بیسویں صدی جن حالات میں ختم ہوئی وہ اردو کے لیے سازگار نہیں کہے جاسکتے۔ آزادی کے بعد اردو ادب کی ترقی میں جو مشکلات پیش آنے لگیں وہ آدھی صدی تک بڑھتی ہی چلی گئیں۔ کوئی سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری ادارہ ان مشکلات کو دور نہیں کرسکا۔ اردو رسالوں اور کتابوں کی اشاعت اردو کے مسائل کا حل نہیں ثابت ہوئیں۔ ان مسائل کا تعلق حسب ذیل دائروں سے ہے:
(۱) ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ سطحوں پر اردو زبان و ادب کی تعلیم۔
(۲) روزگار کاروبار، محکموں اور دفتروں میں اردو کا عام استعمال۔
پہلے دائرے میں دستورِ ہند کی دفعات ۲۹ اور ۳۵۰ الف کا استعمال کم سے کم تر ہوتا گیا۔ اس کے علاوہ، سرکاری طور پر تجویز اور منظور کردہ سہ لسانی فارمولہ نہ صرف یہ کہ صحیح اور پورے طور پر روبہ عمل نہیں آیا، بلکہ اس کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ دستور کے بنیادی حقوق میں متعلقہ دفعات کے باوجود اقلیتی تعلیمی اداروں کے قیام و استحکام کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
دوسرے دائرے میں دستور کی دفعہ ۳۵۰ اور بہار میں اردو بہ حیثیت دوسری سرکاری زبان کے ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے باوجود اردو کاسرکاری استعمال بہت کم ہوا۔
مندرجہ بالا حقائق نے عام اردو آبادی میں ایک غلط رجحان پیدا کردیا۔ خوش حال خاندانوں نے اپنی نئی نسل کا مستقبل اردو کے ساتھ وابستہ کرنے کی فکر چھوڑ دی۔ نہ صرف ذریعہ تعلیم بلکہ ایک مضمون کی حیثیت سے بھی اردو اختیار کرنا غیرمفید اور بے کار سمجھا جانے لگا۔ انتہا یہ ہے کہ اصولی طور پر غلط اور عملی طور پر نقصان دہ ہونے کے باوجود انگلش میڈیم پرائمری اسکول کا رواج عام ہوگیا۔
آزادی کے بعد اردو صحافت کسی اعلیٰ سماجی مقصد سے بیگانہ ہوگئی۔ اشتہار بازی، سنسنی خیزی اور مفاد پرستی نے اردو اخبارات کے معیار و مقبولیت دونوں کو کم سے کم کردیا۔ چنانچہ سماج کی رائے عامہ پر ان کا اثر باقی نہیں رہا۔
ادب میں ماقبلِ تقسیم کا علمی سرمایہ جیسے جیسے ختم ہوتا گیا اس کی جگہ غیر علمی تحریریں سامنے آنے لگیں۔ ۱۹۶۵ء کے قریب خود ساختہ رجحانات کو فروغ دینے کے لیے حلقہ بندیاں اور ریشہ دوانیاں ہونے لگیں۔ آزاد نظم، آزاد غزل اور بے ماجرا علامتی افسانے لکھے جانے لگے۔ ان جعلی و مصنوعی، غیر دل چسپ اور غیر مفید چیزوں نے عام قارئین کو اردو ادب کی نئی کاوشوں سے بہت دور کردیا۔ نتیجتاً رومانی اور جاسوسی ڈائجسٹوں نے بازار پر قبضہ کرلیا۔ تخلیقی و تحقیقی کارناموں کی رونق باقی نہیں رہی۔
یہی کیفیت اکیسویں صدی میں اردو زبان و ادب کو بیسویں صدی سے گویا ورثے میں ملی۔ درحقیقت موجودہ صدی میں یہ ورثہ بد سے بدتر شکل میں پروان چڑھ رہا ہے۔ اس صورت حال کی ایک نمایاں مثال فروغِ اردو کونسل، حکومتِ ہند کے ماہ نامے ’’اردو دنیا‘‘ بابت جنوری ۲۰۰۳ء میں سامنے آئی تھی جس میں ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، وزیر سابق برائے فروغ انسانی وسائل، حکومتِ ہندنے اردو کو بدلے ہوئے الفاظ میں ہندی کی ایک شیلی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ۱۹۴۱ء میں ہمایوں کبیر کے لکھے ہوئے ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ شائع کیا گیا ہے، جس میں لاطینی رسمِ خط کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ دونوں مضامین جس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ بہت سنگین، پُر خطر اور تشویش انگیز ہے۔ اردو ایک مستقل بالذات زبان ہے، جو یقینا دیوناگری ہندی سے پرانی ہے، جیسا کہ ۱۸۰۰ء میں قائم شدہ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے۔ اردو ادب ایک ترقی یافتہ ادب ہے، جس کی شہرت عالم گیر ہے، رسمِ خط زبان کی کھال ہے، جس کے بغیر اس کے جسم کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔ اپنے حروف تہجی کے اعتبار سے اردو رسمِ خط ہر قسم کی آوازوں کی ادائیگی جتنے جامع طور پر کرتا ہے وہ نہ تو لاطینی رسمِ خط کرسکتا ہے، نہ دوسرا کوئی رسمِ خط۔ اردو رسمِ خط کی خوبصورتی بجائے خود فن کا ایک کمال ہے۔ اب اس کی تحریر و طباعت کی بھی جدید ترین سہولتیں فراہم ہوگئی ہیں اور نشرو اشاعت کی بھی۔
اس لسانی حقیقت کے باوجود اردو ادب کو دیوناگری رسمِ خط میں شائع کرنے کا کاروبار بڑھتا جارہا ہے۔ اس کا مقصد تجارت کا فروغ ہے۔ معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اردو ادب کی مقبولیت میں اضافہ اس کی خوبیوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہندی کے حروف آشنا خریداروں کی تعداد روز افرزوں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان کا بہترین ادب تو اردو زبان اور اس کے رسمِ خط میں لکھا گیا، مگر اس کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرکے سکہ ڈھالنے کے لیے دیوناگری رسمِ خط کا کاروباری سہارا لیا جارہا ہے۔ یہ عجیب و غریب صورتِ حال اردو زبان کی بے چارگی پر دلالت کررہی ہے۔ بازار کی بول چل عوامی سطح پر شروع سے آج تک اردو رہی ہے اور پورے ملک میں رابطے کی زبان (Link Language) اس کے سوا کوئی اور نہیں، خواہ اصحابِ اقتدار اس کو پسند کریں یا نا کریں۔ لیکن عوام کا بڑا طبقہ اردو پڑھ نہیں رہا ہے۔ سرکاری طور پر تعلیم عامہ کی جو مہم ذرائع ابلاغ میں چل رہی ہے وہ دیو ناگری حروف میں ہے۔
بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں یہ فرق و امتیاز اردو کے لیے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اردو دوستوں کو وقت کا یہ چیلنج قبول کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے اردو کی عام تعلیم اور اردو کا عام استعمال وسیع ترین پیمانے پر، زندگی کے ہر دائرے میں، خود بھی کرنا ہے اور حکومت سے بھی کرانا ہے۔ پہلا کام اردو آبادی کا حق ہے اور دوسرا فرض۔ گرچہ پہلے کام کو فرض اور دوسرے کام کو حق کہنا بہتر ہوگا۔ بہر حال، حق اور فرض ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ حق اسی کو ملتا ہے، جو فرض ادا کرتا ہے اور فرض ادا کرنے والا اپنا حق لے کر رہتا ہے۔ اردو بولنے والے ملک میں برابر کے شہری ہیں۔ لہٰذا ان کے حقوق اور ہیں، فرائض کی انجام دہی اور حقوق کا حصول ایک جمہوری مہم ہے۔ لہٰذا اسے جمہوری طور پر چلانا ہے اور آئین کے تحت سیاستِ وقت میں بھی حصہ لے کر حکام سے اردو کے عوامی مطالبات منوانے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ خود بھی کچھ کرکے دکھانا ہے۔ اردو کا پیغام ہر حلقہ اور جماعت تک عملی طور سے پہنچانا ہے اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے عوامی دباؤ بھی ڈالنا ہے۔
اردو کی ترقی کا مسئلہ تعلیمی و تہذیبی بھی ہے۔ انتظامی و کاروباری بھی، اور معاشی و سیاسی بھی۔ اس کا تعلق قومی یک جہتی اور سماجی فلاح دونوں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے دو ہی سال بعد ۱۹۴۹ء میں سہ لسانی فارمولا وضع کیا گیا اور ۱۹۶۱ء کی وزرائے اعلیٰ کانفرنس میں اس کی توثیق کی گئی۔ اصلاً یہ فارمولا اسکول کی ثانوی تعلیم کے لیے تجویز کیا گیا تھا، اس لیے کہ ابتدائی تعلیم کے لیے مادری زبان کا استعمال ایک تسلیم شدہ مفروضہ تھا۔ اس فارمولے کی تعبیر و تشریح بھی بہت کی گئی ہے اور اس کی تبدیلی و تحریف کی کوشش بھی بہت ہوئی ہے۔ لیکن اس کی معقول ترین شکل حسب ذیل ہے:
(۱) مادری زبان
(۲) جدید ہندستانی زبان
(۳) انگریزی زبان
مندرجہ بالا شکل سے مختلف تعبیر و ترتیب پسندیدہ، قابلِ قبول اور کارآمد نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود مذکورہ فارمولے پر صحیح طور سے عمل نہیں ہورہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ملک و قوم کی سالمیت کے مدِّ نظر اکیسویں صدی میں سہ لسانی فارمولے پر عمل درآمد اس کی اصلی اسپرٹ اور اس کے حقیقی مقصد کے لیے ہو۔ بروقت شمالی ہند میں سرکاری طور پر مادری زبان، اردو کی تعلیم کا تسلی بخش بندوبست نہیں ہورہا ہے۔ اس کے باوجود اردو بولنے والے دوسری یعنی جدید ہندستانی زبان کے طور پر ہندی پڑھ رہے ہیں، مگرہندی بولنے والے اردو نہیں پڑھ رہے ہیں، ایک قدیم زبان، سنسکرت اختیار کررہے ہیں۔ کچھ لوگ دوسری زبان کے طور پر دکھن کی زبانوں کے نام بھی لے رہے ہیں۔ یہ ساری حرکت اردو کو نظر انداز کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ ایسی اردو دشمنی کھلی ہوئی فرقہ پرستی ہے اور قومی یک جہتی کے سراسر خلاف ہے۔
زبان کا مسئلہ بہت نازک اور پُر خطر ہے۔ اس سے سماج میں تفریق پیدا ہوسکتی ہے، بلکہ ہورہی ہے۔ اس سے اکثریت اور اقلیت کے درمیان مذہبی نفاق بڑھ سکتا ہے، سیاسی تفرقہ بھی ہوسکتا ہے۔ سماجی انصاف کا خوف تو ہو ہی رہا ہے۔ کہنا چاہیے کہ اردو والوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ اکیسویں صدی میں مزید ایک قدم آگے بڑھنے سے پہلے مندرجہ ذیل کارروائی کا انتظام موثر طور پر کیا جائے:
(۱) ابتدائی سے ثانوی سطحوں تک مادری زبان کی حیثیت سے اردو کی تعلیم کا بندوبست ہر جگہ بلا شرط کیا جائے۔
(۲) دوسری اور جدید ہندوستانی زبان کی حیثیت سے ہندی بولنے والے سیکنڈری اسکولوں میں اردو ہی پڑھیں۔
(۳) ہر دفتر اور محکمے میں اردو کے استعمال کا انتظام بھی عام طور پر کیا جائے۔
اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ انگریزی صرف ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جائے، نہ کہ ذریعہ تعلیم کے طور پر۔ یہ بندش پرائمری اور سکنڈری ایجوکیشن میں لگائی جائے۔ ہائیر ایجوکیشن میں یونیورسٹیوں کے اندر، خاص کر سائنس کی تعلیم کے لیے، انگریزی کا استعمال ایک مدت تک کسی بھی انداز سے کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال، اردو جس آبادی کی پہچان اور ذریعۂ اظہار ہے اسے جمہوری و سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ رضا کارانہ عمل بھی عوامی سطح پر کرنا چاہیے۔ اس کی طلب بھی ہے، ضرورت بھی۔ اردو آبادی اپنی جان داری کا ثبوت دے، پیش قدمی کرے، منظم و موثر وکاوش سے کام لے، تحریک چلائے، اپنی سی انتہائی کوشش کرے اور قانون ساز اداروں میں جاکر اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھنے والے سماج کے نمائندوں پر بھی ہر ممکن جائز دباؤ ڈالے۔
اس سلسلے میں اردو ذریعۂ تعلیم پر مبنی اسکولوں کے قیام اور مکاتب و مدارس کے استحکام پر توجہ دینا ایک فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہر اردو دوست اور تمام اردو اداروں، حلقوں اور تنظیموں کے لیے لازمی ہے۔ اپنی مدد اآپ اور اپنی عزت آپ کے بغیر زندہ رہنا اور آگے بڑھنا ناممکن ہے۔