اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے، پالنہار اور معبود حقیقی ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب خدا ہی کا عطا کیا ہوا ہے۔ یہ مال و دولت، صحت و جوانی، طاقت و قوت، صلاحیت اور ساری زندگی خدا ہی کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں۔ ایک سچا مسلمان اپنے رب کی تمام نعمتوں اور انعامات کا ہر دم شکر ادا کرتا رہتا ہے اور ہر وقت اپنے پروردگار کو خوش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اس کا ہر عمل صاف اور صرف اپنے اللہ کو خوش کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہیں ہوتی۔
ہمارا پروردگار بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم صرف اس کی بندگی و اطاعت کریں۔ اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔ نہ اس کی ذات میں، نہ صفات میں، نہ اختیارات ہیں۔ بلکہ خالص اس کی بندگی کرنے والے بنیں۔ یہی اس کا حکم بھی ہے اور یہی اس کی بندگی کا تقاضا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینۃ)
’’اور ان کو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس حال میں کہ وہ دین و اطاعت کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآئُ ہَا وَلٰٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔
’’اللہ تعالیٰ کو (ان قربانیوںکا) گوشت اور خون نہیں پہنچتا (مطلوب نہیں) البتہ تمہارا تقویٰ اس کو پہنچتا ہے۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ۔
’’تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ کو بہر حال اس کا علم ہوجاتا ہے۔‘‘
قرآن مجید کے ان ارشادات سے صاف ظاہرہے کہ اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے۔ اللہ کی عبادت کا جو حکم ہے اس کے ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ بندگی اور اطاعت پر خلوص و للہیت کا گہرا رنگ چڑھا ہوا ہونا چاہیے۔قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ کو مطلوب نہیں ہے بلکہ ان کے پیچھے جو جذبات، رجحانات اور محرکات ہوتے ہیں اور اعمال خیر کے نتیجہ میں روح کو جو بالیدگی اور قلب کو جو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے وہ مطلوب ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگ قیامت کے دن صر ف اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ) اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ (مسلم)
یعنی تمہارے اعمال کے پیچھے جس قدر خلوص ہوگا، تمہاری کوششوں میں جس قدر للہیت ہوگی اتنے ہی زیادہ تمہارے اعمال مقبول ہوں گے اور اتنے ہی اچھے اجر سے خدا تمہیں نوازے گا۔ جو دل اخلاص سے خالی ہوگا اسے مقبولیت حاصل نہیں ہوتی جیسے چٹان، جس پر مٹی پڑی ہو بارش سے فصل نہیں اگا سکتی۔ لیکن اگر نفس اخلاص سے معمور ہو، اس کی برکتوں کا اس پر سایہ ہو تو معمولی چیز کو پہاڑ کے برابر وزنی بنادیتا ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے دین کو خالص کرلو تو تھوڑا سا عمل جہنم سے بچانے کے لیے کافی ہوگا۔‘‘ (حاکم)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک شخص نے حضور ﷺ سے پوچھا ’’یا رسول اللہ! ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلتا ہے مگر وہ دنیا کا مال و اسباب بھی چاہتا ہے (اس کا کیا بنے گا؟) نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں۔‘‘ لوگوں کو یہ بات گراں گزری انھوں نے اس شخص سے کہا تم جاکر دوبارہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھو، شاید تم ان کی بات سمجھ نہیں سکے۔ وہ شخص دوبارہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : یا رسول اللہ! ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلتا ہے مگر ساتھ ہی وہ دنیا کا مال و اسباب بھی چاہتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں۔ تیسری باراس نے یہی سوال کیا تو آپؐ نے پھر فرمایا: ’’اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
ایک اور روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا: ’اللہ کسی عمل کو قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ خالص اللہ کی رضا مندی کے لیے نہ ہو۔‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہر وقت اپنی نیتوں کا احتساب کریں، ہر عمل صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کریں اور اگر کبھی شیطان کے بہکانے سے کوئی غلط خیال آجائے تو فوراً اللہ سے معافی مانگیں اور برابر اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ خدایا! ہمیں ریا کاری سے محفوظ رکھ اور ہر نیک عمل اخلاص و للہیت کے ساتھ صرف اپنے لیے کرنے کی توفیق دے۔