پیاری بہنو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ابھی تو آپ لوگ امتحانات میں لگے ہوں گے؟ یہ شمارہ آپ کے ہاتھوں میں جب پہنچے گا تو آپ امتحان سے فارغ ہوچکیں گے۔ پھر چھٹیوں کا مزہ لیں گے اور پھر نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوجائے گا۔ بعض بہن بھائی اسکول سے نکل کر کالج پہنچ جائیں گے اور بعض ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں۔ ہم آپ کو کامیابی کی ایڈوانس مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی نئے عزم اور نئی امنگوں کے ساتھ کامیابیوں کی بلند امیدوں سے بھر پور نئے تعلیمی سال کی شروعات کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی تعلیمی زندگی کا ایک قیمتی سال مکمل کرلیا اور اگلی سیڑھی پر قدم رکھنے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مسلسل اپنی صلاحیتوں اور علمی قابلیت کو بڑھاتے جارہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں آنے والا ہر مرحلہ اور دن نئی ذمہ داریوں کے ساتھ آتا ہے اور اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ آپ پہلے سے زیادہ سنجیدہ، زیادہ محنتی اور وقت کا اور زیادہ بہتر استعمال کریں۔
نیا تعلیمی سال ہمیں اس بات کا موقع دیتا ہے کہ ہم گزرے سال کے بارے میں اپنا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ پچھلے سال ہم سے اپنی تعلیم کے سلسلہ میں کیا کوتاہیاں اور کمزوریاں سرزد ہوئی ہیںاور پھر انہیں آنے والے سال میں دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اس وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کن کن مضامین میں ہمیں خاص محنت کی ضرورت ہوگی۔ ایسا اس وجہ سے ضروری ہے کہ آگے چل کر ہمیںکن مضامین میں داخلہ لینا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ہم اپنی کمزوری کو دور کرسکیں۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے رسول ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ بہترین کام وہ ہے جو مسلسل جاری رہے، چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی شخص عبادت کرتا ہے تو اہم بات یہ ہے کہ عبادت ا س کا معمول بن جائے۔ ایسا نہ ہو کہ جوش میں آکر دن رات عبادت ہی میںلگ جائے اور چھوڑے تو فرض نماز تک غائب۔ ایسا ہی معاملہ پڑھنے کے سلسلہ میں بھی ہے۔ بعض بہن بھائی امتحانات کے قریب آتے ہی دن رات پڑھائی میں لگ جاتے ہیں اور سال بھر کھیل کود میں پڑے رہتے ہیں۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ روزانہ گھنٹے دو گھنٹے ہی سہی معمول بناکر پابندی سے پڑھا جائے تو اس سے زیادہ بہتر اور اچھے نتائج کا ذریعہ بنے گا۔ آپ ہی بتائیے کہ ایک مہینے کی دن رات کی پڑھائی زیادہ کارگر ہوگی یا سال کے ۳۶۵ دن کی روزانہ دو گھنٹہ کی محنت -یہ آسان بھی ہے اور مفید بھی۔ بوجھ بھی نہیں بنتی اور صلاحیت کو بھی نکھارتی ہے۔ اسی لیے تو رسول اللہ ﷺ نے کام کو معمول بنانے کی بات کہی خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔
ہمیں امید ہے کہ آپ اپنے معمول کو بہتر بنائیں گے اور اچھے نتائج لانے کی کوشش کریں گے۔
آپ کی بہن





