عَنْ زِیَادِ بْنِ نُعَیْمِ نِ الْحَضْرَمِیِّؓ قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ اَرْبَعٌ فَرَضَھُنَّ اللہَ فِی الْاِسْلاَمِ، فَمَنْ اَتٰی بِثَلاَثٍ لَمْ یُغْنِیْنَ عَنْہُ شَیْئًا حَتّٰی یَاتِیَ بِھِنَّ جَمِیْعًا، اَلصَّلٰوۃُ وَالزَّکٰوۃُ وَ صِیَامُ رَمَضَانَ وَ حَجُّ الْبَیْتِ۔(مسند احمد)
ترجمہ:’’ حضرت زیادؓ نے کہا فرمایا رسول اللہؐ نے: اسلام میں چار عبادتیں اللہ کی فرض کردہ ہیں، جو شخص اِن میں سے تین کو تو کرے پر چوتھی نہ کرے، تو وہ تینوں اس کے کام نہ آئیں گی جب تک چاروں بجا نہ لائے۔ وہ چار فرض عبادتیں یہ ہیں نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزے اور حج۔‘‘
تشریح:
یہ حدیث اور دوسری ہم معنی حدیثیں بتاتی ہیں کہ نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کی دین میں کیا اہمیت ہے، آج ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ بہت بڑی اکثریت نماز کی تارک ہے، جو لوگ نماز پڑھتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگ زکوٰۃ نہیں نکالتے، کچھ صرف روزہ رکھتے ہیں نماز کے قریب نہیں جاتے اور نہ زکوٰۃ ادا کرتے، کچھ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فکر کرتے ہیں مگر حج سے غافل ہیں۔ ایسے لوگ حساب کے دن بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، اللہ ان سے پوچھے گا میں نے تم پر چار چیزیں فرض کی تھیں، تین یا دو یا ایک نہیں، پھر یہ تقسیم تم نے کس اختیار و اقتدار کی رو سے کیا؟ بندگی کا اقرار کرکے، کلمہ پڑھ کر، مسلمان ہوکر، نبیؐ کے اُمتی ہوتے ہوئے یہ بغاوت کیوں کی؟ تو لوگ کیا جواب دیں گے اور کیسی رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا!