خوشگوار ازدواجی زندگی سے متعلق ایک تربیتی پروگرام کے اختتام پر ایک خاتون نے مجھ سے کہا: ’’میری ایک ذاتی پریشانی ہے، میں یہ پریشانی آپ سے بیان کرنا چاہتی ہوں، شاید مجھے کچھ سہارا مل جائے۔‘‘ وہ ایک پچاس سالہ بیوہ خاتون ہے۔ اس کا شوہر جو یونیورسٹی میں استاد تھا تین سال قبل فوت ہوچکا تھا۔ اپنے شوہر کے ساتھ اس خاتون نے پچیس برس گزارے تھے لیکن ان پچیس برسوں میں بہ قول اس کے اس نے کبھی اپنے شوہر سے محبت کاایک لفظ بھی نہیں سنا تھا۔ یہاں تک کہ آخری پندرہ برس انھوں نے اس متفقہ فیصلے پر گزارے کہ دونوں الگ الگ کمرے میں رہیں گے اور یہ کہ ان کی شادی محض سماج کو دکھانے کے لیے رہے گی۔
شوہر کی وفات کے بعد جب یہ عورت گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے ہوائی جہاز سے اپنے وطن کے ہوائی اڈے پر پہنچی تو ایک شخص اس سے قریب ہوگیا جو اس سے عمر میں چند سال بڑا تھا۔ دونوں اپنے اپنے ویزوں پر اپنے وطن کی مہر لگنے کا انتظار کررہے تھے۔ اور بہ مشکل پندرہ منٹ کی گفتگو کے بعد ایک عجیب انہونی بات ہوگئی؛ دونوں ایک دوسرے کے لیے اپنی محبت کااعلان کرچکے تھے۔
وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی پھر گویا ہوئی: ’’میں بالکل رونے کے قریب تھی، شاید آپ کو میرے اس جذباتی اضطراب و بے چینی پر حیرت ہوگی لیکن میں معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں نے اپنی پوری شادی شدہ زندگی میں اپنے شوہر سے کبھی یہ جملہ نہیں سنا کہ ’میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔‘ اپنی زندگی میں پہلی بار میں نے یہ جملہ تقریباً ربع صدی کے بعد اس شخص کی زبان سے سنا تو اس جملے کی تاثیر کی کوئی حد نہیں تھی۔‘‘
شاید اس خاتون کا یہ قصہ زندگی کو خوش گوار بنانے اور جذباتی سکون، جذباتی آسودگی اپنے اندر جو ایجابی تاثیر رکھتی ہے، اس سے واقف کرادے۔ اسی طرح یہ واقعہ شاید ازدواجی تعلقات اور زوجین کے مابین پلنے والی خوشیوں پر جذباتی عدم آسودگی کے پڑنے والے منفی اثرات سے بھی آگاہ کرادے۔ جذباتی عدم آسوودگی، جذباتی خلا کو جنم دیتی ہے، جس کا انجام دو ہی صورتوں میں سامنے آتا ہے، تیسری کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ یا تو یہ کہ آدمی ازدواجی زندگی سے منحرف ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے عافیت میں رکھے۔ یا وہ رنج و الم میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ بیوی کی جذباتی تشنگی مرکزی اور بنیادی ضروریات کی عدم آسودگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے اس عورت کی یہ حالت دیکھی کہ چند منٹوں کے تعارف کے بعد ہی اس نے لفظ ’محبت‘ سنا تو اس کی عقل اور ہوش ٹھکانے نہیں رہے اور اس کے ویران دل میں زبردست ہلچل پیدا ہوگئی۔
لیکن اس کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ شادی تو ہوگئی لیکن اس کا انجام خسران مبین کی شکل میں سامنے آیا۔کیونکہ ہماری شریعت مستقیم نے ازدواجی رشتوں کی دو امیت پر ابھارا ہے، اس لیے میںاپنے دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی بیویوں کو جذباتی آسودگی سے ہم کنار کریں۔ صورت حال یہ ہے کہ اکثر شوہر اس حقیقت سے ہی غافل ہیں، خاص طور سے وہ لوگ جن کے پاس عورت کے مزاج اور طبیعت کی معلومات نہیں ہیں۔ یہ ایسی نازک اندام مخلوق ہے جو جذبات و محبت کی حرارت کی طرف راغب ہوتی ہے۔ اور آپ یہ چیزیں اسے محبت بھری نظروں سے، پیار کے لمس سے اور محبت و چاہت گفتگو سے دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اس سے اپنی محبت کا اظہار کریں، اس کی خوبصورتی اور نسوانیت کی تعریف کریں وغیرہ۔
عورت کی جذباتی آسودگی کے وسائل میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اسے اپنی توجہ و اہتمام اور اس بات کا احساس دلائیں کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں۔ یہ احساس صرف زبان سے ہی نہ دلائیں بلکہ ہر جائز طریقے سے اسے یہ احساس دلائیں کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں۔
مردوں کی جانب سے ایک بڑی بھاری غلطی عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ وہ گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھے چینل تبدیل کرتے رہتے ہیں جبکہ ان کے برابر میں ان کی بیوی بیٹھی ہوتی ہے، لیکن اس کی جانب کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ وہ شوہر سے بات کرتی ہے تو شوہر میاں متوجہ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ شوہر بیوی کے درمیان محبت کی ڈور کو باندھنے والی زبان چشم سے زیادہ کوئی اور زبان بلیغ ترین نہیںہوتی۔ دونوں کے درمیان محبت کو پروان چڑھانے میں جتنا کام نظریں کرتی ہیں کوئی اور چیز نہیں کرتی۔ اسی لیے حوا کی بیٹیوں کی آدم کے بیٹوں سے یہ عام شکایت ہوتی ہے کہ وہ ان سے بات کرتی ہیں لیکن حضرت شوہر ان کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے اور اگر دیکھتے بھی ہیں تو خالی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے آئیڈیل اور نمونہ رسول اللہ ﷺ ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ باقی تمام لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کو محبوب ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا تصور کیجیے کہ جب صحابہ کرامؓ ستاروں کے مانند ماہتابِ رسالتؐ کی مجلس میں بیٹھتے تھے تو ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ اسی سے اللہ کے رسول ﷺ کو سب سے زیادہ محبت ہے۔ اور جب آپؐ اپنی ازواج مطہرات کے درمیان تشریف فرما ہوتے تھے تو ہر زوجہ مطہرہ یہی محسوس کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ ان سے ہی سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور یہ سب اس قدرت، خاصیت محبت و مودت اور شفقت و رحمت کا فیض تھا جس کو آپؐ مہارت کے ساتھ اپنے ہم مجلسوں کی آنکھوں میں منتقل فرمادیتے تھے۔
عورت کی جذباتی آسودگی کا ایک طریقہ اس کے ساتھ تفریح اور کھیل کود بھی ہے۔ یہ ہمارے نبیﷺ کی ہدایت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ’’میں اور رسول اللہ ﷺ ساتھ ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ ہم آگے پیچھے اس برتن میں سے پانی لیتے رہتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ پانی لینے میں مجھ سے پہلی کرلیتے تو میں کہتی: میرے لیے چھوڑیے، میرے لیے چھوڑیے۔‘‘ (متفق علیہ) ’’میرے لیے چھوڑیے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کچھ پانی میرے لیے بھی چھوڑ دیجیے۔
ایک اور چیز جس سے بیوی خوش ہوتی ہے، وہ اچھا محسوس کرتی ہے اور اس کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے، یہ ہے کہ شوہر اس کو چھوئے، خاص طور سے مخصوص ایام میں ایسا کرے، یہ بھی نبی مصطفی ﷺ کا طریقہ ہے۔ جس وقت حضرت عائشہؓ اس حالت میںہوتی تھیں تو آپؐ ان کے برتن میں پانی پیتے اور اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں حضرت عائشہؓ نے پانی پیتے وقت اپنا منہ رکھا تھا۔ جہاں بیٹھ کر وہ پیتیں وہیں بیٹھ کر آپؐ بھی پیتے۔ اس دوران آپؐ ان سے قریب ہوتے اور محبت جتاتے تھے۔
اپنی بیویوں کی جذباتی تسکین و آسودگی کے سلسلے میں حضورؐ کا ایک معمول ان کے ساتھ کھیلنے کا بھی تھا۔ ایک بار اللہ کے رسول ؐ نے حضرت عائشہؓ سے دوڑ کا مقابلہ کیا، جس میں حضرت عائشہؓ آپؐ سے آگے نکل گئیں، اس کے بعد ایک بار پھر یہ مقابلہ ہوا، لیکن اس وقت حضرت عائشہؓ کا وزن بڑھ گیا تھا اللہ کے رسولؐ ان سے بازی لے گئے۔ اس پر آپؐ نے ان سے لطف لیتے ہوئے فرمایا: چلو معاملہ برابر ہوگیا جب تم جیت گئی تھیں اب میں میں جیت گیا۔اسی طرح آپؐ نے ان کو حبشیوں کے کرتب دیکھنے کی اجازت دے دی اور خود بھی دیکھے۔ ہر شخص اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ بیویوں کی جذباتی تسکین کے سلسلے میں وہ کس حد تک رسول اللہ ﷺ کے اس اسوہ کو اپنائے ہوئے ہے۔ آپ سوچیے کہ آپ اپنی بیوی کے ساتھ کتنی بار کھیلے ہیں۔ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کا وقار گر جائے گا اور ایسا کرنا ایک قسم کا لہوولعب ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ ایسے لوگوں کی تصحیح کرتے ہوئے اس تصور کو یوں باطل کرتے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ شئے جس کا تعلق اللہ کے ذکر سے نہیں ہے، لہو و لعب ہے سوائے چار چیزوں کے: ۱- مرد کا اپنی بیوی سے خوش فعلیاں کرنا، اس کے ساتھ کھیلنا ، ۲- آدمی کا اپنے گھوڑے سدھانا…اور ۴- تیراکی سیکھنا۔