ازدواجی زندگی کے لیے دانشمندی کی بات

....

مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی

معاملاتِ من و تو نکل ہی آتے ہیں

اس طرح کی نزاکتوں سے عہدہ برآہونے کے لیے بڑے صبر، سلیقے اور استقلال کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایک صحافی دوست تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک سرکاری افسر سے کردی۔ تھوڑے دن ہنسی خوشی گزرے۔ بعد کو افسر موصوف نے بیگم کو کھانے پکانے کی راہ پر لگانا چاہا۔ وہ نہ مانیں، باورچی رکھنے پر اصرار کرنے لگیں۔ اسی بات پر کھٹ پٹ ہوگئی۔ موصوفہ نے شوہر سے کہا گاڑی کی چابی دیجیے۔ انھوں نے دے دی۔ موصوفہ نے گاڑی نکالی اور فراٹے بھرتی ہوئی اباجی کے گھر جاپہنچیں۔ اپنی ’’بپتا‘‘ سنائی۔ رو رو کر برا حال کرلیا۔ پھر ابا جی سے شکوہ کیا: ’’کیا آپ نے میری شادی مجھے باورچی خانے میں جھونکنے کے لیے کی تھی؟ …باپ نے جنبش کھائے بغیر بیٹی پر نگاہ ڈالی، کوئی جواب نہیں دیا۔ اگلے ہی لمحے ٹیلی فون گھمایا اور داماد سے فرمایا کہ فوراً پہنچو۔ وہ آگئے تو نے بیٹی سے گاڑی کی چابی مانگی۔ موصوفہ نے دے دی۔ انھوں نے چابی کی زنجیر لہرائی اور داماد کے ہاتھ پر رکھ دی۔ پھر فرمایا:

’’جناب! گاڑی میں نے آپ کو دی ہے۔ یہ چابی سنبھالیے اور اسے صرف اپنی تحویل میں رکھیے۔‘‘

اس کے بعد بیٹی سے مخاطب ہوئے:

’’بیٹی! آئندہ اکیلی نہ آنا، ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ آنا۔تم جب بھی ان کے ساتھ آؤگی میرے دل اور مکان کا دروازہ کھلا پاؤ گی، یاد رکھو! تنہا آؤگی تو میرے گھر کے بام و در تمہاری کوئی آواز نہیں سنیں گے۔ تمہارا حلق صداؤں سے اور تمہارے ہاتھ دستکوں سے خالی ہوجائیں گے مگر میرے گھر کا دروازہ بند رہے گا۔‘‘

اس واقعے کے بعد صاحبزادی ایسی سیدھی ہوئیں کہ پھر اپنے میاں سے کبھی نہیں لڑیں اور ان کی زندگی بہت استوار، ہموار اور خوشگوار گزری۔

علامہ عبدالرؤف منادی نے اپنی کتاب ’برالوالدین‘ میں ایک صالح نوجوان کی شادی کا دلچسپ قصہ لکھا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ یہ نوجوان بڑا سمجھدار تھا۔ اس کی شادی ہوئی اور وہ دلہن کو گھر لایا تواول دن ہی محبت کی مٹھاس سے سمجھایا:

’’جانِ من! تم سے شادی ہوگئی۔ تم ہماری ہوگئیںاور ہم تمہارے ہوگئے۔ اب تمہاری دلجوئی مجھ پر فرض ہے۔ میں تمہاری راحت رسانی کے لیے بڑی محنت کروں گا اور ہر مشقت خوشی خوشی جھیلوں گا… مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میں باپ کے ساتھ رہتا ہوں۔ دل و جان سے ان پر فدا ہوں۔ والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا میرا فرض ہے۔ اس فرض کی تکمیل میں تمہیں میرا ہاتھ بٹانا ہوگا۔

دلہن نے شوہر کی ہدایات پر خلوص سے عمل کیا۔ زندگی پھولوں کی طرح مہکنے لگی اور وقت دبے پاؤں آگے بڑھتا چلا گیا۔ ایک دن شوہر گھر آیا تو فضا بدلی ہوئی پائی۔ ماں نے بیٹے سے کسی معاملے پر بہو کی تلخ کلامی کی شکایت کی ۔ صاحبزادے نے تحقیق کی۔ پتہ چلا کہ بیوی کی کوئی خطا نہیں ہے۔ ماں غلطی پر ہیں۔ موصوف نے ماں کو غلطی نہیں جتائی۔ بلکہ ماں کے سامنے بیوی کے خلاف بظاہر تیوریاں چڑھالیں اور پاؤں پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل دئیے۔ کمرے کا دروازہ جان بوجھ کر زور سے بند کیا۔ بیوی کے کان میں چپکے سے چند جملے کہے پھر ڈنڈا سنبھالا اور لپٹے ہوئے بستر پر برسانے لگے۔ اچانک یوں لگا جیسے کوئی کسی کو زدوکوب کررہا ہے۔ موصوف بستر پر ڈنڈا مارتے جاتے تھے اور چلا چلا کر کہتے جاتے تھے، ’’بولو! بولو!!… اب میری ماں سے گستاخی کرو گی؟‘‘

بیوی جھوٹ موٹ زور زور سے رونے لگی۔ ماں نے یہ آہ وبکا سنی تو بے قرار ہوگئیں، لپک کر آئیں۔ صاحبزادے سے فرمایا، دروازہ کھولو…صاحبزادے نے بناؤٹی غصے سے چیخ کر کہا ’’اماں جان! میری بیوی نے آپ سے تلخ کلامی کی ہے اب میں اسے تمیز سکھا کر ہی دم لوں گا۔…‘‘

ماں نے منت سے کہا ’’ارے بیٹے! بیوی کو نہ مارو، دروازہ کھولو!‘‘

صاحبزادے نے تیوری پر دکھاوے کے بل ڈال کر دروازہ کھول دیا۔ ماں لپک کر بہو کی طرف بڑھیں، اسے گلے سے لگایا اور صاحبزادے سے خفا ہوکر فرمایا: ’’میں تو تم سے بہو کی شکایت کرکے پچھتائی۔ تمہیں چاہیے تھا کہ اسے پیار سے سمجھاتے مگر تم نے تو اس کی پٹائی شروع کردی۔ خبردار! اب میری بنو کو کچھ نہ کہنا۔ اب کوئی بات ہوگی تو میں اسے خود ہی پیار سے سمجھا دیا کروں گی۔‘‘

لیجیے قصہ ختم… بیٹے نے خوش تدبیری سے کام لیا تو ماں کا احترام بھی برقرار رہا اور ساس اور بہو میں باہمی محبت کا دریچہ بھی آپ ہی آپ کھل گیا۔ عقل اور حسن نیت میں بڑی کرامتیں پوشیدہ ہیں۔

آپ نے تاریخ اور ادب کی کتابوں میں قاضی شریح کا نام ضرور پڑھا ہوگا وہ تاریخ اسلام کے عظیم فرد ہیں۔ علم و فراست، اور دیانت کی تاریخ میں ان کا نام ابد تک چمکتا رہے گا۔ ان کی شادی کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔ انھوں نے یہ قصہ اپنے دوست شعبیؒ کو سنایا تھا۔ آپ بھی سن لیجیے۔ اور دیکھیے کہ اس چھوٹے سے قصے میں میاں بیوی، سسرال اور میکے والوں کے لیے کتنے قیمتی اور کیسے کیسے راحت بخش سبق چمک رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی دور میں شادیاں کتنی آسانی سے ہوجاتی تھیں اور ہماری معاشرتی زندگی میں برکت اور سعادت کی کیسی بہار آتی تھی!… قاضی شریح فرماتے ہیں:

’’شدید گرمی تھی۔ میں ایک جنازے کی تدفین کے بعد واپس آرہا تھا۔ اچانک پیاس لگی۔ میں ایک بستی سے گزرا۔ وہاں قبیلہ بنی تمیم کے گھرانے آباد تھے۔ ایک گھر کے دروازے پر ایک بڑی بی کھڑی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بھی تھی۔ میں بڑی بی کے پاس گیا اور کہا مجھے شدید پیاس لگ رہی ہے۔ … اس سے پہلے کہ بڑی بی جواب دیتیں لڑکی بول پڑی: آپ کون سا مشروب پسند فرمائیں گے؟

میں نے کہا: جو بھی مل جائے۔

بڑی بی لڑکی سے مخاطب ہوئیں: بیٹی مسافروس کی ضیافت عمدہ سے عمدہ چیز سے کرنی چاہیے۔ جاؤ ان کے لیے دودھ لاؤ۔

وہ لڑکی دودھ لینے چلی گئی۔ او رمجھے بہت بھلی معلوم ہوئی۔ میں نے بڑی بی سے پوچھا: محترمہ! یہ لڑکی آپ کی کیا لگتی ہے؟

’’یہ میرے عزیز جریر کی بیٹی ہے۔ اس کانام زینب ہے۔ ‘‘اس نے کہا۔

میں نے پوچھا: ’’شادی شدہ ہے یا کنواری؟‘‘

’’جی نہیں، ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی۔‘‘

میں نے کہا: ’’کیا آپ پسند فرمائیں گی کہ اس نیک بخت کی شادی مجھ سے کردیں؟‘‘

’’ ہم دیکھیں گے۔ اگر آپ ہماری مناسبت کے ہوں گے تو ضرور کریں گے۔‘‘ وہ بولی۔

وہ لڑکی میرے خیالوں میں جگمگاتی رہی … زندگی کے بعض لمحات بھی کس قدر عجیب ہوتے ہیں جب انسان محسوس کرتا ہے کہ ان لمحات سے عہدہ برآہونے کے لیے قیمتی سے قیمتی متاع بھی قربان کی جاسکتی ہے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ میں مسجد پہنچا۔ نماز پڑھی۔ میرے دوست علقمہ، اسود اور مسیب مسجد میں موجود تھے۔ میں نے انہیں بلایا۔ روداد سنائی اور شادی کے سلسلے میں ان سے مشورہ کرنے لگا انھوں نے کہا، شادی کے لیے دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں:

لڑکی نیک اور دینی تعلیمات پر عمل کرنے والی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عقلمند اور صاحب شعور بھی ہونی چاہیے۔

میںنے کہا: مجھے تو بنی تمیم کی وہ خوبرو لڑکی عقلمند معلوم ہوتی ہے۔

دوستوں نے کہا: ’’سبحان اللہ! آئیے نکاح کا پیغام دے کر آئیں۔ ‘‘ہم سب لڑکی کے چچا کے پاس پہنچے۔ اس نے ہمارا استقبال کیا۔ خوب مدارات کی اور مجھ سے پوچھا فرمائیے: کیسے تشریف لائے؟

میں نے کہا کہ ’’میں آپ کی بھتیجی زینب سے شادی کا آرزو مند ہوں۔ نکاح کا پیغام دینے آیا ہوں۔‘‘

چچا موصوف نے جواب دیا۔ ہم آپ کو جانتے ہیں۔ آپ نیک آدمی ہیں۔ زینب کا نکاح آپ سے کردینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔ بسم اللہ کیجیے۔ اپنی سہولت کا وقت مقرر فرمائیے اور نکاح کرلیجیے۔‘‘

الغرض اس لڑکی سے میرا نکاح ہوگیا۔

میں نے اپنے گھر کا ایک کمرہ اپنی دلہن کے لیے سادگی سے سجادیا۔ رخصتی عمل میں آئی۔ بنی تمیم کی چند خواتین دلہن کو میرے گھر چھوڑ گئیں۔

میں خوشی خوشی دلہن کے کمرے میں گیا تویہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہ وضو کررہی ہے۔ یاد آیا کہ نئی دلہن سے تعارف کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نفل پڑھے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دلہن کے لیے خیر کی دعا کی جائے اور اس کے شر سے پناہ مانگی جائے۔

چنانچہ میں بھی وضو کرنے بیٹھ گیا۔ مصلے پر آیا تو دیکھا کہ وہ نفلوں کی نیت باندھ چکی ہے۔ غرض یہ کہ ہم دونوں نے نوافل ادا کیے۔

اس نے سلام پھیرتے ہی مجھ پر نگاہِ دلنواز ڈالی۔ سلام کیا اور یوں گویا ہوئی:

’’میں اللہ رب العزت کی تعریف کرتی ہوں اور سید البشر حضرت محمد ﷺ اور ان کی آلِ مقدس پر درود بھیجتی ہوں۔ عرض یہ ہے کہ آپ میرے سر کے تاج ہیں۔ مجھ پر اللہ رب العزت کے بعد جس ہستی کی اطاعت سب سے زیادہ واجب ہے، وہ آپ ہی ہیں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے چند ضروری باتیں پہلے ہی صاف صاف عرض کردینی چاہئیں۔ واقعات اور حقائق پیدا نہیں کیے جاتے، دریافت کیے جاتے ہیں۔ میں بعض حقائق جاننا چاہتی ہوں۔ آپ سے ابھی نکاح ہوا ہے۔ مجھے آپ کا مکمل تعارف حاصل نہیں۔ خود میں بھی آپ کے لیے اجنبی ہوں۔ اپنی عادات سے آگاہ فرمائیے۔ پسند و ناپسند اور خوشی و ناخوشی کی ساری تفصیلات بتادیجیے تاکہ میں صرف وہی کام کروں جو آپ کے لیے خوشی کا موجب ہیں اور ان باتوں سے پرہیز کروں جو آپ کے لیے تکلیف کا سبب بنتی ہیں۔

میرے سرتاج! میرے لیے اپنے ہی قبیلے میں نکاح کے مواقع پوری طرح موجود تھے۔ اسی طرح آپ بھی اپنے قبیلے میں شادی کرسکتے تھے۔ لیکن ہم خود مختار کب ہیں؟ تمام امور قادرِ مطلق اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں۔ جب اللہ رب العزت کسی کام کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو وہ کام ہوکر رہتا ہے۔ اب میں آپ کے نکاح میں آگئی ہوں اور آپ کی ہوگئی ہوں تو لازم ہے کہ آپ مجھ سے ٹھیک اسی طرح معاملہ کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ صورتیں صرف دو ہیں:

(۱) مجھے اپنے ساتھ اچھے طریقے سے رکھئے خدا نہ کرے میرا برتاؤ طبع مبارک پر گراں گزرے۔

(۲) مجھے حسن سلوک کے ساتھ خدا حافظ کہیے اور شائستگی سے جدا کردیجیے۔ میں خوبی اور خلوص سے آپ کی خدمت کروں گی اور جواب میں آپ کے خلوص اور شائستگی کی خواستگار رہوں گی۔ بس میری یہی گزارشات ہیں جو تمام ہوئیں۔ اب میں اپنے اور آپ کے لیے حسنِ عمل اور تمام مسلمانوں کے لیے اللہ رب العزت سے بخشش کی دعا کرتی ہوں۔‘‘

اپنی دلہن کی یہ دانشمندانہ باتیں سن کر مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں نے جواب دیا: جان تمنا! میں بھی اللہ رب العزت کی حمد کرتا ہوں اور سید دو عالم حضرت محمد ﷺ اور ان کی آلِ مقدس پر درود بھیجتا ہوں… آپ نے مجھ سے جو باتیں کی ہیں وہ نہایت فرحت بخش اور خدائے ذوالجلال کی رحمت کو کھینچنے والی ہیں اگر آپ ان باتوں پر عمل کرتی رہیں گی تو یہ میری بڑی خوشی نصیبی ہوگی۔

پھر میں نے اپنی پسندیدہ باتیں بتائیں اور نامطلوب باتوں سے بھی آگاہ کردیا۔ میں نے تاکید کی کہ آپ مجھ میں جو اچھی اور پسندیدہ عادت دیکھیں اس کی خوب تشہیر کریں تاکہ نیکی کا نور پھیلے … اور اگر … مجھ میں کوئی برائی نظر آئے تو اس کی پردہ پوشی کیجیے اور یاد رکھئے کہ ہمیں اللہ رب العزت نے ایک دوسرے کا لباس بنایا ہے۔

دلہن کے چہرے پر بشاشت پھیل گئی۔ وہ میری باتیں سنتی جاتی تھی اور مجھ پر اپنی مسکراہٹوں کی شبنم چھڑکتی جاتی تھی… کہنے لگی: آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں۔ آپ بول رہے ہیں اور میں آپ کی باتوں میں اپنے دل کی آواز سن رہی ہوں۔ میں آپ کو کبھی شاکی نہ ہونے دوں گی۔ آپ کی ہدایات کی ہمیشہ پابندی کروں گی… اچھا! یہ بتائیے کہ میرے گھر والوں سے آپ کا کیا معاملہ ہوگا؟ آپ ان کی نسبت کیا چاہتے ہیں؟ اور کیسا معاملہ پسند کرتے ہیں؟

میں نے کہا کہ میں اپنی سسرال والوں سے صرف ایک بات کا خواہشمند ہوں کہ وہ مجھے کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔

دلہن نے کہا: ’’بہت اچھا! اب یہ بتائیے کہ آپ اپنے پاس پڑوس میں کسے پسند کرتے ہیں اور کسے ناپسند کرتے ہیں تاکہ میں گھر میں پڑوس کی انہی خواتین کو داخل ہونے دوں جو آپ کے نزدیک نیک طبع ہیں اور جو ناپسندیدہ ہیں ان سے محتاط رہوں … میں نے پوری تفصیل بتلادی کہ فلاں فلاں قبیلے والے صالح لوگ ہیں اور فلاں فلاں ٹھیک نہیں ہیں۔

حضرت شریح فرماتے ہیں کیا بتاؤں! میری یہ دلہن کس قدر خوش بخت اور کیسی نیک سیرت تھی۔ جب بھی نگاہ پڑتی تھی، مجھے اس کے سادہ حسن میں حیا اور وفا کی ضیا پاشیاں نظر آتی تھیں۔ اس کا اپنے رب سے خاص تعلق تھا۔ جونہی اذان کی آواز آتی، اس کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ وہ فوراً وضو کرتی مصلے پر پہنچتی اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتی تھی۔

خلوص اور خدمت کی زندگی بھی کتنا بڑا شر ف ہے جو اسے میسر آیا اور اللہ کے یہاں اس کا انعام بن گیا۔ حق یہ ہے کہ میں اس کے شکر و سپاس سے کبھی عہدہ برآنہیں ہوسکتا۔ اس نے میرے گھر کو مسرتوں اور برکتوں کا گہوارہ بنادیا۔

ہماری شادی کو ایک سال گزرا تھا۔ ایک دن میں عدالت سے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ میری بیوی کے پاس ایک بڑی بی بیٹھی ہیں۔ وہ اسے اونچ نیچ کی باتیں سمجھا رہی تھیں۔

میں نے بڑی بی کو سلام کیا اور بیگم سے پوچھا یہ خاتون کون ہیں؟

اس نے خوشی سے بھیگے ہوئے لہجے میں بتایا: ’’یہ میری والدہ محترمہ ہیں۔‘‘

میں بہت خوش ہوا۔ اپنی ساس صاحبہ کی خاطر مدارات کرنے لگا۔ انھوں نے مجھے سلام کیا۔ دعا دی اور دریافت فرمایا: آپ نے اپنی بیوی کو کیسا پایا؟

میں نے کہا: الحمدللہ! لاجواب، بے مثال، بہت نیک چلن! بہت مخلص، بہت سگھڑ اور بہت خیر خواہ!! اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے آپ نے اپنی بیٹی کو کتنی نفیس تربیت دی ہے۔ آپ جیسی مائیں کتنی مقدس ہیں جو ایسی نیک چلن حوروں جیسی بیٹیاں جنتی ہیں۔

بعد کو ساس صاحبہ نے مجھے چند نصیحتیں کیں اور پوچھا: کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ آپ کی سسرال والے آپ کے پاس آئیں؟میں نے کہا: کیوں نہیں! بڑی خوشی سے آئیں!

موصوفہ نے کہا: کتنی مدت بعد آیا کریں؟ میں نے کہا: جب جی چاہے۔ بے تکلف تشریف لائیں۔ میری ساس واپس چلی گئیں اور پھر سال بہ سال آتی رہیں۔ انھوں نے مجھے ہمیشہ دعائے خیر سے نوازا اور پرخلوص نصیحتیں کیں۔ کبھی تلخی سے کوئی بات نہیں کی۔ میں ان کے خلوص اور حسنِ کلام کا ہمیشہ معترف رہا۔

شریح کہتے ہیں کہ میری یہ محبوب اور معظم بیوی ۲۰ سال میرے ساتھ رہی۔ بعد کو اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ اس کے مرنے کے دن نہیں تھے۔ ابھی وہ اپنی فطری اور اکتسابی صلاحیتوں سے خیروخوبی کے اثاثوں میں مزید اضافے کرسکتی تھی۔ اس کی موت بہت بڑا سانحہ تھی۔ اس کے اٹھ جانے سے میری زندگی بے نور ہوگئی۔ وہ اس فنا ہوجانے والی دنیا سے رخصت ہوگئی مگر میرے دل کے حجرے میں اب تک مقیم ہے۔ اکثر یہ دلدوز خیال آتا ہے کہ مجھے کتنی بے لوث محبت کی متاع کتنی سستی قیمت پر ہاتھ آئی۔ گاہے گاہے اس کی قبر پر جاتا ہوں۔ درود کی سوغات پیش کرتے کرتے میرے آنسو نکل پڑتے ہیں… وہ منوں مٹی تلے سو رہی ہے۔ پھر بھی یوں لگتا ہے جیسے وہ ابھی کروٹ لے گی اور مجھ سے پوچھے گی:

’’میرے سرتاج! آپ کی کیا خدمت کروں؟‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146