ادلے کا بدلہ

محمد زبیر سلیمانی

کمرے کا پلسترکئی جگہوں سے اکھڑا ہوا تھا، دیواروں کے سیلے سوراخ لال بیگوں کا مسکن بن چکے تھے۔ ایک کونے میں ظہور حسین بستر پر لیٹے تھے، قریب ہی غلام فاطمہ اپنی ٹوٹی چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ ستر سالہ ظہور حسین کی بینائی اس حد تک ضرور کام کرتی تھی کہ وہ کمرے میں داخل ہونے والے فرد کو سائے کی مانند دیکھ سکتے تھے۔ ساٹھ سالہ غلام فاطمہ کی بینائی قدرے بہترتھی مگر کان بہرے ہوچکے تھے۔ دونوں اس کمرے میں اپنی زندگی کے آخری دن گن گن کر گزار رہے تھے۔ کمرے میں عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔
ان کے پوتوں اور پوتیوں کا کمرے میں داخلہ یکسر تو بند نہیں تھا، مگر بہو نے بچوں کو یہ کہہ کر ڈرا رکھا تھا کہ دادا اور دادی کے کمرے میں ایک جن رہتا ہے، جو چھوٹے بچوں کو اٹھا کر پرستان لے جاکر انہیں پنجرے میں قید کردیتا ہے۔ بچوں نے جواب میں اپنی ماں سے یہ سوال ضرور کیا تھا کیا کوئی شہزادہ ان بچوں کو چھڑانے نہیں آتا؟ ماں نے نفی میں سرہلایا، لہٰذا بچے کمرے میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ البتہ ہر دوسرے یا تیسرے دن ان کا باپ یعنی ظہور دین اور غلام فاطمہ کا بیٹا منظور حسین جو کسی بینک میں افسر تھا، ان کے پاس آکر ان کے احوال دریافت کرتا پھر تھوڑی دیر بیٹھ کر واپسی کی راہ لیتا۔
دونوں کو تین وقت کا کھانا باقاعدگی سے ضرور ملتا جو گھر کا اکلوتا خادم دے جاتا تھا۔ کمرے میں مصلیٰ رکھا ہوا تھا اور وضو کے لیے ایک لوٹا بھی موجود تھا۔
شام کا وقت تھا، منظور حسین اپنے تینوں بچوں کو اسکول کا کام کرا رہا تھا۔ ٹیلی ویژن پر کرکٹ میچ لگا ہوا تھا جو منظور حسین کی بیوی سائرہ دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ ’’کتنے رن بن چکے ہیں؟‘‘
منظور حسین نے ٹی وی کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’بائیس رن پر تین کھلاڑی آؤٹ ہوچکے ہیں۔‘‘ وہ مایوسی سے بولی۔
’’ابو! ہم بھی میچ دیکھیں گے۔‘‘ وقار نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، ابو میچ دیکھنے دیں ناں!‘‘ عائشہ نے التجا کی۔
منظور حسین نے مسکرا کر کتاب بند کردی اور انھیں میچ دیکھنے کی اجازت دے دی۔ تینوں بچے بھاگ کر ٹی وی کے سامنے جا بیٹھے اور منظور بھی میچ دیکھنے لگا۔
’’اس ٹیم کا بھی جواب نہیں، بائیس پر تین آؤٹ!‘‘ اس نے ہلکا سا تبصرہ کیا۔
’’ماجد خان ابھی تک موجود ہے اور آج تو فارم میں ہے۔‘‘ سائرہ بولی۔
’’ماجد خان پہلے کبھی دباؤ میں نہیں کھیلا، ۲۵۰ رن کا ہدف ہے اور دس اووروں میں تین بہترین بلے باز آؤٹ ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے پوری ٹیم مشکل ہی سے ڈیڑھ سو رن بناپائے گی۔‘‘ منظور حسین نے یہ کہہ کر گھڑی دیکھی پھر سائرہ سے مخاطب ہوا:
’’آج کیا کھلارہی ہو؟‘‘
’’کریلے پکائے ہیں اور ساتھ میں پلاؤ بھی ہے۔ کیا بھوک لگ رہی ہے؟‘‘
’’پہلے تو اتنی نہیں تھی، مگر باورچی خانے سے آنے والی خوشبو اور پھر کریلوں کا نام سن کر خود بخود بھوک چمک اٹھی ہے۔‘‘
’’آدھا گھنٹہ صبر کریں، رمضو روٹیاں لے کر آتا ہی ہوگا۔ ویسے بھی سالن پکنے میں کچھ دیر باقی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوبارہ اسکرین کی طرف دیکھنے لگی جہاں ابھی ابھی ہارون الرشید نے لیگ اسٹمپ پر جاتی ہوئی گیند کو ماہرانہ انداز میں باؤنڈری لائن سے باہر پھینکا تھا۔ مارشل اپنی گیند پر لگنے والے چھکے سے خاصا مایوس نظر آرہا تھا۔
’’مارشل کی باؤلنگ بھی اب وہ نہیں رہی۔‘‘ منظور حسین نے کہا۔
’’ارے نہیں ابو، بال تو زبردست تھی مگر سامنے بھی تو ہارون الرشید ہے۔‘‘ وقار پیچھے مڑکر دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں ہارون الرشید کی کیا بات ہے۔‘‘ یہ کہہ کر منظور حسین اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ دراصل آج سارا دن اس نے ماں باپ کی خبر نہیں لی تھی۔ اس لیے وہ ان کے کمرے کی طرف روانہ ہوگیا۔ کمرے میں بوڑھے ظہور حسین چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ غلام فاطمہ اپنی پوٹلی کھول کر مختلف چیزیں الگ الگ رکھ رہی تھیں، جن میں ایک عدد سرمے دانی، لڈو کے چند دانے، ایک تسبیح اور دو تین غیر ضروری چیزیں تھیں۔
کمرے میں داخل ہونے والے سائے کو دیکھ کر ظہور حسین پہچان گئے کہ بیٹا آیا ہے۔
’’کیا حال ہے ابا جان؟‘‘ منظور حسین ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’ٹھیک ہوں بیٹا، بس جوڑوں کا درد بڑھ گیا ہے۔‘‘
’’ابا جان! یہ تو بڑھاپے کی بیماری ہے، اس عمر میں درد ہو جاتا ہے۔ اماں جان! آپ کیا کررہی ہیں؟‘‘ اس نے بلند آہنگی سے پوچھا۔
’’بس پتر کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا۔ تو نے خوامخواہ نوکر رکھا ہوا ہے۔ میں اتنی بھی بوڑھی نہیں ہوئی، گھر کے کام کاج کر ہی لیتی ہوں۔پہلے بچے کبھی کبھار آجاتے تھے مگر اب تو وہ بھی نہیں آتے، تو بھی دن بھر نظر نہیں آتا، نہ کیا کر اتنی محنت ذرا اپنی صحت کا بھی خیال رکھ، دیکھ کتنا کمزور ہوگیا ہے۔‘‘
’’اماں! مہنگائی بہت ہوگئی ہے، اس لیے محنت سے کام تو کرنے ہی پڑتے ہیں۔‘‘ منظور ناک پر رومال رکھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں واقعی مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑانے والے انداز میںبولی۔ منظور حسین تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’اچھا، میں چلتا ہوں، کوئی کام تو نہیں ہے؟‘‘ وہ دونوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ارے نہیں بیٹا! ہمارے کون سے کام ہیں، بس ذرا سردی بڑھ گئی ہے۔ کل رضائی پر پانی گرگیا تھا، مگر خیر…‘‘ یہ کہہ کر ظہور حسین کھانسنے لگے۔
’’ابا جان! آپ بھی تو بستر پر لوٹا رکھ دیتے ہیں۔ آپ کو کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’منظور بیٹا ریڈیو کے سیل ختم ہوگئے ہیں، خبریں سننا ہوتی ہیں۔‘‘ وہ ریڈیو اٹھاتے ہوئے بولے۔
’’اب آپ کی اللہ اللہ کرنے کی عمر ہے، آپ خبریں سن کر کیا کریں گے؟ … اچھا خیر میں رمضو سے کہہ دوں گا وہ نئے سیل لادے گا۔‘‘ یہ کہہ کر منظور کمرے سے نکل گیا۔
٭٭
’’امی ابا کا کمرا بہت خراب ہے۔‘‘ کھانا کھانے کے بعد منظور دانتوں میں خلال کرتے ہوئے بولا ’’کیوں نہ ان کو ساتھ والا کمرا دے دیں۔‘‘
’’ٹھیک ٹھاک تو ہے ان کا کمرا، بس کہیں کہیں سے پلستر اکھڑا ہوا ہے۔ کسی روز مستری لے آئیں ٹھیک کردے گا۔ ویسے ایک بات کہوں اگر آپ برا نہ مانیں ۔‘‘ سائرہ بائیں ہاتھ پر ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے بولی۔
’’ہاں ہاں بولو کیا بات ہے؟‘‘
’’ماں باپ کی خدمت کرنا صرف آپ ہی کا فرض تو نہیں، آپ کے دو بھائی بھی ہیں، ماشاء اللہ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔ جواد حسین کا اپنا کاروبار ہے اور تنویر بھی اچھا خاصا کما لیتے ہیں…‘‘
’’سائرہ بیگم! یہ تو اللہ تعالیٰ کی ہم پر مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں ماں باپ کی خدمت کرنے کی توفیق دی ہوئی ہے۔ ایسے بھی میں امی ابا کو منہ سے نہیں کہہ سکتا کہ باقی بیٹوں کے پاس رہیں، اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ آپ خود امی ابا کو جانے کے لیے کہیں، بھائیو ںسے بات کریں۔ انھیں بھی خدمت کرلینے دیں، ویسے بھی ماں باپ کی موجودگی سے گھر میںبرکت ہوتی ہے۔‘‘
’’’اچھا اچھا! میں بات کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر منظور حسین اخبار پڑھنے لگا۔
تین چار دنوں بعد منظور کو کسی کام سے اپنے بھائی جواد حسین کے پاس جانا ہوا۔شہر سے دور جواد حسین کا ایک پلاٹ تھا جسے وہ بیچنا چاہتا تھا۔ منظور کا خیال تھا کہ یہ پلاٹ خرید کر اس پر مکان بنانا اورکرائے پر دے دینا چاہیے، اس لیے وہ پلاٹ خریدنا چاہتا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے منظور گاڑی میں بیٹھا اور سڑک پر آگیا۔ دو تین کلو میٹر کے فاصلے پر اس کے بہنوئی کی ورکشاپ تھی جسے اس کی اکلوتی بہن کا شوہر کامیابی سے چلا رہا تھا۔ منظور نے سوچا کار کی جانچ پرکھ اور صفائی ہو جائے گی اور گپ شپ بھی، اس نے ورکشاپ کے سامنے گاڑی روک گی۔
’’السلام علیکم! صدیق بھائی۔‘‘ منظور سلام کرتے ہوئے بولا۔
’’وعلیکم السلام! آؤ آؤ بیٹھو۔‘‘ صدیق نے اس کا خیرمقدم کیا۔
’’ضرور کار کی مرمت کرانی ہوگی، ورنہ تمہارے پاس وقت کہاں۔‘‘
’’نہیں بھائی صاحب! میں تو جواد حسین کے پاس جارہا تھا۔ وہ اپنا پلاٹ بیچ رہا ہے۔ میرے پاس کچھ رقم پڑی تھی، سوچا میں ہی لے لوں اور گاڑی بھی دکھاتا چلوں۔ سناؤ کام کیسا چل رہا ہے؟ بہن حمیدہ ٹھیک ہے ناں!‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔‘‘ صدیق مسکرا کر بولا پھر وہ اپنے ملازم سے مخاطب ہوا۔ ’’احمد نواز ! چائے لاؤ اور واپس آکر ان کی گاڑی بھی دیکھو۔‘‘ احمد نواز ’’جی اچھا‘‘ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
’’تمہاری بہن بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ جواد اور تنویر تو مہینے میں ایک آدھ بار چکر لگا لیتے ہیں مگر تم نہیں آتے۔ اب ایسی بھی کیا مصروفیت ہے کہ بھائی بہن کے گھر کو بھی بھول جائے۔‘‘
’’ہاں بات تو تمہاری درست ہے، کسی دن لاؤں گا تمہاری بھابی اور بچوں کو بھی۔‘‘ منظور ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے بولا۔
’’چچا اور چچی کا کیا حال ہے؟‘‘ صدیق نے سوال کیا۔
’’ٹھیک ہیں، بس عمر کا تقاضا ہے اس لیے چھوٹی موٹی بیماریاں تو لگتی ہی رہتی ہیں۔‘‘
’’میرے بھولے بھائی! ستر سال مرد کے لیے کوئی ایسی عمر نہیں کہ وہ ضعیف ہوجائے۔ اس عمر کے لوگوں کو میں نے یونیورسٹیاں اور اخبار کے دفاتر چلاتے دیکھا ہے۔ چچی بھی بمشکل ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ تمہارے والدین زیادہ بوڑھے تو نہیں ہوگئے۔ تم ان کی خدمت تو کررہے ہو نا؟‘‘
’’بالکل! اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت بخشی ہے کہ والدین کی خدمت کروں۔ ماں باپ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں۔ اس اولاد کی خوش نصیبی کے کیا کہنے جسے ماں باپ کی خدمت اور خاطر کا اعزاز اور امتیاز نصیب ہوجائے…!‘‘
’’منظور حسین! تم واقعی خوش نصیب ہو۔ بزرگوں کے دم سے گھر پر اللہ کی رحمت برستی ہے۔ بوڑھے والدین کی دعاؤں اور مشوروں کی بدولت پیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھتی ہیں اور اولاد پر کوئی ہراس طاری نہیں ہونے پاتا۔ دادا دادی کا پوتا پوتیوں سے کھیلنا، انھیں پیار کرنا اور اونچ نیچ کی باتیں سمجھانا، بڑا مسرت بخش عمل ہے۔ میں جب بھی کسی بزرگ کو ننھے شگفتہ بچوں کو کوئی نصیحت کرتے دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے ماضی، مستقبل کو زندگی کے نشیب و فراز سے آگہی بخش رہا ہے۔
تم جانتے ہو، میرے گھر میں کتنا سکوت وسکون ہے۔ کبھی کسی بے چینی کی صدا نہیں اٹھی۔ کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ میرے گھر پر آج بھی میرے ابا جان ہی کا حکم چلتا ہے۔ میں اور تمہاری بہن ان کی نصیحت اور مشوروں کو ادب سے سنتے ہیں، عمل کرتے اور آرام سے رہتے ہیں۔‘‘
’’ارے ہاں! اپنے بھائی جواد اور تنویر کا سناؤ۔ ان کا کیا حال ہے؟ وہ بھی چچا، چچی سے ملنے آتے ہیں یا نہیں؟‘‘
منظور نے جواب دیا: ’’آتے تو ہیں، مگر بہت کم! حالانکہ اماں اور ابا جان انہیں بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘
صدیق نے کہا: ’’تم کو چاہیے کہ جواد اور تنویر کو بھی ماں باپ کی خدمت کا احساس دلاؤ اور ان پر زور دو کہ وہ بھی والدین کی خدمت کے سلسلے میں اپنا حصہ اور فرض ادا کیا کریں۔‘‘
منظور نے کہا: ’’میں اپنے بھائیوں سے یہ بات اپنے منہ سے نہیں کہنا چاہتا۔ انھیں تو خود ہی احساس ہونا چاہیے کہ آج کل مہنگائی کی ہوشربائیوں کا کیا عالم ہے۔ اس لیے انھیں بھی اپنے حصے کا فرض ادا کرنا چاہیے۔‘‘
اسی دوران چائے آگئی۔ دونوں نے پیالیوں میں چائے انڈیلی اور مزے سے چسکیاں لینے لگے۔
٭٭
رات کے نو بجے کا وقت تھا،جنوری کا آخری ہفتہ چل رہا تھا، یوں لگتا تھا جیسے آدھی رات ہوگئی ہو۔ ظہورحسین نے اپنے کمرے ہی میں عشاء کی نماز ادا کی۔ جوڑوں کے درد کے باعث ان کے لیے چلنا اور مسجد تک جانا دوبھر تھا۔
’’جواد کی ماں! کیا سوگئی ہو؟‘‘ انھوں نے مصلیٰ لپیٹتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ کان کے پیچھے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
’’اپنے مطلب کی بات فوراً سن لیتی ہو۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا سوگئی تھیں؟‘‘ ظہور حسین زور سے بولے۔
’’جاگ رہی ہوں۔ کئی دن ہوگئے ہیں نہ جواد کو دیکھا ہے نہ تنویر کو اور حمیدہ نے بھی آنا چھوڑدیا ہے۔‘‘
ظہور حسین نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
’’آج سردی لگ رہی ہے۔‘‘ غلام فاطمہ رضائی کے اندر اپنی ٹانگوں کو سمیٹتے ہوئے بولیں۔
’’اب بیٹے کا خرچہ نہ کرادینا کہ نئی رضائی لادو یا ہیٹر لگادو۔‘‘ ظہور حسین سمجھانے والے انداز میں بولے۔
’’میرا دماغ خراب ہے، مجھے پتہ ہے کہ وہ کس طرح سے کما کر لاتا ہے… میں تو پوتا پوتی کے لیے لڈو لاکر رکھتی تھی مگر آج کل وہ ادھر آتے ہی نہیں، پتہ نہیں بہو نے منع کردیا ہے یا خود ہی نہیں آتے۔‘‘
’’وہ تمہارے پاس آکر کیا کریں گے۔ یہاں نہ ٹی وی ہے، نہ ان کی دلچسپی کا کوئی اور سامان ہے۔‘‘ ظہور حسین بستر پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’کیا دادادادی کی محبت کے ذخیرے میں اتنی کشش بھی نہیں کہ وہ محض ہم سے ملنے ہی آجائیں؟‘‘
یہ سن کر ظہور حسین کے چہرے کی لاتعداد جھریوں میں چند جھریوں کا اور اضافہ ہوگیا اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑھ گئی۔
’’تم بھی کن باتوں کو لے بیٹھی ہو غلام فاطمہ! جب اولاد ہمیں یہاں ردی سامان کی طرح پھینک گئی ہے تو ان معصوموں کا کیا قصور ہے۔‘‘
ظہور حسین بے جان آواز میں بولے۔
’’میں بچوں سے مل نہ آؤں؟ دو دن ہوگئے ہیں منظور نے بھی چکر نہیں لگایا، کہیں بیمار نہ ہوگیا ہو۔‘‘ غلام فاطمہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
ظہور حسین خاموش رہے۔
غلام فاطمہ بستر سے اٹھیں، پورے جسم کو شال سے ڈھانپا اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔
باہر ٹھنڈی ہوا نے ان کااستقبال کیا۔ ہاتھوں میں لڈو تھامے وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے باغیچے سے گزر کر اپنے بیٹے کے کمرے کے سامنے آگئیں۔ اندر سے ٹی وی چلنے کی آواز آرہی تھی۔ انھوں نے دروازے پر دستک دینے سے پہلے چند لمحوں کے لیے کچھ سوچا پھر ہولے ہولے دستک دی کہ کہیں زوردار آواز سے سائرہ ناراض نہ ہوجائے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا۔ دادی اماں کو دیکھتے ہی پوتے وقار کے چہرے پر بے تحاشا خوشی پھیل گئی، وہ دادی سے لپٹ گیا۔ صوفے پر بیٹھے منظور حسین نے مسکرا کر ماں کی طرف دیکھا، مگر سائرہ کے چہرے پر شکنوں کے کانٹے اگنے لگے پھر بھی وہ جھوٹی مسکراہٹ بکھیرنے میں کسی نہ کسی طرح کامیاب ہوگئی۔
’’آؤ اماں! بیٹھو۔‘‘ منظور اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔ کمرے میں غلام فاطمہ کو گرمی کا احساس ہورہا تھا، کیوںکہ وہاں دو دو ہیٹر چل رہے تھے۔
’’اماں! مصروفیت بہت تھی، اس لیے دو دن تک آپ کی خبر گیری نہیں کرسکا۔ آپ کے کمرے میں سردی تو نہیں؟‘‘
’’نہیں بیٹا ہمارا کمرا بہت گرم ہے اور ویسے بھی ہم بوڑھے ہوگئے ہیں، پتہ نہیں کب بلاوا آجائے۔ منظور بیٹے! بہت کمزور ہوگئے ہو، مجھے تمہاری بہت فکر رہتی ہے۔ میں نے بادام اور چار مغز کا سفوف بنایا ہے لانا بھول گئی ہوں اور …تین دن پہلے ساتھ والوں کے گھر میلاد پر گئی تھی، وہاں سے لڈو لے کر آئی ہوں۔ آج کل پوتا پوتی ہمارے کمرے میں آتے نہیں ورنہ میں یہا ںنہ آتی۔‘‘
منظور حسین نے ملامتی نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا۔ غلام فاطمہ نے لڈو وقار، وقاص اور عائشہ کے ہاتھوں میں تھما دیے، تینوں نے خوش ہوکر لڈو لیے اور ماں کی طرف دیکھا جیسے لڈو کھانے کی اجازت چاہتے ہوں، مگر ماں نے سر کے اشارے سے منع کردیا اور کہنے لگی ’’لڈو مجھے دے دو، صبح کو کھانا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ان کے ہاتھوں سے لڈو لے لیے اور الماری میں رکھ دیے۔
’’وقار بیٹا! کتنی بری بات ہے دادا اور دادی جان کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ دیکھو وہ کتنی سردی میں زحمت اٹھا کر تم سے ملنے آئی ہیں۔‘‘ منظور بچوں کو سرزنش کرتے ہوئے بولا۔
’’امی نے کہا ہے کہ دادا اور دادی کے کمرے میں جن رہتا ہے جو بچوں کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔‘‘ عائشہ نے معصومیت سے ماں کی بات اگل دی۔ منظور نے شعلہ بار نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا مگر وہ نظریںملتے ہی ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔
’’اماں جان! میں آپ کے لیے چائے بناتا ہوں۔‘‘ منظور اٹھتے ہوئے بولا۔
’’آپ بیٹھیں، میں بناتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر سائرہ کمرے سے نکل گئی۔
’’اماں! میں نے ابا جان کے لیے نئی رضائی بھجوادی ہے اور نئے سیل بھی! انھیں ذوق آگہی بے قرار رکھتا ہے۔ اس لیے خبریں سنتے ہیں۔ اُس زمانے کا تو آٹھ جماعت پاس بھی آج کے بی اے پاس سے بہتر ہے۔‘‘ منظور بولا۔
’’منظور بیٹے! تم اپنی صحت کا خیال رکھا کرو، دیکھو کیسی ہڈیاں نکل آئی ہیں۔ اتنا زیادہ کام کیوں کرتے ہو‘‘ ماں نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’اماں جان! مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ جب تک سارا دن جم کرکام نہ کیا جائے گزارہ نہیں ہوتا۔ اب دیکھو اس مہینے پندرہ سو روپے بجلی کا بل آیا ہے اور ہزار روپے ٹیلی فون کا۔‘‘
اتنے میں چائے آگئی۔ غلام فاطمہ چائے پیتے ہی واپس چلی گئی کیونکہ سائرہ نے بچوں کو ان کے کمروں میں بھیج دیا تھا اور منظور کو بھی جماہیاں آرہی تھیں۔
’’سائرہ تم زیادتی کرجاتی ہو۔‘‘ ماں کے جانے کے بعد منظور بیوی سے مخاطب ہوا۔
’’کیا، کیا ہے میں نے؟‘‘ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی۔
’’تمہارے کہنے پرمیں نے اپنے ماں باپ کو ایک بوسیدہ سی کوٹھڑی تک محدود کردیا، اب تم نے بچوں کو وہاں جانے سے منع کردیا ہے۔ تمہیں میرے والدین کے جذبات کا نہیں تو اپنے بچوں ہی کے جذبات کا خیال کرنا چاہیے۔‘‘
’’میں نے آپ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ انھیں ایک کمرے تک محدود کردیں، میں نے صرف یہ کہا تھا کہ امی ابا ہمارے ہر کام میں بے جا مداخلت کرتے ہیں، جو کبھی کبھار ناگوار گزرتی ہے۔ بس میں نے تو اتنی سی بات کی تھی۔‘‘ وہ شانِ بے نیازی سے بولی۔
’’میرے ساتھ زیادہ بحث نہ کرو۔‘‘ یہ کہہ کر منظور نے ٹی وی بند کردیا اور کمرے سے نکل گیا۔
٭٭
سخت سردی میں اپنے کمرے سے نکل کر پوتوں پوتیوں اور بیٹے سے ملنا غلام فاطمہ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ڈبل نمونیے میں مبتلا ہوکر وہ تیسرے روز چل بسیں۔ یوں ظہور حسین کا بہت بڑا سہارا چھن گیا۔ تینوں بیٹے اکٹھے ہوئے اور کئی دیگیں پکیں، ماں کی روح کو ثواب پہنچانے کے لیے بیٹے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے رہے۔ جواد حسین نے باپ کو اپنے پاس رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، تنویر حسین بھی انھیں اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا مگر بوڑھے ظہور حسین اس کمرے کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جہاں انھوں نے اپنی رفقیۂ حیات کے ساتھ آخری شب و روز گزارے تھے۔
کچھ روز تک بیٹے اس کی خبر گیری کرتے رہے بالآخر سب اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ آخر لوگ مرتے ہی رہتے ہیں مگر بعض از کار رفتہ قسم کے لوگوں کی موت پیچھے رہ جانے والے چند انسانوں کو ہمیشہ کے لیے بے چین کردیتی ہے۔ ظہور حسین وہ واحد آدمی تھے، جنھیں غلام فاطمہ کی رحلت کا بہت زیادہ صدمہ ہوا۔ وہ اس کوٹھڑی کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے لیکن وہ انھیں بے چین بھی بہت رکھتی تھی۔ اس کوٹھڑی کے باہر ان کے لیے تھا بھی کیا؟ اپنے مسائل اور اولاد کی تربیت میں مصروف و متفکر بیٹا جس کے پاس باپ کی تشفی کے لیے دو بول تو تھے مگر وہ بھی روکھے پھیکے اور منافقت میں لپٹے ہوئے، اپنے کاموں میں غرق بہو جو اپنے سسر کو دیکھتی تو اس کی تیوری پر بل آجاتے تھے۔ جب وہ کوٹھڑی کی تنہائی سے اکتا کر ’’اپنوں‘‘ کے پاس جاتے تو ان کی منافقت بھری باتیں انھیں مزید بے چین کردیتیں۔ وہ ہر نماز کے بعد بڑے خشوع وخضوع سے اللہ تعالیٰ کو اپنے لاحاصل وجود کا احساس دلاتے… اس وجود کا جو کسی پرانے بوسیدہ اخبار کے مانند بے کار ہوچکا تھا۔ وہ گڑگڑانے والے انداز میں اس دیس میں جانے کے لیے اللہ کے حضور التجا کرتے جہاں اب غلام فاطمہ کا قیام تھا مگر ان کی دعا اب تک شاید قبول نہیں ہوئی تھی۔ کمرے کے در و دیوار انھیں سیاہ ناگ کی طرح ڈستے رہتے۔ اور تنہائی کا زہر چاٹتا رہتا۔ ان کا زیادہ وقت مصلے ہی پر گزرتا۔ کبھی کبھار منظور آجاتا تو زیادہ تر اپنی مجبوریوں کا رونا روتا رہتا، گھر کے مختصر کمروں کا ذکر کرتا جن میں اس کے باپ کا رہنا مشکل تھا، پھر کوٹھڑی کی تعریف میں چند الفاظ کہتا، تنہائی کے فوائد پر چند باتیں بگھارتا اور آخر کار اس کو کوئی کام نکل آتا۔ پھر وہ تھوڑی دیر بعد آنے کی بات کہہ کر دو دو دن تک چکر نہ لگاتا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار تنویر اور جواد بھی آجاتے، حمیدہ بھی تنگیِ وقت کا گلہ کرتی اور واپس چلی جاتی۔ یوں ظہور حسین اپنے بوڑھے وجود کے ساتھ کمرے میں اکیلے رہ جاتے۔ وہ اکثر خیالوں میں غلام فاطمہ سے گفتگو کرتے رہتے جنھوں نے ان کے ساتھ زندگی کے پینتالیس سال گزارے تھے۔
ایک دن بارہ سالہ وقار اپنی گیند ڈھونڈتے ڈھونڈتے دادا کے کمرے میں آنکلا۔ اس وقت ظہور حسین عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ پوتے کی خوشبو انھوں نے محسوس کرلی تھی، لہٰذا نماز پڑھ کر وقار کو سینے سے لگالیا۔
’’دادا آپ کو اکیلے ڈر نہیں لگتا؟‘‘ پوتے نے کمرے کی فضا دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’ارے نہیں، مجھے کیوں ڈر لگے گا، قریب ہی میرا شیر بیٹا وقار جو رہتا ہے۔‘‘
’’تو کیا یہاں جن نہیں ہے؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔
’’نہیں تو، یہاں تو صرف میں رہتا ہوں۔‘‘ دادا نے اسے کرسی پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔
’’آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟‘‘ وقار نے پوچھا۔
بوڑھے ظہور حسین اس مشکل سوال کا جواب سوچنے لگے کیونکہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کو پوتے کی نظروں سے گرانا نہیں چاہتے تھے۔ ’’ارے بیٹا! تمہارے ابو تو روزانہ میری منتیں کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ رہو مگر مجھے یہ کمرا پسند ہے۔ ویسے بھی بوڑھے لوگوں کو جوان لوگوں کی محفلوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔‘‘
’’پھر آپ بوڑھوں کے گھر میں کیوں نہیں رہتے؟‘‘ وقار نے مشورہ دینے والے انداز میں استفسار کیا۔
’’بیٹے یہ بھی بڈھوں ہی کا گھر ہے۔‘‘
’’مگر دادا یہاں تو ٹیلی ویژن ہے نہ کوئی تفریح کا سامان ہے، نہ تمہارے کام کاج کے لیے کوئی نوکر ہے، یہ کیسا عجیب گھر ہے؟ یورپ میں تو بڑے ’بزرگ کدے‘ ہوتے ہیں۔‘‘
یورپ کے ’’اولڈ ہوم‘‘ کے تصور سے ظہور حسین مسکرا دیے۔ ’’بات تو ایک ہی ہے۔‘‘ انھوں نے دل میں سوچا۔ وہاں بھی بوڑھے الگ تھلگ رہتے ہیں مگر حکومت ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہے۔ یہا ںاولاد خدمت کے نام پر بوڑھے والدین کو اپنے پاس رکھتی تو ہے مگر انتہائی مجبوری کی حالت میں ان کی ہر بات کو فضول اور مشوروں کو بے جا مداخلت تصور کیا جاتا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب بوڑھے لوگ ہر جگہ اکیلے ہیں، مگر یورپ میں بڑھاپا بے بسی لے کر آتا ہے، لاچاری لے کر نہیں، یہاں کے بوڑھے تو کاٹھ کباڑ کی دکان میں رکھے ہوئے ناکارہ سامان کی طرح ہوتے ہیں… بے بس اور لاچار۔‘‘
’’یہ لو، آئس کریم کھالینا۔‘‘ ظہور حسین نے اپنے پوتے کے ہاتھ میں دس کا نوٹ تھماتے ہوئے کہا۔
وقار نے نوٹ پتلون کی جیب میں رکھ لیا۔
’’اچھا دادا! میں چلتا ہوں، یہا ںمیری گیند تو نہیں آئی؟‘‘
’’نہیں بیٹا! یہاں نہیں آئی کبھی کبھی آجایا کرو، بہن بھائی کو بھی لایا کرو۔‘‘
’’دادا آپ بھی ہمارے پاس آیا کریں۔ میرے دوست عامر کے دادا اسے روز کہانیاں سناتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بیٹا آؤں گا۔‘‘ ظہور حسین نے جواب دیا۔
وقار باہر نکل گیا۔
’’تجھے کیا معلوم پوتے میاں کہ جب سائرہ جیسی بہوئیں گھر میں آتی ہیں تو ظہور حسین اور غلام فاطمہ جیسے بوڑھے ایک الگ تھلگ کمرے میں محدود کردیے جاتے ہیں۔‘‘ ظہور حسین نے دل ہی دل میں وقار کے سوال کا جواب دیا۔ ’’کچھ تو وہ محدود کردیے جاتے ہیں اور کچھ خودداری کے ہاتھوں خود ہی سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔‘‘
ظہور حسین نے کمرے کا دروازہ بند کردیا۔
ایک ہفتے بعد ظہور حسین بیمار پڑگئے۔ زندہ رہنے کی امنگ پہلے ہی کم ہوچکی تھی، لہٰذا انھیں بیماری ہی میں نجات کا راستہ نظر آیا۔ منظور انھیں ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا، دوائیں بھی استعمال کرائیں مگر بیماری بڑھتی گئی، اور وہ بستر کے ہوکر رہ گئے۔ نماز بھی لیٹے لیٹے پڑھتے تھے۔ منظور نے بیوی کے مشورے پر دوسرے بھائیوں کو اطلاع دے دی۔ تنویر بیوی بچوں کے ہمراہ آگیا، وہ باپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر سائرہ نے اس کی خواہش یہ کہہ کر رد کردی کہ وہ آخری وقت میں اپنے سسر کو علیحدہ نہیں کرنا چاہتی۔ منظور نے بھی اس کی تائید کی۔ جواد حسین نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا، اسے بھی وہی جواب دے دیا گیا۔
ظہور حسین کا داماد پچھلے دو روز سے ان کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک دن اپنی بیوی حمیدہ کو تنہا پاکر اسے اپنے پاس بلایا ’’ابا کو اپنے ساتھ نہ لے چلیں؟‘‘ اس نے رازدارانہ لہجے میں پوچھا۔
’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ۔‘‘ حمیدہ شوہر کے پاس بیٹھتے ہوئے مغموم لہجے میں بولی۔
’’کیوں، اس میں ایسی ویسی کون سی بات ہے؟‘‘
’’بھائی منظور نہیں مانیں گے۔‘‘ حمیدہ نے جواب دیا۔‘‘
’’ہوں، مجھے معلوم ہے وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔‘‘
’’کیوں کررہے ہیں؟‘‘ حمیدہ نے سوال کیا۔
’’اپنی خدمات کا صلہ مانگے گا۔ کریم نگر والی سو کنال زمین چچا نے اچھے وقتوں میں خریدی تھی، وہ اپنے نام کرائے گا۔‘‘
’’مگر وہ تو ابا نے دس سال پہلے بیچ کر پیسے بیٹوں میں تقسیم کردیے تھے۔‘‘
’’اچھا تو ایک کام کرو۔‘‘ وہ رازدارانہ لہجے میں بولا۔
’’کیا؟‘‘
’’بڑی سڑک والی دکان ابا سے مانگ لو۔ تم جانتی ہو کہ میری ورکشاپ شہر سے ذرا دور ہے۔ میں اس دکان میں اپنی ورکشاپ کھول لوں گا۔ آخر تم ان کی بیٹی ہو، ان کی جائداد پر تمہارا بھی حق ہے۔‘‘
’’مگر اس حالت میں کیسے اس قسم کی بات کروں؟ وہ بہت بیمار ہیں۔‘‘ حمیدہ رونی صورت بناکر بولی۔
’’تم دیکھتی رہ جانا اور تمہارے بھائی وہ دوکان بھی لے اڑیں گے۔ میں تو تمہارے بچوں کے لیے یہ بات کہہ رہا ہوں، تم اگر نہیں چاہتیں تو نہ سہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سر کھجانے لگا۔
’’اچھا… میں بات کروں گی۔‘‘ حمیدہ کمرے سے نکل گئی۔
ظہور حسین کی آواز تقریباً بند ہوگئی تھی، ان کے سرہانے ایک مولوی صاحب قرآن پاک کی تلاوت کررہے تھے۔ جواد حسین کرسی سے ٹیک لگا کر مغموم صورت بنائے بیٹھا تھا ادھر منظور کے کمرے میں تنویر اپنے باپ کے ترکے کے بارے میں گفتگو کررہا تھا۔
’’کچھ نہیں ہے ابا کے پاس تنویر حسین! یہ تیرا وہم ہے اور ویسے بھی ابھی وہ زندہ ہیں، تو تو ایسے کہہ رہا ہے جیسے خدانخواستہ انھیں کچھ ہوگیا ہو۔‘‘ منظور نے جواب دیا۔
’’ابا کے ٹرنک میں کیا ہے؟‘‘ تنویر نے سوال کیا۔
’’کس ٹرنک میں؟‘‘
’’وہی ٹین کا صندوق جو ابا جان کے سرہانے رکھا ہوا ہے۔‘‘ تنویر نے کہا۔
’’تنویر! سچی بات یہ ہے کہ مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ اس میں کیا ہے۔ تیری بھابی بھی یہ بات پوچھ چکی ہے۔ ہوں گے میلے کپڑے اور کچھ عام سا سامان جو اس عمر کے لوگ سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں۔‘‘
’’صدیق کو ابا کے پاس نہ جانے دینا، مجھے شک ہے کہ وہ حمیدہ کو آگے کرکے بازار والی دکان اس کے نام کرانا چاہتا ہے۔‘‘ تنویر نے آواز دھیمی کرتے ہوئے کہا۔
’’پاگل تو نہیں ہوگیا تو تنویر! کیسی باتیں کررہا ہے؟ چالیس لاکھ کی دکان کیا ہم اسے آسانی سے دے دیں گے۔‘‘ منظور چارپائی سے اترتے ہوئے بولا۔ آؤ، ابا کے پاس چلتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ تنویر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔ ظہور حسین کی آنکھیں تھوڑی سی کھلی ہوئی تھیں، وہ منظور حسین کی طرف دیکھ رہا تھا، جیسے اس سے کوئی بات کرنا چاہتا ہو۔ جواد حسین نے منظور کو ابا کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ منظور اپنے باپ کے پہلو میں آن بیٹھا اور اپنے باپ کا ہاتھ تھام لیا۔
’’آج تو کتنی مدت کے بعد میرے اتنے قریب بیٹھا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ظہور حسین کی پلکوں کے گوشے بھیگ گئے۔
منظور کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ کمرے میں کھڑے ہوئے دوسرے لوگ بھی آنکھوں کے گوشے صاف کرنے لگے۔
’’میری آخری بات سن لے منظور حسین! میرے پاس وقت بہت کم ہے۔‘‘ ظہور حسین بمشکل بولے۔
’’ایسی بات تونہ کیجیے اباجان!… اللہ آپ کا سایہ ہمارے سر پر دیر تک قائم رکھے۔‘‘ منظور ان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
اس کی بات سن کر ظہور حسین کے نیم مردہ ہونٹوں پر خفیف سی طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی،کئی دن سے باپ کی موت کا استقبال کرنے والا بیٹاباپ کو نزاع کے عالم میں دیکھ کر درازیٔ عمر کی دعا دے رہا تھا۔
’’میری آخری خواہش تم سب سن لو۔‘‘ ظہور حسین نے تینوں بیٹوں، ایک بیٹی اور بہوؤں کو دیکھتے ہوئے اٹک اٹک کر کہا۔
سب ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
سیلن زدہ کمرے میں موت کا فرشتہ داخل ہونے کو تھا۔ چند لمحے خاموشی چھائی رہی پھر منظور حسین نے خاموشی کو توڑا۔ ’’بولیے ابا جان! آپ کی آخری خواہش کیا ہے؟‘‘
ظہور حسین نے ایک طویل سانس لینے کی کوشش کی پھر وہ گویا ہوئے : ’’منظور حسین! میرے مرنے کے بعد اس کمرے کو گرادینا…‘‘ یہ کہہ کر ان کی بوڑھی آنکھو ںسے میلے آنسوؤں کے دو قطرے نکلے اور گالوں سے ڈھلکتے ہوئے گردن پر پھیل گئے۔
’’مگر کیوں ابا جی؟‘‘ منظور حسین نے سوال کیا۔
’’بیٹا! بڑھاپے میں خود کو ناکارہ سمجھنے کا عذاب بہت دردناک ہوتا ہے جسے جوانی کے آوارہ قہقہے نہیں سمجھ سکتے۔ ایک کمرے میں محدود کردیے جانے کی سزا بہت بڑی سزا ہے۔ جب بیٹے اور پوتوں پوتیوں کے قہقہے کمرے کے سناٹے میں گونجتے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ جیسے میں اور تیری ماں بوڑھے ہوئے اس طرح تجھے بھی تو بوڑھا ہونا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تجھے اور میری بہو کو اس کمرے میں قید تنہائی کی سزا ملے… جب ہمیں ہمارے تینوں بیٹے اپنے درمیان برداشت نہیں کرسکتے تو تیرے بیٹے تجھے کہاں برداشت کریں گے۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گا کہ جس عذاب سے میں اور تیری ماں گزرے ہیں اس اذیت سے تجھے بھی گزرنا پڑے… بس اسی لیے اس کمرے کو مسمار کردینا۔‘‘
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی پھیل گئی۔
منظور حسین نے اظہارِ ندامت کے بجائے دفاعی انداز میںکہا: ’’ابا! میں نے آپ کی خدمت میں کون سی کسر چھوڑی ہے، ایسی باتیں تو نہ کیجیے۔
’’منظور حسین۔‘‘ ظہور حسین ٹوٹے پھوٹے لہجے میں گویا ہوئے ’’کھانا کھلادینا اور علاج کرادینا اگر والدین کی خدمت ہے تو وہ تو، تو اپنے جانوروں کی بھی کرتا ہے۔ کیا تو اپنے کتے کو کھانا نہیں کھلاتا، اس کا علاج نہیں کراتا بلکہ اسے تو تو اپنے بستر پر اپنے ساتھ بٹھاتاہے۔‘‘ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں بند ہوگئیں، انھوں نے زیرِ لب کلمہ پڑھا اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔ تینوں بیٹے اور بیٹی باپ کی طرف لپکے۔ جواد حسین نے ان کے گال تھپتھپائے، جھنجھوڑا مگر ستر سالہ ظہور حسین کی روح جسم کی قید سے آزاد ہوچکی تھی۔ اب وہ اس دیس کو سدھار چکے تھے، جہاں سے کسی کی کوئی دعا یا پشیمانی کے آنسو جانے والے کو واپس نہیں لاسکتے۔ کمرے میں سسکیاں بھرگئیں۔
باپ کو دفنانے کے بعد تینوں بیٹے واپس آئے اور ایک کمرے میں بیٹھ کر انھیں یاد کرنے لگے، اس دوران صدیق بھی آگیا۔
’’ابا وصیت کرگئے ہیں کہ مین بازار والی دکان حمیدہ کو ملے گی۔‘‘ صدیق نے رونی صورت بناکر کہا۔
’’کہاں ہے وصیت نامہ؟‘‘ تنویر حسین جھٹ سے بولا۔
’’کیا! مرنے والے کے الفاظ کافی نہیں ہوتے؟‘‘ صدیق نے جواب دیا۔
’’ہم نے تو نہیں سنے۔‘‘ جواد حسین نے جواب دیا۔
’’خدا کی قسم! میں نے خوداپنے کانوں سے سنے ہیں، حمیدہ کو بلوا کر پوچھ لو۔‘‘ صدیق دہائی دینے والے انداز میں بولا۔
’’دیکھ صدیق بھائی! اس کام کے لیے بہت وقت پڑا ہے، ابھی دو گھنٹے پہلے ہم نے اپنے باپ کو دفنایا ہے اور تم ابھی سے جائداد کی باتیں لے بیٹھے۔‘‘ منظور حسین خفگی سے بولا۔
’’میں تو مرنے والے کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں، اکلوتی بیٹی ہے، ان کی…‘‘ صدیق باری باری تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
اس کے بعد ان کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔
جائداد کے بٹوارے کا کام اگلے چند روز میں مکمل ہوگیا، اس دوران مرحوم کی روح کو ثواب پہنچانے کے لیے دیگیں بھی پکتی رہیں اور دوسرے کام بھی ہوتے رہے۔
پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرنے والا ذہن سے محو ہوگیا اور اس کی آخری خواہش بھی۔
وقت کا پہیہ اپنی مخصوص چال چلتا رہا۔ اس دوران منظور حسین نے وہ سیلن زدہ کمرا گراکر وہاں کار پورچ بنادیا۔ وقار نے ایم ایس سی کرلیا، بیٹی کو تو وہ دو سال قبال بیاہ چکے تھے جو انگلینڈ چلی گئی تھی۔ اب وہ سبکدوش ہوکر زندگی کی یکسانیت سے نبرد آزما تھا۔ سائرہ نے گھر کے سناٹے کو ختم کرنے کے لیے منظور حسین کو یہ مشورہ دیا کہ وقار کی شادی کردی جائے، بہو کے آنے اور بعد ازاں پوتوں پوتیوں کے شور سے دل بہلا رہے گا۔
منظور حسین نے اس کی تجویز سے اتفاق کیا، پھر چند ماہ بعد وقار کی شادی کردی گئی۔ وقار کو بہت امیر کبیر گھرانے سے رشتہ ملا تھا، سدرہ تعلیم یافتہ تھی، اس کے آنے سے گھر میں ایک بار پھر زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ اگلے سال ان کے ہا ںایک بیٹے کی پیدائش ہوئی پھر دو سال بعد دوسرا بیٹا پیدا ہوا، پہلے بیٹے کا نام فائق اور دوسرے کا لائق رکھا گیا۔
فائق اور لائق کی ننھی منی شرارتوں سے سارے گھر میں رونق رہتی۔ منظور حسین کے سر کے بال اڑچکے اور داڑھی میں برائے نام ہی کالے بال تھے۔ سائرہ بھی موٹے شیشوں والی عینک لگا چکی تھی۔ رفتہ رفتہ بہو کے تیور بدلنے شروع ہوگئے۔ منظور حسین کو کھانسی کی شکایت رہتی تھی ، اس لیے سدرہ کو شک ہوگیا کہ اس کے سسر کو ٹی بی ہے، لہٰذا اس نے اعلانیہ بچوں کو ان سے دور رکھنا شروع کردیا۔ اب منظور حسین اور سائرہ رہتے تو ان کے ساتھ ہی تھے مگر نہ ہونے کے برابر۔ نہ ان سے وقار کوئی بات کرتا، نہ سدرہ البتہ وہ خود کوئی بات کرتے تو کوئی روکھے پھیکے انداز میں جواب دے دیتا تھا۔
شام کا وقت تھا، سدرہ اور وقار صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ منظور حسین کمرے میں داخل ہوا۔
’’اباجان! آپ سے ہزار دفعہ کہا ہے کہ اپنے کمرے میں رہا کریں، گھنٹی لگی ہوئی ہے، جس چیز کی ضرورت ہو بجاکر منگوالیا کریں۔ آپ کے لیے میں نے نوکر رکھا ہوا ہے، اب اتنی سردی میں اگرآپ کو بخار ہوجائے تو…‘‘ وقار اکھڑلہجے میں احترام کی آمیزش کرتے ہوئے بولا۔
منظور حسین کا چہرہ قدرے تاریک ہوگیا مگر اس نے اپنے کرب کو جبری مسکراہٹ میں چھپالیا۔ اس اثنا میں سائرہ بھی اس کے پیچھے آن کھڑی ہوئی۔
’’وقار بیٹا! ہم تو اپنے پوتوں سے ملنے آئے ہیں۔ تمہاری ماں ضد کررہی تھی کہ لائق اور فائق کو…
’’مگر وہ دونوں تو سو رہے ہیں۔‘‘ سدرہ وقار کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’اچھا؟ سو رہے ہیں؟‘‘ … منظور حسین نے زیرِ لب کہا اور مضمحل قدموں سے سائرہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے واپس مڑگیا۔ ان کے جانے کے بعد سدرہ نے وقار سے کہا: ’’ابا کو ٹی بی ہے اورمیں ڈرتی ہوں کہ ان کے جراثیم بچوں کو نہ لگ جائیں۔‘‘
’’ارے ٹی بی نہیں ہے سگریٹ پیتے ہیں، اس لیے کھانستے رہتے ہیں، تم وہم نہ کیا کرو۔‘‘ وقار نے ریموٹ سے ٹی وی کا چینل تبدیل کرتے ہوئے کہا۔
’’احتیاط اچھی چیز ہے وقار! بچوں کا دفاعی نظام کمزور ہوتا ہے، تم اسے صرف کھانسی نہ سمجھو۔ اگر خدانخواستہ انہیں یہ بیماری ہوئی تو بچوں کو اور ہمیں بھی لگ سکتی ہے۔ ہمارا دین اسلام بھی تو احتیاط کا درس دیتا ہے۔‘‘
’’اچھا، اچھا، چھوڑو اس بات کو۔ میں کل ہی ابا کا معائنہ کراؤں گا۔‘‘ وقار جھنجھلاتے ہوئے بولا۔
’’میرے ذہن میں ایک تجویز ہے۔ سدرہ ٹھوڑی سہلاتے ہوئے بولی۔
’’ہاں، ہاں، کہو کیا تجویز ہے؟‘‘ وقار نے پوچھا۔
’’یہ ٹھیک ہے کہ بزرگ باعثِ رحمت ہوتے ہیں مگر ہر کام میں ان کی مداخلت ناگوار گزرتی ہے۔ امی ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتی ہیں۔ پتہ نہیں کیا کیا الّم غلّم بچوں کو کھلاتی رہتی ہیں۔ گھر تو سارا ایک ہی ہے، آپ یوں کریں کہ کارپورچ کے ساتھ ایک کمرا بنا کر امی ابا کو وہیں منتقل کردیں۔ منسلک غسل خانہ بھی بنادیں اور خدمت کے لیے نوکر بھی رکھ دیں۔ میرے خیال میں اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے،ہم بھی وقتاً فوقتاً ان کی دیکھ بھال کرتے رہیں گے۔‘‘
وقار خلا میں گھورتے ہوئے سدرہ سے مخاطب ہوا ’’کچھ اچھا نہیں لگتا!‘‘ اب بھی الگ تھلگ ہی تو پڑے ہوئے ہیں، ہم سے کیا لیتے ہیں؟‘‘
’’آپ تو کام پر چلے جاتے ہیں اور صبح کے گئے شام کو واپس آتے ہیں۔ مسئلہ تو میرے ساتھ ہوتا ہے، مگر آپ کو مجھ سے اور میرے مسائل سے کیا آپ کو تو بس اپنے کام سے مطلب ہے۔‘‘ سدرہ خفا ہوتے ہوئے بولی۔
’’اچھا بابا اچھا، جیسے تم کہو گی ویسے ہی ہوگا۔‘‘ وقار نے اسے مناتے ہوئے کہا اور سدرہ مسکرادی۔
اگلے روز کارپورچ کے ساتھ خالی جگہ پر ایک کمرے کی تعمیر شروع ہوگئی۔ تقریباً ایک ہفتے میں کمرا مکمل ہوگیا جس میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے علاوہ غسل خانہ بھی تھا۔ کونے میں جائے نماز بھی رکھ دی گئی اور بوڑھے منظور حسین اور بوڑھی سائرہ بیگم کو بصدِ احترام وہاں منتقل کردیا گیا۔
منظور حسین اور سائرہ بیگم کے لیے تیار ہونے والا کمرہ گھر کے بقیہ حصے سے زیادہ دور نہیں تھا… کم از کم وقار اور اس کی بیگم کے قہقہے اور پوتوں پوتیوں کی آوازیں ان کے کانوں تک پہنچ سکتی تھیں۔ منظور حسین مضمحل قدموں سے چلتا ہوا چارپائی پر آن بیٹھا، سائرہ بیگم بھی دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’سائرہ بیگم۔‘‘ منظور حسین نے کھوئے کھوئے لہجے میں اسے پکارا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ سائرہ نے کھوکھلی آواز میں پوچھا۔
منظور نے کہا ’’سائرہ بیگم! قید خانہ ڈھادینے سے سزا نہیں ٹل سکتی۔ کل میں نے اپنے ماں باپ کو جداگانہ کوٹھڑی میں منتقل کیا تھا آج میرے بیٹے نے ہمیں الگ کرکے تنہائی کے حوالے کردیا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ محض کہاوت ہی نہیں بہت بڑی حقیقت بھی ہے جو آج مکمل بے رحمی اور عبرت آموز معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہے ؎
اب گھر میں کہیں بوئے دمساز نہیں آتی!
اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی!
’’میں نے اپنے بوڑھے والدین کی تھوڑی سی خدمت تو کی تھی لیکن وہ ان کے اُن احسانات کا پاسنگ بھی نہیں تھی، جو وہ مجھ پر ہر طرح کی مشقت جھیل کر ہر آن کرتے رہتے تھے۔ وہ مجھ سے کسی مالی منفعت کے طلبگار نہیں ہوئے۔ ان کی مسرت کا پیالہ اس قدر اتھلا تھا کہ بس مجھے ایک نظر دیکھتے ہی بھرجاتا مگر میں اتنا شقی القلب تھا کہ والدین کو تنہائی کے حوالے کرکے فوراً بیوی بچوں کے پاس جانے کے بہانے ڈھونڈھتا رہتا۔ میں نے ان کے بڑھاپے کی رفاقت کا حق کبھی ادا نہیں کیا… اب میرا بیٹا بھی مجھ سے اسی سلوک کا اعادہ کررہا ہے۔
’’میں نے آج ٹی وی پر ایک عالمِ دین کا درس سنا۔ درس کی جان یہ حدیث مبارک تھی: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا : میںجہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ آپ نے پوچھا: تمہارے ماں باپ ہیں؟اس نے کہا: جی ہاں ہیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: پھر تم ان کی خدمت کرو اور ہر طرح سے ان کے آرام کا خیال رکھو۔ یہ ہی تمہارا جہاد ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
بوڑھے منظور کی دلدوز باتیں سن کر سائرہ نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور بولی:
’’افسوس! بعض سچائیاں کتنی دیر بعد بلکہ کبھی کبھی وقت گزرجانے کے بعد سمجھ میں آتی ہیں۔ تم نے جو حدیث شریف سنائی اس میں رسالت مآبﷺ نے والدین کے بارے میں نہایت عظیم شرف ومنزلت کا درس دیا ہے۔ ہم لوگ غفلت میں پڑے رہے اور وقت دبے پاؤں گزرگیا۔ ہم نے اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی تعلیمات کی طرف توجہ ہی نہیں دی آج ہم اسی غفلت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
’’میرے سرتاج! ابھی جاؤ اور یہ حدیث مبارک وقار اور سدرہ کو بھی سناؤ۔ ان سے کہو کہ وہ نئی تہذیب کے چمکدار خول سے باہر نکلیں، دینی تعلیمات کا نور حاصل کریں اور اپنے بچوں کو بھی دلسوزی سے دینی تعلیم دلائیں تاکہ وہ کل اس انجام کو نہ پہنچیں، جس انجام سے آج ہم دوچار ہیں اور حسرت سے ہاتھ مل رہے ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146