اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے میں اللہ کے رسول ﷺ کی ذات ایک کامل اور اعلی ترین نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔مختلف بیویوں کے درمیان اپنے دنوں کی تقسیم، ان کے درمیان عدل وانصاف حتی کہ لطف و محبت کے معاملے میں بھی پورا پورا انصاف کرنے میں آپ کی زندگی کامل اور بہترین نمونہ ہے۔
آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر روز صبح کے وقت اپنی تمام ازواج کے پاس وعظ و نصیحت کے لیے تشریف لے جاتے اور شام کے وقت ان کی موانست و دلجوئی کے لیے ان کو وقت دیتے تھے۔ ازواج مطہرات کا بھی یہ معمول تھا کہ وہب کسی ایک کے گھر میں جمع ہوجاتیں اور اللہ کے رسول ﷺ وہاں تشریف لاتے ، وہاں رہ کر آپ اپنے ضروری کام نپٹاتے اور اپنی ضروریات اپنے ہاتھوں سے پوری کرتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: ’’ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو بھی کبھی نہیں مارا۔‘‘ وہ کہتی ہیں: ’’ آپ ﷺ انتہائی نرم مزاج اور کریم النفس انسان تھے۔وہ تم جیسے ہی ایک انسان تھے لیکن مسکراتے رہنے والے انسان تھے۔‘‘
آپ ﷺ کا یہ بھی معمول تھا کہ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے کہ سفر میں آپ کے ساتھ کون سی بیوی رہیں گی۔ وفات سے قبل جب آپؐ بیمار پڑے توآپؐ ایک دوسری زوجہ کے گھر میں تھے۔آپ ؐنے اشاروں سے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ حضرت عائشہؓ کے گھر جانا چاہتے ہیں اور جب آپ کی خواہش کو سمجھتے ہوئے تمام ازواج نے اجازت دے دی تو آپؐ حضرت عائشہ ؓکے گھر تشریف لے آئے۔
گروہ بندی اور سوکناپا:
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ کی بیویوںکے دو گروپ تھے۔ ایک گروپ میں حضرت عائشہ، حفصہ، سودہ اور صفیہ رضی اللہ عنہن تھیں تو دوسرے گروپ میں ام سلمہؓ اور دوسری ازواج تھیں۔تمام اہل ایمان یہ بات جانتے تھے کہ اللہ کے رسول ؐ حضرت عائشہؓ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اللہ کے رسول کی خدمت میں کوئی ہدیہ یا تحفہ لے کر حضرت عائشہ ؓکے گھر ہی میں آتے تھے۔ یہ بات دوسری ازواج کے لیے ان سے حسد کا سبب بنی ہوئی تھی، جس کو ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے اپنی زبان سے بیان بھی کر دیا تھا۔
اس سلسلے میں آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے بھی آپؐ سے بات کی۔آپؐ نے ان سے فرمایا:’’بیٹی ! کیا تمھیں وہ بات اچھی نہیں لگتی جو مجھے پسندہے؟ ‘‘ حضرت فاطمہ ؓنے فرمایا:’’ کیوں نہیں ابا جان؟!‘‘ آپ نے فرمایا :’’تو تم بھی عائشہ سے محبت کرو۔‘‘آخر میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں آپ سے بات کی اور بولیں:’’ (اللہ کے رسول!) آپ کی بیویاں بنت ابی قحافہ(حضرت عائشہؓ )کے گھر میں عدل اور انصاف کی اپیل کرتی ہیں۔یہ بات کہتے ہوئے ان کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ اندر بیٹھی ہوئی حضرت عائشہؓ نے ان کی یہ بات سن لی۔انھوں نے اندر سے ہی زینبؓ کی اس بات کا جواب دیا اور انھیں خاموش کر دیا۔حضرت عائشہؓ کا جواب سن کر اللہ کے رسول ﷺنے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا:’’ یہ ابو بکر کی بیٹی ہیں۔‘‘ یعنی عقل و ذہانت میں یہ اپنے والد ہی کی طرح ہیں۔
یہ ممکن تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی خانگی زندگی سے متعلق یہ احادیث اور واقعات آپؐ کے گھر کا راز بن کر رہ جاتیں، لیکن اللہ کے رسولﷺ نے ان کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور لوگوںنے ان واقعات کو روایت در روایت نقل بھی کیا۔ گویا زبان حال یہ اعلان کر رہی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کا گھر دوسرے گھروں ہی کی طرح کا ایک گھر تھا۔آپ کی بیویاں بھی دوسری عورتوں ہی کی طرح تھیں۔ان کے درمیان بھی اختلافات پروان چڑھتے تھے، ان میںبھی گرپ بندیاں ہوتی تھیں۔وہ بھی نبی ؐکے دل پر قبضہ جمانے اور اور آپؐکو صرف اپنی محبت کا حصہ بنانے کی کوشش کرتی تھیں۔
رقابتِ زوجیت:
غیرت اور رقابت کا جذبہ یا صفت ہر مرد اور عورت میںپایا جاتا ہے۔بلکہ عورتوں میں یہ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ خاص طور سے اس وقت جب کہ ایک مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔اگرچہ تمام ازواج مطہرات حضرت عائشہ ؓسے اس بات پر رقابت کا اظہارکرتی تھیں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو ان سب سے زیادہ محبوب ہیں، خودحضرت عائشہ ؓ میں بھی اپنے شوہر نا م دار کے تئیں غیرت ورقابت کا یہ مادہ دوسری ازواج سے زیادہ تھا حتی کہ وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے سلسلے میں بھی اپنی اس رقابت کے اظہار سے نہیں چوکتی تھیں حالانکہ انھوں نے حضرت خدیجہؓ کو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔کتب سیرت و احادیث میں بکثرت ایسی روایات آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ اور دوسری ازواج میں بھی رقابتِ زوجیت کا مادہ پایا جاتا تھا اور اللہ کے رسولﷺ انتہائی بردباری، صبر واستقلال اور نرمی کے ساتھ ان کے اس مرض کا علاج فرمایا کرتے تھے۔
ازواج مطہرات کی جتھ بندی:
یہ معاملہ بھی عورتوں کے جذبہ حسد سے تعلق رکھتا ہے۔آپﷺ کو شہد بے انتہا مرغوب تھا۔ ایک بار حضرت زینب ؓکے پاس کہیں سے شہد آیا۔ آپ حضرت زینبؓ کے گھر تحفے میں آیا ہوا یہ شہد کھانے کے لیے بار بار ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اچھی نہ لگی چنانچہ انھوںنے بعض ازواجِ نبی کے اندر حضرت زینبؓ کے خلاف رقابت پیدا کردی انھوں نے مل کر حضرت زینبؓ کے خلاف ایک سازش رچنے کا پروگرام بنا ڈالا تاکہ آپ حضرت زینبؓ کے گھر شہد کھانے کے لیے تشریف نہ لے جائیں۔انھوں نے یہ طے کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ سے کہیں کہ آپ کے دہانِ مبارک سے بو آتی ہے۔ حضورﷺ بہت نفاست، طہارت اور نظافت پسند تھے۔ آپ کو گوارا نہ تھا کہ آپ کے جسدِ مبارک سے کسی بھی طرح کی کوئی ناخوشگوار بو آئے۔ ازواج مبارک نے بو کی بات کی توآپ نے فرمایا اور تو کوئی وجہ بو کی نہیں ہے۔ میں نے صرف شہد کھایا ہے ممکن ہے مکھی نے کسی ایسے درخت یا پودے سے رس چوسے ہوں جو بودار ہو، اس کی وجہ سے شہد میں بو پیدا ہوگئی ہو۔
آپ نے حضرت زینب کے یہاں جاکر شہد نہ کھانے کافیصلہ کرلیا۔لیکن جب آپ کو ان کی اس چال کا علم ہوا تو آپ نے ان کی اس حرکت پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔(بخاری و مسلم)
اللہ کے رسولﷺ اپنے گھر کے اندر نہایت عسرت اور تنگی کی زندگی گزارا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ ایک روز وہ اللہ کے رسول ﷺکے گھر میں داخل ہوئے اس وقت آپ چٹائی پر آرام فرما تھے جس کی نشانی آپ کے جسدِ مبارک پر نظر آرہے تھے حضرت عمر نے یہ دیکھا تو رونے لگے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا : ’’اے ابن خطاب! تمھارے رونے کی وجہ کیا ہے؟‘‘حضرت عمرؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ بھلا میں کیوں نہ روئوں جب کہ یہ نشان آپ کے پہلو پر نظر آرہے ہیں۔آپ کاتمام تر اثاثہ بھی اس سے زیادہ نہیں جو مجھے نظر آرہا ہے۔جب کہ قیصر اور کسری دنیا کی نعمتوں اور دولت سے مالا مال ہیں حالاں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ کے رسول ؐ نے جواب میں فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کی اچھائیاں اور بھلائیاںانھیں دنیا ہی میں دے دی گئیں۔‘‘[یعنی آخرت میں ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے۔](مسلم، کتاب الطلاق حدیث: ۲۷۰۴، ابن ماجہ ، کتاب الزہد حدیث:۴۱۴۳)
یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب امہات المومنین کا بھی یہ حال تھا کہ وہ خود بھی دنیا اور اس کی زینت کی تلاش میں تھیں تو پھر ان کے زمانے کی اور بعد کے زمانے کی مسلم خواتین کے لیے اسوہ حسنہ کس کا ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کی ازواج مطہرات مختلف قبائل اور مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کی زوجیت میں آئیں تو آپ کی صحبت اور تربیت کا ان پر اثر ہوا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ تنبیہ بھی فرمائی چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آئو، میں تمھیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردوں۔ اور اگر اللہ اور اس کے رسول ؐ اور روزآخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۲۸-۲۹)
اللّٰہ اور رسول کو اختیار کر لیا
اللہ کے رسول ﷺ اپنی بیویوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ لطف وکرم کا معاملہ فرماتے تھے جتنا کوئی عورت تصور کر سکتی ہے اور باوجود یکہ وہ بھی اللہ کے رسولﷺ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں اور نبی کی حیثیت سے اپنے شوہر کی بہت تکریم اور عزت کرتی تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی فطری باہمی رشک و رقابت اور غیرت اس حد تک پہنچ جاتی تھی جس سے اللہ کے رسول کو اذیت محسوس ہوتی تھی حالانکہ ہر بیوی کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کا قلب مبارک صرف اسی کی طرف مائل رہے اور وہ دوسری ازواج کے مقابلے میں آپﷺ سے زیادہ قریب ہو جائے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے جتھے بازیاں بھی کیں، چالیں بھی چلیں، ان رازوں کو بھی افشا کر دیا جن کو راز میں رکھنے کی آپ نے تلقین کی تھی اوراللہ کے رسول سے اپنے نفقے میں اضافے تک کا مطالبہ کر بیٹھیں۔آپ کی ذات وہ تھی جس نے اپنی نیکیوں کا اجر آخرت کے لیے جمع کر رکھا تھا۔آپؐ نے اپنی بیویوں سے ناراضگی کا اظہار کیا، ان سے علیحدگی اختیار کی اور آخر میں انھیں یہ اختیار دے دیا کہ چاہیں حصار زوجیت میں باقی رہ کر دعوت اور امور دعوت کو انجام دیں اورخود کو مومن عورتوں کے لیے اعلی ترین مثال کے طور پر پیش کریں یا طلاق لے کر الگ ہو جائیں۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت آیت اختیار(الاحزاب ۲۸۔۲۹) نازل ہوئی، آپ ؐ نے اس کا آغاز حضرت عائشہ ؓسے کیا۔آپؐ نے ان سے فرمایا:’’اے عائشہ!میں تمھارے سامنے ایک معاملہ رکھنا چاہتا ہوں ، بہتر ہے کہ تم اس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ لینے میں جلد بازی سے کام نہ لو بلکہ پہلے اپنے والد سے مشور ہ کرلو، اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا۔ حضرت عائشہ ؓنے عرض کیا کہ اللہ کے رسول وہ کیا معاملہ ہے؟ جواب میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں بیویوں کو طلاق دینے یا ان کو نکاح میں باقی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ آیت سن کر حضرت عائشہؓ رو پڑیںاور عرض کیا: ’’اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ کے معاملے میںمجھے اپنے والد سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے؟نہیں ، بلکہ میں اللہ ، اس کے رسول اور دار آخرت کو ہی اختیار کروں گی۔اس کے بعد آپ نے اپنی تمام بیویوں کو اختیار دے دیا کہ وہ اپنے لیے جو بہتر سمجھتی ہوں اسے اختیار کرلیں۔مگر تمام ازواج رضی اللہ عنہنّ نے اللہ ، اس کے رسول اور دار آخرت کو ہی اپنے لیے پسندکیا۔
دوگنا اجر
ازواج مطہرات کو اختیار دیے جانے کے بعد اور نبی ﷺ کے ساتھ آپ کی زوجیت میں ہی رہنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ان کے فقر و تنگ دستی ، اور اللہ اور اس کے رسول کے اعتراض پر بہ رضا اور صبر جمیل کی راہ اختیار کرنے پر انھیں کئی گنا اجر کی بشارت دی ۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسولؐکی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے اور ہم نے اس کے لیے رزق کریم مہیا کر رکھا ہے۔ نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو(غیر محرم مردوں سے) دبی زبان سے بات نہ کیاکرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیتِ نبی سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے۔ یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمھارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ۔بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۳۱-۳۴)
ازواج نبی کے مقام و مرتبے کی حفاظت
اصحاب رسول ﷺ میں سے بعض ایسے بھی تھے جو آپ کے گھر کے شایان شان ادب کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے تھے۔کبھی وہ دیر دیر تک آپؐ کی خدمت میں بیٹھے رہ جاتے تھے ۔یہ وقفہ بسا اوقات اتنا طویل ہو جاتا تھا کہ آپ کوفت محسوس کرنے لگتے لیکن انھیں چلے جانے کے لیے کہنے میںحیا و لحاظ داری محسوس کرتے تھے۔آپؐ کا وقت بچانے اور آپ کے گھر اور آپ کی ازواج مطہرات ؓکے مقام و مرتبے کو محفو ظ رکھنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی:
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبی کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو۔ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آئو۔مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جائو، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمھاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ حیا و لحاظ داری کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔نبی کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمھارے اوران کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمھارے لیے یہ ہرگز جائز نہیںہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپائو ، اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔‘‘ (الاحزاب:۵۳)
یہ چیزیں اللہ تعالی نے اس لیے بیان کیں تاکہ اہل ایمان کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کے رسولﷺ کی توقیروتعظیم اور آپؐکی بیویوں کے احترام کے سلسلے میں ان پر کیا کیا چیزیں واجب ہیں تاکہ کسی بھی طرح کے فساد کا دروازہ بند ہو جائے، خاص طور سے ان حالات میں جب کہ منافقین ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔(جیسا کہ واقعہ افک کے معاملے میں وہ لوگ فتنہ کھڑا کر چکے تھے)۔ اسی قبیل کا ایک واقعہ حضرت صفیہ ؓ کا بھی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ رمضا ن کے آخری عشرے میں مسجد میں معتکف تھے۔ ام المومنین حضرت صفیہ ؓ آپ کے پاس کسی کام سے آئیں۔ کچھ دیر آپ سے بات کی اور واپس چلی گئیں۔جب وہ واپس جانے لگیں تو اللہ کے رسولؐ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور مسجد کے دروازے تک انھیں چھوڑنے کے لیے آئے۔جب آپ دروازے پر پہنچے اس وقت وہاں سے انصار کے دو لوگ گزر رہے تھے۔ انھوں آپ کو سلام کیا اور (تیزی سے) نکل گئے۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا: ’’یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ شیطان ہر ابن آدم کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔‘‘[یہ بات آپ نے اس لیے فرمائی کہ کہیں انھیں کچھ اور گمان نہ ہو۔]
مومنوںکی مائیں
اللہ تعائی فرماتا ہے:
النبی اولی بالمؤمنین من أنفسہم و أزواجہ أمہاتہم۔ (الاحزاب: ۶)
’’بلا شبہ نبی تواہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘
یہ قرآن کریم کا وہ بیان ہے جس کی گونج گزشتہ پندرہ صدیوں سے مسلمانوں کے منبر ومحراب سے سنائی دے رہی ہے اور قیامت تک سنائی دیتی رہے گی۔اہل ایمان قرآن کے اس بیان کو سنتے ہیں اور سنتے ہی ان کے دل عظمت وجلال سے بھر جاتے ہیں۔ان پاک خواتین کی عظمت وجلال سے جو سوکناپے میں بھی اور خوشی میں بھی اللہ کے رسول کے ساتھ رہیں،جنھوںنے تنگی اور تکلیف دہ حالات میں بھی اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا، جنھوں نے آپ ﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے نہ صرف یہ کہ تمام اذیتوںاور مشکلات کو برداشت کیا بلکہ اللہ کی راہ میں دعوت کا کام کرتے ہوئے آپؐکو جو تکلیفیں دی گئیں انھیںکم کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔
اللہ تعالی نے ا ن کے گھروں کوآپ ؐ کی زندگی میںمقام رحمت وہدایت اور مقام وحی قرار دیا جہاں آپ پر وحی نازل ہوا کرتی تھی اور جب آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ کے بعد بھی یہ گھر لوگوں کے لیے مرجع بنے رہے ، جہاں لوگ دین کا علم حاصل کرنے اور دین کے مسائل دریافت کرنے یا مدد طلب کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ان گھروں سے پریشان حال لوگوں کو ہدایت نصیب ہوتی تھی، علم کی دولت نصیب ہوتی تھی۔ یہ گھر پناہ طلب کرنے والوں کو پناہ دیا کرتے تھے اور مدد طلب کرنے والوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان طبقہ— اپنے باہمی اختلافات کے باوجود—خلفائے راشدین ہوں یا عام اہل ایمان ، سب اپنی مائوں کے آگے سر خم کیے رہتے تھے۔
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ اور خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا:’’آخرکیا بات ہے کہ آپ کی قوم آپ سے خوش نہیں ہے۔جعل سازوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے۔اس طریقے کو نہ بھولیے جس کو اللہ کے رسول نے بیان کیا ہے۔اس چقماق کو روشن کرنے کی کوشش نہ کیجیے جس نے اپنی روشنی کھو دی ہو۔ جس طرح آپ کے دو ساتھیوں میں اخوت تھی اسی طرح کی اخوت قائم کیجیے۔یہ میرا حق تھا جو میں نے آپ تک پہنچا دیا اور میری اطاعت کرنا آپ کا فرض ہے۔‘‘
اس امت پر اللہ کی ایک خاص رحمت یہ بھی تھی کہ اس نے اللہ کے رسول کے بعدان بیویوںکی زندگیوں کو دراز فرمایا۔ اس دوران انھوں نے اللہ کے رسول ﷺکی سنت اور آپ کے طریقے کا ایک بڑا حصہ امت کو منتقل کیا، خاص طور سے ان امور سے متعلق جن کا تعلق عورتوں سے ہے۔امت کی ان مائوں کے ذریعے سے ہی مسلمانوں کو اللہ کے رسول کی خانگی زندگی کا علم ہوا۔ بعد میں مومنوں کی ان مائوں سے لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ کا وہ طریقہ آگے کی طرف منتقل کیا کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو یہ طریقہ امت کے لوگوں سے اوجھل ہی رہ جاتا۔ان کے گھر دراصل اوپن اسکول تھے جہاں عورتیںاور مرد مل کر دین حق کی تعلیم پایا کرتے تھے۔
رسول اللّٰہ ﷺکے بعد
اللہ کے رسول ﷺ اپنی بیویوں کے معاملات کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔آپﷺ فرمایا کرتے تھے:’’میرے لیے اپنے بعد سب سے زیادہ اہم تمھارے معاملات ہی ہیں۔اور تمھاری طرف وہی لوگ آئیں گے جو صابر ہوں گے۔‘‘(مسند احمد)
زہدوتقوی کے معاملات میں ان سے روایات بیان کی جاتی ہیں۔ مرد وخواتین ان کے پاس اسلام کو جاننے اور دینی مسائل کے حل کے لیے آتے تھے جن کا جواب وہ ان اقوال وافعال کی روشنی میں دیا کرتی تھیں جن کو انھوں نے اللہ کے رسولﷺ سے سنا تھا یا آپؐ کو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ان کی حیثیت امت کی دوسری عورتوں کے لیے اسوہ اور نمونے کی تھی۔ان کی سیرت اور زندگی بہترین زندگی تھی بالکل ایسی جیسی انبیا کی بیویوں کی ہونی چاہیے۔
——