ہوئیں اور ۷۱۴ یعنی ۴۳ فیصد فرسٹ ڈویژن لائیں۔
گویا بورڈ امتحان میں شریک ہونے والی مسلم لڑکیوں کی تعداد پونے تین گنی سے کچھ زیادہ ہوگئی اور پاس ہونے والی مسلم لڑکیوں کی تعداد ساڑھے چارگنی سے کچھ زیادہ ہوگئی۔فرسٹ ڈویژن لانے والی مسلم لڑکیوں کی تعداد ایک عدد سے بڑھ کر ۷۱۴ ہوگئی یعنی اضافہ سات سو گنا سے زیادہ ہے۔ اب ان کالجوں کے نتائج پر نظر ڈالیں۔ ۱۹۷۶ء میں صرف ایک کالج میں صرف ایک مسلم طالبہ فرسٹ ڈویژن لائی تھی۔ باقی آٹھ میں فرسٹ ڈویژن صفر تھیں۔ لہٰذا تب ہم صرف پاس فیصد کے اعتبار سے دیکھتے تھے کہ کون سے کالج کا نتیجہ کتنا بہتر یا کتنا کمتر ہے۔ ۲۰۰۵ء میں جبکہ اوسط پاس ۹۹ فیصد ہوچکا ہے تو پاس فیصد کا موازنہ بے معنی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون سے کالج میں فرسٹ ڈویژن کا تناسب کتنا ہے۔ مسلم لڑکیوں کا فرسٹ ڈویژن کا تناسب سب سے اچھا قدوائی میموریل کالج، الہ آباد میں ہے۔ ۵۷ میں ۴۵ یعنی اناسی فیصد، بیگم خیر کالج، بستی میں ۸۶ میں ۴۹ یعنی ستاون فیصد، امام باڑہ مسلم کالج، گورکھپور میں ۵۷۱ میں ۲۷۹ فیصد اور پھر انڈسٹریل مسلم کالج،سہارنپور میں ۱۰۷ میں ۵۳ یعنی قریب پچاس فیصد۔ ان چار کالجوں میں مسلم لڑکیوں کا فرسٹ ڈویژن کا تناسب نو کالجوں کے اوسط ۴۳ فیصد سے بہتر ہے۔
ظہیرہ شیخ کو لالچ دیا تھا
سپریم کورٹ کی ایک کمیٹی نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ گجرات قتل عام میں بیسٹ بیکری کیس کی گواہ ظہیرہ شیخ کو ۱۸ لاکھ روپے دئے گئے۔ گجرات فسادات میں ظہیرہ شیخ کے ۱۴ گھر والوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا اور ظہیرہ شیخ اس مقدمہ کی واحد گواہ ہے۔ ظہیرہ اس مقدمے میں کئی بار بیانات بدل چکی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے مقدمے کی پیروی کرنے والی تیستاسیتلواڈ پر بھی الزام لگایا گیا ہے۔ لیکن ظہیرہ شیخ کے بدلتے بیانات کی وجہ جاننے کے لیے سپریم کورٹ نے کمیٹی تشکیل دی۔ ادھر تہلکہ ڈاٹ کام نے اپنے خفیہ کیمروں سے انکشاف کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے قریبی لوگوں نے ظہیرہ شیخ کو بیان بدلنے کے لیے لالچ دیا یہاں تک کہ اسے بڑودا میں ایک مکان بھی دیا گیا۔ سپریم کورٹ کمیٹی کی اس رپورٹ کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ گجرات فسادات کے شکار افراد کے مقدمے بے اثر بنانے کے لیے بی جے پی کی ریاستی حکومت کتنی سرگرم ہے۔ تہلکہ ڈاٹ کام نے اپنے ۳؍ستمبر کے شمارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔
۱۲۶ فلسطینی خواتین اسرائیلی حراست میں
فلسطین انفارمیشن سنٹر نے اسرائیلی قید میں فلسطینی خواتین کی صورتحال پر رپورٹ جاری کی ہے اس رپورٹ کے مطابق ۱۲۶ فلسطینی خواتین اسرائیلی حراست میں ہیں۔ ان میں سے ۸؍خواتین معذور بھی ہیں۔ ان خواتین کو تفتیش کے دوران اور تفتیش کے بعد بھی سخت قسم کی جسمانی اور نفسیاتی اذیت دی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تفتیش کا سلسلہ کبھی کبھی ۱۵ دنوں سے بھی زیادہ طویل ہوتا ہے۔ ان خواتین کو زیر زمین جیل مسکوبیہ میں رکھا جاتا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں حقوق انسانی اور حقوق نسواں کی سخت پامالی پر دنیا میں خاموشی ہے۔
قومی خواتین کمیشن کی چیئرمین نے اسلامی حقوق کی تعریف کی
۲۷؍اگست کو نئی دہلی میں قومی خواتین کمیشن کی چیئرمین محترمہ گرجا ویاس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسلام نے خواتین کو دنیا میں جینے کا مکمل حق دیا ہے۔ یہی وہ مذہب ے جس نے سب سے پہلے عورتوں کو وراثت میں حصہ دیا اور انھیں تجارت کا حق دیا۔ لیکن گرجا ویاس نے افسوس ظاہر کیا کہ مسلم سماج نے عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا ہے جس کی وجہ سے مسلم خواتین کی حالت تشویشناک بنی ہے۔ محترمہ گرجا ویاس ہیلپنگ ہنڈ سوشل اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک سیمینار کو خطاب کررہی تھیں۔ اس پروگرام میں محترمہ نیلوفر ایڈوکیٹ، سید شہاب الدین، مولانا عبدالوہاب خلجی نے بھی شرکت کی۔
شادی شدہ خواتین کے تحفظ کے لیے بنا قانون بے اثر
انڈین پینل کوڈ کی دفعہ ۴۹۸ اے کے تحت جہیز کے لیے ستانا یا تشدد کا استعمال ناقابل ضمانت جرم ہے۔ اور اگر دلہن کو قتل کردیا گیا ہے تو اس کے ساتھ ہی دفعہ ۳۰۴ بی یا دفعہ ۳۰۲ عائد کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں پانچ کروڑ عورتیں جہیز کے لیے تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں۔ لیکن گذشتہ دنوں دہلی میں USAIDاور سنٹرفار سوشل ریسرچ نے اس قانون کا جائزہ لینے کے لیے وہ اس ایک سیمینار منعقد کیا۔سیمینا میں پایا گیا کہ ۶ فیصد خواتین اس قانون کا استعمال اپنے ذاتی مفاد یا سسرال کے لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ ان خواتین میں اکثر تعلیم یافتہ اور آزاد خیال طبیعت کی عورتیں ہیں۔
سیمینار میں اس قانون کے تحت درج مقدمات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سروے کے لیے ۴۶ مقدموں کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ ۲۸ معاملوں پر ٹرائل ابھی تک ملتوی ہے۔ صرف ۱۲ مقدموں کی کارروائی مکمل کی جاسکی اس میں بھی ۸ ملزم رہا ہوگئے جب کہ ۴ مقدموں میں سزا سنائی گئی۔ دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن مجرموں کے خلاف پولیس کی سست رفتاری خواتین تنظیموں کے لیے تشویشناک ہے۔اس پروگرام میں راجیہ سبھا ممبر ہیما مالنی اور سماجی کارکن رنجنا کماری نے خاص طور پرشرکت کی۔
’’دختران ملت‘‘ نے ہوٹلوں پر چھاپے مارے
جموں کشمیر کی علیحدگی پسند خواتین کی تنظیم ’’دختران ملت‘‘ نے سری نگر کے مشکوک ہوٹلوں پر چھاپے مارے۔ سری نگر میں قحبہ خانوں کی لعنت نہیں پہنچی ہے لیکن حالیہ عرصے میں بے حیائی اپنے پیر پسار رہی ہے۔ دختران ملت کے کارکن مشکوک ہوٹلوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ہوٹلوں میں داخل ہوگئیں۔ وہاں انھوں نے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اخلاقی تعلیمات سے واقف کرایا۔ دختران ملت نے دعویٰ کیا کہ اس نے کئی قحبہ گھر چلانے والے ایکٹ کا پردہ فاش کیا ہے۔ اس مہم کے دوران دختران ملت کی کارکنوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ بعد میں دختران ملت کی ترجمان نے پریس کانفرنس کو خطاب کیا۔ اس واقعہ کو ملکی میڈیا میں خاص جگہ دی گئی۔
مقتول امریکی سپاہی کی ماں کا احتجاج
عراق میں جارج بش کی جنگجو پالیسی کے خلاف ایک مقتول فوجی کی ماں کنڈی شیہان احتجاج مہم شروع کی ہے۔ ٹکساس میں بش کی رہائش گاہ کے بالکل قریب کنڈی نے کیمپ ڈالا ہے۔ کنڈی شیہان کا فوجی لڑکا عراق میں اپریل ۲۰۰۴ء میں مارا گیا تھا۔ کنڈی کے احتجاج کو میڈیا میں زبردست مقبولیت مل رہی ہے۔ جنگ مخالف گروپ کنڈی کے ساتھ ہیں اور بش سے عراق سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
قاتل خاتون کو معافی مگر سزائے موت کے ۶۰ سال بعد
امریکی ریاست جارجیا میں ایک سیاہ فام عورت لینا بکر نے ۱۹۴۵ء میں سفید فام مالک کا قتل کیا تھا۔ سفید فام مالک کے خلاف اس جرم میں اسے فوراً سزائے موت سنائی گئی اور اگلے روز اسے بجلی کی کرسی پر بٹھا کر ماردیا گیا۔ لینا نے معافی کی درخواست داخل کی تھی۔ اس پر سنوائی کرتے ہوئے لینا کو معاف کردیا گیا لیکن پورے ۶۰ سال بعد۔ سفید فام مالک نے اسی خاتون کو لوہے کی سلاخ سے مارنے کی کوشش کی تھی۔ جان بچانے کے لیے لینا نے اس کی بندوق سے ہی اسے ماردیا۔ دور غلامی کا یہ واقعہ امریکی معاشرے کا بدترین واقعہ ہے۔ لینا کے خلاف فیصلہ سنانے والی عدالت کے سبھی ممبران سفید فام تھے۔