پیاری بہنو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ شمارہ آپ کے ہاتھوں میں آنے تک آپ امتحان کے بوجھ سے نجات پاچکیں گی اور چھٹیوں کے خوبصورت اور فراغت کے دن آپ کو میسر ہوںگے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ نے اچھی تیاری اور محنت کے ساتھ امتحان دیا ہوگا اور انشاء اللہ آپ کامیابی سے ہمکنار ہوںگی۔ ہم اللہ سے آپ کی شاندار کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں۔
چھٹیاں جو فراغت کے دن ہیں بڑی قیمتی ہیں۔ وقت یوں بھی بے حد قیمتی ہے مگر پڑھنے والے بچوں کے لیے چھٹی تو بڑی اہم ہوتی ہے۔ پڑھتے پڑھتے تھک جانے کے بعد کچھ تو آرام ملے اسکول جانے سے۔ جی ہاں، اب آپ کو صبح سویرے اسکول نہیں جانا ہے، ہوم ورک بھی نہیں کرنا ہے اور روز روز کورس کی کتابیں بھی نہیں پڑھنی ہیں۔ تو پھر کیا کریں گی؟ صبح سے شام تک گھر میں یوں ہی بے کار بیٹھی رہیں گی یا صرف کھیل کود میں ہی وقت گزاردیں گی یاکچھ اور پروگرام بھی ہے؟کچھ تو کرنا ہے کہ چھٹی کا صحیح استعمال ہوسکے۔وقت بے کار نہ جائے اور بعد میں یہ پچھتاوا نہ ہو کہ ہمارا چھٹیوں کا وقت تو یوں ہی بے کار گزرگیا۔
ہمارے پیارے نبیؐ نے ہمیں ایک بڑی قیمتی بات بتائی تھی:’’قیامت کے دن بندہ اپنے رب کے پاس سے ہل نہ سکے گا جب تک پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے۔ عمر کس چیز میں گزاری، جو علم ملا اس پر کتنا عمل کیا، مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا، اور اپنے جسم کو کس چیز میں لگایا۔‘‘
جی ہاں کتنی قیمتی بات ہے۔ آپ اندازہ کیجیے وقت کتنا قیمتی ہے۔ اور اس کا درست اندازہ آدمی اسی وقت لگاپاتا ہے جب وہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک منٹ بڑا قیمتی ہے۔ ایک منٹ کی قیمت کیا ہے دیکھئے،ہماری ایک سہیلی کی شادی تھی، کلکتہ کے پاس ایک شہر میں۔ ہم نے بڑے شوق کے ساتھ ایک ماہ پہلے ہی پوری فیملی کے آنے جانے کا رزرویشن کرالیا تھا۔ سفر کا دن آیا اور صبح ہی سے تیاری شروع کردی۔ حالانکہ ٹرین تین بچے دوپہر میں تھی۔ گھر سے دوگھنٹے پہلے نکلے کہ اسٹیشن کچھ پہلے ہی پہنچ جائیں تو اچھا ہے مگر راستے میں ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ بڑے پریشان، جاڑے میں پسینہ آنے لگا، ذہنی الجھن الگ، تین بجنے میں صرف پندرہ منٹ اور اسٹیشن ابھی دور۔یقین ہوگیا کہ ٹرین اب نہ مل سکے گی۔ آٹو والا خود پریشان تھا۔ بالآخر کہیں سے نکال کر اسٹیشن پہنچا۔ سامان قلی سے اٹھوایا اور پلیٹ فارم پر پہنچے۔ پلیٹ فارم پر دیکھا کہ ٹرین چل چکی ہے۔ اس ٹرین کو جس سے ہمیں سفر کرنا تھا پلیٹ فارم پر کھڑے دیکھتے رہے۔ قلی نے کہا: ’’صاحب آپ صرف ایک منٹ لیٹ ہوگئے۔‘‘ اس وقت سمجھ میں آیا کہ ایک منٹ کی قیمت کیا ہوتی ہے۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد ٹکٹ واپس کیا اور منھ لٹکائے گھر لوٹے۔
انہی منٹوں اور سکنڈوں سے مل کر زندگی کی عمر بنتی ہے۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ جو لوگ اپنے وقت کی قدر نہیں کرتے اور اس کا صحیح استعمال نہیں کرتے بالآخر پچھتاتے ہیں۔ بعض لوگ تو موت کے وقت آنسو بہاتے ہیں ہائے ہم نے عمر کو یوں ہی کھپا دیا۔ قیامت کے دن بھی ایسے لوگ افسوس کریں گے اور اللہ سے کہیں گے کہ ایک بار ہمیں دنیا میں لوٹا دیں پھر ہم اچھے عمل کریں گے۔ مگر کیا ممکن ہے، نہیں اس لیے کہ ’’گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔‘‘ آپ اپنی ان چھٹیوں کو ایسے گزاریے کہ کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہو، ان کے استعمال سے آپ کو کچھ حاصل ہوجائے۔
آپ کی بہن مریم جمال