ازدواجی زندگی اور شک کی چھری

ابوالفضل نور احمد

شک اور بدگمانی ایک لاعلاج بیماری تباہی کا باعث ہے۔ ازدواجی زندگی کے لیے تو یہ زہرِ قاتل ہے۔ افسوس بعض عورتیں بلکہ کہنا چاہیے بڑی تعداد میں عورتیں اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ ایک شکی عورت سوچتی ہے کہ ’’اس کا شوہر جائز و ناجائز طور پر اس سے خیانت کررہا ہے، فلاں بیوہ عورت سے ملتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔
شکی عورتیں اس قسم کی بیکار باتوں پر یقین کرکے اپنے شوہروں کے تئیں بدگمانی میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ان کا یہ شک یقین میںبدل جاتا ہے، وہ اس سلسلے میں اس قدر سوچتی ہیں کہ ہر بات میں انھیں شک ہونے لگتا ہے۔ شب و روز اسی موضوع پر بات کرتی ہیں، جہاں بیٹھتی ہیں، ہر دوست و دشمن کے سامنے کہہ ڈالتی ہیں، وہ لوگ بھی سوچے سمجھے بغیر ہمدردی کے طور پر ان کی باتوں کی تائیدکرتے ہیںاور مردوں کی خیانت اور بے وفائی کے سیکڑوں قصے بیان کرتے ہیں۔
اعتراضات اور بدمزگی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گھر کے کام اور بچوں کی نگہداشت صحیح طریقے سے نہیں ہوپاتی۔ ہر روز لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ بیوی ناراض ہوکر میکے چلی جاتی ہے۔ شوہر کی طرف سے بے اعتنائی برتتی ہے، سایے کی طرح شوہر کا پیچھا کرتی ہے۔ اس کی جیبوں کی تلاشی لیتی ہے، اس کے خطوط پڑھتی ہے۔ اس کی تمام حرکات و سکنات کا جائزہ لیتی ہے اور ہر بے ربط حادثے کو اپنے شوہر کی خیانت سے تعبیر کرتی ہے اور اپنے شک کو یقین میں بدل لیتی ہے۔
اس قسم کی باتوں سے وہ اپنی اور بیچارے شوہر اور بچوں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے۔ گھر کو، جسے کہ مہر و محبت اور آرام و سکون کا گہوارہ ہونا چاہیے، قید خانہ بلکہ جہنم بنادیتی ہے اور جو آگ وہ لگاتی ہے اس میں خود بھی جلتی ہے اور بے گناہ بچوں اور شوہر کو بھی جلاتی ہے۔ مرد جو بھی ثبوت پیش کرے، قسمیں کھائے، خوشامد کرے اور جتنی بھی صفائی پیش کرے لیکن ایسی شکی اور حاسد عورت مجال ہے جو ٹس سے مس ہوجائے۔
اس قسم کے سیکڑوں افراد ہمارے سماج میں موجود ہیں جن سے آپ بھی واقف ہوں گے۔ یہاں چند واقعات کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ فیملی کورٹ میں ایک خاتون کہتی ہے: ’’تعجب نہ کیجیے کے بارہ سال ساتھ زندگی گزارنے اور چھوٹے بڑے تین بچوں کہ ہوتے ہوئے میں نے اپنے شوہر سے کیوں علیحدگی اختیار کرلی، کیوں کہ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میرا شوہر میرے ساتھ بے وفائی کررہا ہے۔ چند روز قبل فلاں سڑک پر میں نے ایک بنی سنوری عورت کے ساتھ اس کو جاتے دیکھا تھا یقینا وہ اس کی معشوقہ ہوگی جو جون کے مہینے میں پیدا ہوئی ہوگی۔ میں ہر ہفتے قسمت کا حال بتانے والا رسالہ پڑھتی ہوں۔ زیادہ تر میرے شوہر کی قسمت کے حال میں لکھا ہوتا ہے کہ آپ کا وقت جون کے مہینے میں پیدا ہونے والے افراد کے ساتھ اچھا گزرے گا۔ میں فروری میں پیدا ہوئی ہوں لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی دوسری عورت ہے جس کے ساتھ اس کا وقت اچھا گزرے گا، اس کی علاوہ میں نے محسوس کیا ہے کہ میرے شوہر کو اب مجھ سے پہلی سی محبت نہیں رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاتون اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
اس کے شوہر نے کہا: ’’آپ ہی بتائیے میں کیا کروں، کاش یہ رسالے اس قسم کے وہمی قارئین کی فکر کریں اور اس طرح کی فضول باتوں سے پرہیز کریں، یقین کیجیے ان باتوں کے سبب میری اور میرے بچوں کی زندگی تلخ ہوگئی ہے۔ اگر کسی ہفتے میری قسمت کے حال میں لکھا ہوتا ہے کہ اس ہفتے پیسہ ملے گا تو میرے سر ہوجاتی ہے کہ اس پیسے کا کیا کیا؟ یا اگر لکھا ہوتا ہے کہ آپ کا خط آئے گا تو بس کچھ نہ پوچھئے۔ اب میں سوچتا ہوں یہ عورت کبھی نہیں بدلے گی لہٰذا یہی بہتر ہے کہ ہم علیحدہ ہوجائیں۔‘‘
ایک مرد عدالت میں بیان دیتا ہے:
ایک ماہ قبل ایک دعوت سے گھر واپس آرہا تھا، اپنے ایک ساتھی کو بھی میں نے اپنے ساتھ کار میں بٹھا لیا جو اپنی بیوی کے ہمراہ اس دعوت میں شریک تھا۔ دوسرے دن صبح میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ راستے میں اس کی ماں کے گھر چھوڑتا ہوا جاؤں، چنانچہ ہم دونوںکار میں سوار ہوئے، راستے میں میری بیوی نے پیچھے کی سیٹ پر نظر کی اور سر کا ایک کلپ اٹھا کر مجھے دکھاتے ہوئے پوچھا کہ یہ کلپ کس عورت کا ہے؟ ڈر کے مارے مجھے اس وقت کچھ یاد ہی نہیں رہا کہ میری گاڑی میں کون بیٹھا تھا اور میں وضاحت نہ کرسکا۔ شام کو جب میں اس کو لینے گیا تو اس نے کہلوادیا کہ گھر واپس نہیں جاؤںگی۔ جب میں نے سبب پوچھا تو دروازے کے پیچھے سے کہا کہ بہتر ہے اسی عورت کے ساتھ رہو، جس کے سر کا کلپ تمہاری کار میں تھا۔
ایک نوجوان خاتون شکایت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میرا شوہر اکثر راتوں کو یہ کہہ کر کہ اس کے دفتر میں کام زیادہ ہے، دیر سے گھر آتا ہے۔ یہی چیز میری پریشانی کا سبب ہے، خصوصاً جب سے چند پڑوسی عورتوں نے کہا ہے کہ تمہارا شوہر جھوٹ بولتا ہے۔ راتوں کو آفس میں اوور ٹائم کرنے کے بجائے دوسری جگہ جاتا ہے اور وہاں وقت گزارتا ہے۔ مجھے اس وقت سے زیادہ بدگمانی پیدا ہوگئی ہے میں ایسے مرد کے ساتھ زندگی نہیں گزارسکتی جو مجھ سے جھوٹ بولتا ہو۔
اس وقت اس خاتون کے شوہر نے اپنی جیب سے کچھ خطوط نکال کر جج کی میز پر رکھ دیے اور اس سے درخواست کی کہ ان خطوط کو زور سے پڑھ کر سنوایا جائے تاکہ اس کی بیوی بھی سن لے کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا ہے اور یہ بلا سبب ہی بے جا اعتراضات اور جھگڑا کرکے ہر شب مجھے پریشان کرتی ہے۔ جج نے ان خطوں کو پڑھنا شروع کیا، ایک خط میں اوور ٹائم کے متعلق تھا جس کے مطابق اس کو ۴ سے ۸؍بجے بجے رات تک چار گھنٹے اوور ٹائم کرنا تھا۔ آفس کے دوسرے خطوں سے بھی ثابت ہوتا تھا کہ مقررہ اوقات میں مختلف کمیشنوں اور جلسوں میں شریک تھا۔ وہ نوجوان خاتون جج کی میز کے پاس آئی اور ان خطوں کو دیکھنے کے بعد بولی کہ ہر شب جب میرا شوہر سوجاتا تھا تو میں اس کی جیبوں کی تلاشی لیتی تھی لیکن اس میں سے کوئی خط مجھے نہیں ملا۔
جج نے کہا ممکن ہے کہ وہ ان خطوں کو اپنی میز کی دراز میں رکھتا ہو اور گھر نہ لاتا ہو۔ مرد نے کہا کہ اپنی بیوی کی بدگمانیوں سے میں اس قدر پریشان ہوگیا ہوں کہ اکثر راتوں کو سو نہیں پاتا، میں سمجھتا تھا کہ میری بیری میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ اس وقت وہ جوان خاتون اپنے شوہر کے پاس پہنچی اور نہایت بے تابی سے روتے ہوئے اس سے معافی مانگی اور دونوں عدالت سے باہر چلے گئے۔
دانتوں کا ایک ڈاکٹر عدالت میں شکایت کرتا ہے کہ میری بیوی بہت حاسدہے۔ میں دانتوں کا ڈاکٹر ہوں میرے پاس علاج کے لیے عورتیں بھی آتی ہیں اور یہی چیز میری بیوی کے حسد اور جلن کا سبب بنتی ہے اور ہر روز اسی موضوع پر ہمارے درمیان جنگ ہوتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مجھے عورتوں کا علاج نہیں کرنا چاہیے، میں اس کے بے جا حسد کے سبب اپنے پرانے مریضوں کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اپنی بیوی سے محبت کرتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے لیکن اس کی اس بے جا حسدو بدگمانی نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ چند روز قبل اچانک وہ میرے مطب میں آئی اور میرا ہاتھ پکڑکر زبردستی گھسیٹ کر باہر لے گئی۔گھر پہنچ کر ہم میں خوب جھگڑا ہوا۔ اس قضیے کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ میرے مطب آئی اور مریضوں والے کمرے میں ایک لڑکی کے پاس بیٹھ گئی۔ میرے طریقۂ کار کے متعلق باتیں ہورہی تھیں، اس لڑکی نے جو میری بیوی کو پہچانتی نہیں تھی کہا یہ ڈاکٹر بہت اچھا اور بڑا اسمارٹ ہے۔ ایک لڑکی کا یہ کہنااس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا اور وہ مجھ کو ذلت و خواری کے ساتھ کھینچ کر گھر لے آئی۔
اس قسم کے واقعات اکثر خاندانوں میں پیش آتے رہتے ہیں۔ وہ بدقسمت خاندان جو غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ان کی زندگیاں تلخ ہوجاتی ہیں۔ وہ بیچارے معصوم بچے جو اس قسم کی لڑائی جھگڑے اور تناؤ سے بھرے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں، اس برے ماحول کا ان کی روح اور ذہن پر نہایت خراب اثر پڑنا ایک مسلمہ امر ہے۔ اس قسم کا ماحول ان میں اس قدر الجھنیں پیدا کردیتا ہے کہ مستقبل میں ان کا کیا انجام ہوگا معلوم نہیں۔ اگرمیاں بیوی ان حالات پر صبر کرکے زندگی کی گاڑی کو اسی طرح کھینچتے رہتے ہیں تو آخر عمر تک عذاب میں گرفتار رہتے ہیں اور اگر ایک دوسرے کی نسبت سختی اور ضد سے کام لیتے ہیں تو اس کا نتیجہ جدائی اور طلاق ہوتا ہے۔ اس صورت میں عورت اور مرد دونوں ہی کو بدبختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف مرد کو بہت نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ معلوم نہیں آسانی سے دوسری شادی ہوگی یا نہیں۔ فرض کیجیے کسی عورت کا انتخاب کیا تو ضروری نہیں کہ وہ پہلی سے بہتر ہو، ممکن ہے اس میں کچھ دوسرے عیب ہوں، جو شاید بدگمانی کے عیب سے بھی بدترہوں۔ سب سے بڑھ کر بچوں کی خرابی ہے اور وہ دربدر ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑی مشکل جو پیش آتی ہے وہ سوتیلی ماں کا بچوں کے ساتھ سلوک ہے۔ مرد اگر یہ خیال کرتا ہے کہ اس شکی عورت کو طلاق دے کر اس کے شر سے نجات حاصل کرے گا اور بے عیب عورت سے شادی کرکے سکون و آرام کی زندگی شروع کرے گا تو ان کو جان لینا چاہیے کہ یہ محض اس کا خیال خام ہے اور ایسے حالات پیدا ہوجانا بہت بعید ہے۔
عورت کے لیے بھی طلاق لے لینا سکون و خوش بختی کا باعث نہ ہوگا، شاید وہ سوچے کہ اس طریقے سے اپنے شوہر سے انتقام لے گی۔ جی نہیں اس طرح خود اپنے لیے نئی نئی پریشانیاں اور مصیبتیںکھڑی کرلے گی۔ یوں آسانی سے دوسرا شوہر حاصل نہیں ہوجائے گا، شاید ساری عمر بیواؤں جیسی زندگی گزارنی پڑے اور انس و محبت اور بچوں کی نعمت سے محروم ہوجائے۔ بالفرض اگر کوئی امیدوار مل بھی جائے تو معلوم نہیں کہ پہلے شوہر سے بہتر ہوگا۔ ممکن ہے ایسے مرد سے شادی کرنی پڑے جس کی بیوی مرگئی ہو یااسے طلاق دے دی ہو، ایسے حالات میں مجبور ہوگی کہ خود اپنے بچوں کے فراق میں تڑپے اور دوسرے کے بچوں کو پالے۔ اس کے علاوہ کتنی ہی دوسری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا نہ تو آپس میں لڑائی جھگڑے ہی میاں بیوی کو اس مخمصے سے نکال سکتے ہیں اور نہ ہی طلاق اور علیحدگی، البتہ ایک تیسری راہ بھی موجود ہے اور یہ راہ سب سے بہتر اور مناسب ہے۔
وہ تیسری راہ یہ ہے کہ میاں بیوی سختی اور ضد سے کام نہ لے کر عقل و تدبر کا راستہ اختیار کریں، اس سلسلے میں مرد کی ذمہ داری زیادہ ہے بلکہ یو ںکہا جاسکتا ہے کہ اس مشکل کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر ذرا تحمل و بردباری اور صبر ودانشمندی سے کام لے تو خود بھی مصیبت و پریشانی سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اپنی بیمار بیوی کو بھی اس مصیبت سے نجات دلاسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:’’جو مرد اپنی بداخلاق بیوی کا ساتھ نبھاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر صبر کے عوض، حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے ثواب کے برابر ثواب عطا کرتا ہے۔‘‘
اس طرح ہم خواتین سے عرض کریں گے کہ شوہر کی خیانت کا مسئلہ دوسرے تمام موضوعات کی مانند ثبوت و دلائل کا محتاج ہے۔ اس کی خیانت جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہوجائے شرعی اور اصولی طور پر آپ کو اسے موردِ الزام ٹھہرانے کا حق نہیں ہے۔ کیا یہ مناسب ہوگا کہ صرف ایک شبہے میں کسی بے گناہ انسان پر تہمت لگادی جائے اگر دلیل اور ثبوت کے بغیر کوئی آپ پر الزام لگائے تو کیا آپ ناراض نہ ہوں گی؟
خداوند بزرگ و برتر قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ’’اے ایمان دارو! بہت سی بدگمانیوں سے پرہیز کرو کیوں کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں۔‘‘
حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جو شخص کسی مومن مرد یا مومن عورت پر تہمت لگائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو آگ میں ڈال دے گا تاکہ اپنے اعمال کی سزا پائے۔‘‘ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں