پیاری بہنو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
گرمی کی چھٹیاں کیسی گزر رہی ہیں؟ آپ نے ان چھٹیوں کے استعمال کے لیے کوئی منصوبہ بنایا ہے یا بس یوں ہی وقت گزاری ہورہی ہے۔
وقت دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے۔ جو لوگ وقت کو برباد کرتے ہیں وہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ طالب علمی کے زمانے میں تو وقت کی خاص طور پر قیمت ہے۔ یہ بچپن کی عمر دراصل علم حاصل کرنے اور سیکھنے کی ہوتی ہے۔ دینی اور جسمانی صلاحیتیں زیادہ اچھا کام کرتی ہیں۔ جو پڑھتے ہیں وہ جلد یاد ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’بچپن کا علم پتھر کی لکیر ہے۔‘‘
جس نے بچپن میں علم حاصل کرنے پر توجہ دی اور وقت کو بربادہونے سے بچایا اس نے گویا زندگی حاصل کی اور جہالت جو قاتل ہے، اس سے خود کو بچایا۔ جس نے بچپن میں علم حاصل کرنے میں کوتاہی کی اس نے موت کو خریدا۔
ہمارے بزرگ امام شافعی نے ایک مرتبہ کہا تھا:
ومن فاتہ التعلیم وقت شبابہ فکبر علیہ اربعا لوفاتہ
’’جو نوعمری میں حاصل کرنے میں ناکام رہا تو تم اس کی نماز جنازہ پڑھ لو (کیونکہ وہ ایسا ہے جیسے کوئی مردہ انسان)۔‘‘
علم صرف کتابوں ہی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ زمین و آسمان اور اس کائنات کی چیزوں پر سوچنے اور غوروفکر کرنے سے بھی علم کے راستے نکلتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مشہور سائنس داں نیوٹن نے ’’قوتِ کشش‘ (gravitation force) کی دریافت پیڑ سے ٹوٹ کر گرتے ہوئے پھل کو دیکھ کر کی تھی۔
کیا ہم قرآن نہیں پڑھتے؟ قرآن تو خود جا بجا اس کائنات میں غوروفکر اور مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اس صورت میں ہمیں چاہیے کہ جس طرح ہم کتابوں سے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح تجربہ، مشاہدہ اور غوروفکر کے ذریعے بھی معلومات کی نئی نئی راہیں تلاش کریں۔
آپ کی بہن
مریم جمال