پیاری بہنو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
لیجیے رمضان آگیا۔ نیکیوں کی بہار کا موسم۔ امید ہے کہ آپ رمضان میں کچھ نہ کچھ روزے تو ضرور ہی رکھیں گی۔ اور سحری وافطار کا لطف بھی اٹھائیں گی۔ لیکن آج ہم آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں۔
نادیہ ایک مالدار گھر کی لڑکی تھی۔ اس کے والد صاحب روزانہ اسے پانچ روپے جیب خرچ کے لیے دیتے تھے اور وہ روزانہ کچھ نہ کچھ بچاکر اپنی گولک میں ڈالتی رہتی تھی۔ کئی ماہ بعد اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آج وہ دیکھے کہ اس کی گولک میںکل کتنے پیسے جمع ہوئے، یہی سوچتے ہوئے اس نے الماری سے ایک چھوٹی سے چابی نکالی اور اپنی گولک میں لگے چھوٹے سے تالے کو کھول کر اس میں موجود پیسوں کو گننا شروع کردیا۔ ایک روپے کے سکوں کو الگ کیا دو کے سکوں کو الگ اور پھر پانچ روپے کے سکوں کو الگ رکھا۔ جب اس نے گننا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس نے اپنے جیب خرچ سے بچا کر تین سو سے بھی زیادہ روپے جمع کرلیے ہیں۔ جبکہ اس کا بھائی عمیر اپنے تمام پیسے یا توٹافی یا کرکرے اور چپس کھانے میں صرف کردیتایا کوئی نہ کوئی چیز خرید لیتا تھا۔ اس نے بڑے فخریہ انداز میں اپنے بھائی کو بتایا کہ اس کے پاس تو تین سو روپے ہیں۔
اب اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ وہ ان پیسوں کا کیا کرے۔ وہ ان پیسوں کو ایسی جگہ خرچ کرنا چاہتی تھی، جس سے ہمیشہ اسے فائدہ حاصل ہوتا رہے۔ اس کی امی نے اسے انگریزی کی ایک ڈکشنری خریدنے کا مشورہ دیا۔ ابو نے کہا کہ وہ پیسے مجھے دیدو میںاچھی اچھی کتابیں خرید کر لادوںگا۔ مگر اس کا دل مطمئن نہ ہوا۔
عید سے ایک ہفتہ پہلے اس کی ٹیچر نے اسے بتایا تھا کہ غریبوں کی مدد میں پیسہ خرچ کرنا ایسا ہے جیسے کسی نے ایک دانہ بویا پھر اس ایک دانے سے پودا نکلا اور اس میں کئی بالیاں تھیں اور ہر بالی میں ستر دانے تھے۔ بس بات اس کے ذہن میں بیٹھ گئی۔
وہ اپنے محلہ کی غریب بیوہ ’سَلیمن بوا‘ کے پاس گئی اور اسے وہ پیسے دے دئیے اور کہا کہ آپ ان پیسوں کو رکھ لیں اور میرے لیے دعا کریں کہ میں پڑھ لکھ کر اچھی عالمہ بن جاؤں۔
اب عیدآنے والی تھی چاند رات کے دن بھائی نے پوچھا کہ کل تم اپنے پیسوں سے کیا کیا خریدوگی ؟ تمہارے پاس تو بہت پیسے ہیں۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ان پیسوں سے میں پہلے ہی جنت خرید چکی ہوں۔ اور پھر یہ سارا واقعہ امی ابو کو سنایا۔ دونوں بہت خوش ہوئے اور اسے سینے سے لگالیا۔ اس کے ابو نے کہا کہ رمضان کے مہینے میں تم نے بڑی نیکی کی ہے۔ اور حقیقت میں رمضان کے مہینے کا ایک خاص مقصد یہ بھی ہے کہ ہم غریبوں کی مدد کریں۔ نادیہ نے واقعی رمضان کے پیغام کو سمجھ لیا تھا۔ اور اپنے پیسے ایسی جگہ خرچ کیے تھے جہاں وہ قیامت تک اسی طرح بڑھتے رہیں گے جیسے ایک دانے سے سیکڑوں بالیاں نکلتی ہیں۔
آپ کی بہن مریم جمال