چچا شیام نرائن ہمارے والد صاحب کے دوست تھے جو اب مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں۔ بات دس سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ میں نے سوچا کہ ’’چچا‘‘ کے خیالات قارئین حجاب اسلامی تک پہنچائے جائیں اس لیے ان سے ایک غیر رسمی انٹرویو لیا۔ ممکن ہے کہ اس انٹرویو میں حجاب اسلامی پڑھنے والے بہن بھائیوں کے لیے کچھ قابلِ غور پہلو ہوں جو ہمیں دعوتی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے آمادہ کرسکیں۔
سوال: سب سے پہلے آپ حجاب کے قارئین کو اپنا نام اور کچھ اپنے بارے میں بتائیں؟
جواب: میں شیام نارئین چوہان ضلع چندولی کا رہنے والا ہوں۔ میں ایک نومسلم ہوں۔ میں ایک ہندو پریوار سے تعلق رکھنے والا چوہان برادری میں پیدا ہوا۔ اور میرا نسب بتس ہے۔ میری جنم تتھی 8مارچ 1958 ہے۔ میرے گھر کا مول پیشہ زراعت ہے اور میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور جونپور میں ہی ڈیوٹی کرتا ہوں۔ 1972-1973 میں ہائی اسکول 1975 میں انٹرمیڈیٹ اور ضلع اعظم گڑھ میں نوکری میں رہتے ہوئے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
سوال: اسلام تک رسائی آپ کی کس ذریعے سے ہوئی اور اس کی کس چیز نے آپ کو زیادہ متاثر کیا؟
جواب: ایک بار میرا ایک ساتھی پاگل سا ہوگیا تھا جس کے علاج کے لیے لوگوں کے بتانے پر میں اقبال بھائی سے ملا جو اس طرح کے مریضوں کودیکھتے تھے اور دعا بھی کرتے تھے۔ ان کے گھر کے پاس ہی حضرت زندہ شاہ بابا کا مزار ہے جہاں عرس وغیرہ ہوا کرتا ہے اور میں بھی کبھی کبھی اس میں شریک ہوتا رہا۔ آتے جاتے لوگوں سے میرا اچھا تعلق ہوگیا، لیکن میرے دل کی تڑپ ’’اللہ‘‘ کے لگاؤ سے تھی بس اسی چیز نے مجھے اسلام میں آنے کے لیے مجبور کیا۔
سوال: ہمیں معلوم ہوا کہ حقیقی لگاؤ آپ کا اللہ تعالیٰ سے تھا پھر اچانک آپ اقبال صاحب سے ملے تو اب آپ کے احساسات کیا ہیں؟
جواب: چونکہ اسلام سے میری چاہت اور طلب تھی، اکثر میں علم حاصل کرنے کے لیے لوگوں سے کچھ نہ کچھ پوچھا کرتا تھا۔ اسی دوران اتفاق سے اقبال بھائی سے ان کی دکان میں اسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ انھوں نے پہلے ہم کو ’’سیرت رسولؐ‘‘ نام کی کتاب دی جس کو میں نے دوبار پڑھا۔ کچھ دنوں بعد قرآن شریف ہندی ترجمہ میں دیا۔ اب اسلام کی اور کتابیں پڑھنے کے بعد ہم کو توحید کی اور لپکنے اور اللہ کی طرف جھکنے کی لگن لگ گئی۔ اور اب میں اللہ کے بتائے ہوئے راستوں کی طرف چلنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اقبال بھائی سے ملنے کے بعد کا دور مجھے سلامتی اور سکون کا دور محسوس ہورہا ہے۔
سوال: آپ اقبال صاحب تک کیسے پہنچے انھوں نے اسلام کے بارے میں آپ کو کیا بتایا؟
جواب: تین سال پہلے کی بات ہے میں پان کھانے کے لیے روڈ سے دکان کی طرف جارہا تھا میں نے دیکھا کہ اقبال بھائی اپنی دکان میں بیٹھے ہیں، چوں کہ میرا دفتر اقبال بھائی کے کپڑے کی دکان کے پاس میںہی تھا، اس لیے میں ان کے رہن سہن اور کردار سے تو واقف ہوچکا تھا۔ پھر میں ان کے پاس گیا اور اسلام کے بارے میں پوچھا تو انھوںنے اسلام دین کو ایک جیون ودھان(Way of Life) بتایا اور بس اسی وقت سے اپنے کو اسلام کے طریقے پر ڈھالنے کی کوشش کرنا شروع کردی۔
سوال: قبولِ اسلام کے بعد آپ کے گھر والوں کا آپ کے ساتھ کیا برتاؤ ہے؟
جواب: اسلام میں داخل ہونے کے بعد مجھے گھر والوں اور دوسرے رشتہ داروں سے کوئی گلہ، شکوہ، یا شکایت نہیں ہے اور نہ کہیں سے کوئی مخالفت ہے۔ سب لوگوں کا میرے ساتھ اچھا سلوک ہے۔ میں نے ایک قرآن ہندی ترجمہ والا اپنے گھر پر رکھ چھوڑا ہے کبھی کبھی گھر والوں کو سناتا بھی رہتا ہوں اور میری رب العالمین سے دعا ہے کہ میرے گھر کے لوگوں کو اپنی طرف رجوع ہونے کی توفیق عطا کرے۔
سوال: آپ نے اپنا نام تبدیل نہیں کیا اس کے بارے میںآپ کیا کہیں گے؟
جواب:(1) میرا نام شیام نارائن ہے جس کا ہندی کوش کی نگاہ میں ’’نارائن کے شیام‘‘ ہوا ،جس کا ہندی میں مطلب ہے اللہ /ایشور کے شیام یعنی شری کرشن۔ چوں کہ شیام کا مطلب شری کرشن سے لیا گیا ہے اور شری کرشن ’’گیتا‘‘ کے مطابق ایک پیغمبر ہیں جیسے رسول اللہ یعنی اللہ کے رسول۔ میرے علم کے معیار کے مطابق کسی شخص کا نام اس طرح کا نہیں ہونا چاہیے جو اللہ کی ذات، صفات، حقوق اور اختیار سے ٹکرائے دلیل کے طور پر رحیم، مولا، کریم، رحمان اور خالق وغیرہ۔ ان ناموں کے ساتھ عبد یا محمد ملا کر رکھنا چاہیے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے مسلمانوں کے نام گھرہو، پیارو، دکھو، بپت، للو، کلو وغیرہ رکھے گئے ہیں ان کو مسلمانوں میں ہی شمار کیا جاتا ہے اور ان کی رشتہ داریاں پڑھے لکھے مسلمانوں سے ہیں۔
(2) ہمارا دیش ہندوستان کئی مذہبوں کا مجموعہ ہے ہر قوموں کے لوگوں کو آزادی ملی ہوئی ہے جو جیسے جیون گزارنا چاہے گزار سکتا ہے، کہیں سے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ اس دیش میں نو مسلم کے لیے مسلمانوں جیسا نام رکھنا یا نہ رکھنا میری سمجھ میں کوئی دقت کی بات نہیں ہے چنانچہ مسلمان طرز پر نام کا نہ ہونا میری سمجھ میں کوئی دقت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ملاحظہ ہو قرآن مجید کی آیتیں : المائدۃ:49 اور البقرۃ:62۔ ’’وشواس کرو یہاں ٹھیکیداری کسی کی بھی نہیں ہے ۔ مسلمان ہوں یا یہودی صابی ہوں یا نصاریٰ (عیسائی) جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی ڈر کی جگہ ہے نہ دکھ کی۔‘‘ اسی طرح کا ترجمہ البقرۃ:62 کا بھی ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ التوبۃ:31 ’’انھوں نے عالموں اور سنتوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے اور اسی طرح مریم کے بیٹے مسیح کو بھی، حالاںکہ ان کو ایک الٰہ کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا آدیش نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی اُپاسنا کا ادھکاری نہیں پاک ہے وہ ان شرک بھری باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔‘‘
حدیث میں آتا ہے حضرت عدی بن حاتم جو عیسائی تھے، جب نبیؐ کی سیوا میں اپستھت ہوکر مسلمان ہوگئے تو انھوںنے اور سوالوں کے علاوہ ایک سوال یہ بھی کیا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے عالموں اور سنتو ںکو پربھو بنالینے کا جو آروپ لگایا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ جواب میں نبیؐ نے فرمایا: کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جو کچھ وے لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ وے حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو۔ انھوںنے کہا یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ بس یہی ان کو پربھو بنالینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی کتاب کے ’پرمان‘ کے بنا جو لوگ ’مانوجیون‘ کے لیے حلال و حرام کی ’سیمائیں نردھارت‘ کرتے ہیں وے ’واستو‘ میں ’پربھو‘کے پد پر اپنے آپ جا براجتے ہیں۔ اور جو ان کی شریعت کے اس ادھکار کو مانتے ہیں، وہ انھیں پربھو تسلیم کرتے ہیں۔ چونکہ عدی بن حاتم ذات کے عیسائی تھے اور ایمان لاکر مسلمان ہوگئے لیکن ان کانام جو عیسائیت میں تھا وہی نام مسلمانوں میں داخل ہونے کے بعد بھی ہے۔ جن کا نام نہ تو اللہ نے ہی بدلا اور نہ رسولؐ نے۔وہی پہلے والا نام آج بھی حدیثوں میں ملتا ہے۔
سوال: قبولِ اسلام کے بعد آپ کی علمی لیاقت میں کیا اضافہ ہوا ہے؟
جواب: ایمان لانے کے بعد میں اردو اور عربی کی پڑھائی تقریباً 2 سال سے کر رہا ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ میں تھوڑی بہت دونوں زبانوں کو پڑھ لیتا ہوں۔ میں نے دو بار بخاری شریف کی حدیث کی کتاب پڑھی۔ اب عربی میں بھی تھوڑا بہت قرآن شریف کی تلاوت کرلیتا ہوں۔ مجھے قرآن کے مطالعے سے کافی دلچسپی ہے۔
سوال: غیر مسلموں کے سامنے کس طرح بہترین انداز میں دعوت پیش کرنی چاہیے؟
جواب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ کسی بھی شخص سے اخلاق کے ساتھ ملنا چاہیے، اور اس کے وچاروں کو سننا چاہیے۔ چاہے وہ جو کچھ بھی کہے اسے دھیان سے سنیں اگر کچھ غلط بھی کہہ دے تو اسے درگزر کرنا چاہیے پھر محبت سے اس کو صحیح جواب دینا چاہیے اور ایسی کوئی بھی بات نہ کہنی چاہیے جو اس کے دل کو ٹھیس پہنچائے اور ناگوار لگے۔ غیر مسلم چاہے جس بھی فرقہ کا ہو اس سے یہی کہنا چاہیے:
’’آؤ اس بات کی طرح جو ہم میں اور تم میں یکساں ہیں۔‘‘ (آل عمران: 64)
اور وہ ہے ایک ’’ایشورواد‘‘ یعنی توحید۔ توحید ہی اسلام کی روح ہے۔ll