خاندان کی بنیاد نکاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کے بارے میں فرمایا ہے کہ’’ وہ تمہارے لیے لباس ہے اور تم اس کے لیے لباس ہو۔‘‘ اب اس ایک بلیغ جملے پر غور کریں جس طرح بدن کا پوشاک کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا ہے اسی طرح میاں بیوی کا بھی ایک دوسرے کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا ہے۔ جس طرح لباس بدن کو موسم کی سختی اور گرمی سے محفوظ رکھتا ہے یا اس کے اثرات کو روکتا ہے اسی طرح میاں اور بیوی ایک دوسرے کے مصائب کی ڈھال بنتے ہیں۔ ان کی طبیعت کی سختی اور گرمی کو اپنی محبت و ہم رشتگی سے راحت افزا بناتی ہیں۔
جس طرح بدن اور لباس ایک دوسرے کی زیب و زینت کے لیے لازم و ملزوم ہیں اسی طرح میاں اور بیوی بھی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح اچھے لباس سے انسان کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے، اس کی طبیعت میں فرحت اور شگفتگی پیدا ہوتی ہے اسی طرح اچھے شوہر اور بیوی کی وجہ سے ایک دوسرے کے حسن، وقار، اور مقام و مرتبے میں اضافہ ہوتا ہے۔
نکاح کے تین بڑے اور بلند مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ اس سے عفت و عصمت کی حفاظت ہوتی ہے۔ اور انسان شیطان کے پھندوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔(النساء) دوسرا مقصد یہ ہے کہ زوجین کے درمیان الفت و محبت پیدا ہو وہ ایک دوسرے سے سکون و راحت حاصل کریں اور ان کا باہمی تعلق و قتی اور ہنگامی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہو (الروم) تیسرا مقصد اس کے ذریعہ نسل انسانی میں اضافہ ہو۔ مستحکم خاندان و جود میں آئے اور تہذیب و تمدن تشکیل پائے (النحل) بہتر ازدواجی زندگی کی بنیاد نکاح کے لیے انتخاب کے وقت ہی پڑجاتی ہے۔ اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ ’’عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے، اس کی نسبی شرافت کی وجہ سے، اس کے حسن کی وجہ سے، اور اس کے دین کی بنیاد پر۔ تو تم دین دار عورت کو حاصل کرو تمہارا بھلاہو۔‘‘
دراصل اچھی ازدواجی زندگی ہی اچھے خاندان کی بنیاد ڈالتی ہے۔ مضبوط اور مربوط خاندان کے استحکام کے لیے دونوں کو اپنی ذمہ داری مکمل طور پر ادا کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک میں زوجین کے حقوق کی وضاحت فرما دی ہے۔ شوہر کا حق بیوی پر یہ ہے کہ وہ اس کے گھر کی محافظ اور نگراں ہے۔ قرآن میں بیوی کی صفت کو اس طرح پیش کیا گیاہے’’ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعا ر ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی اطاعت اور حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔
خاندان کی مضبوطی اوراستحکام میں ساس اور بہو کے رشتے کا استحکام اور محبت کی بنیاد پر اس کی استواری بھی ضروری ہے۔ بیشتر دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر خاندان میں لوگوں کی لگائی بجھائی کی وجہ سے ساس بہو، نند، دیور، جیٹھ، جیٹھانی، وغیرہ میں جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ اسلام چوں کہ دین حق اور دین فطرت ہے اس لیے یہ اپنے ماننے والوں کو ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے نہایت بلند مقام پر دیکھنا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ انہیں جہاں بہت ساری اخلاقی خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے وہیں اس بات کی بھی ہدایت دیتا ہے کہ ایسے اعمال اختیار کیے جائیں جن سے گھر، خاندان، اور سماج و معاشرے میں بگاڑ اور انتشار پیدا نہ ہوں۔ سورہ حجرات میں ان باتوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے جو افراد کو اخلاقی برائیوں سے بچا کر مضبوط و مستحکم خاندان، سماج اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے قابل بناتی ہیں۔ اس سورہ میں نو باتوں کا ذکر ہے۔ (۱) ناپسندیدہ خبر کی تحقیق کی جائے۔ (۲) باہم صلح کرائی جائے۔ (۳) زندگی میں عدل اختیار کیا جائے۔ یہ تین ایسی باتیں ہیں جنہیں اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور درج ذیل باتوں سے اجتناب کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو انسانی رشتوںاور تعلقات کو تباہ کردیتی ہیں۔ اگر یہ خاندان کے افراد میں سرایت کرجائیں تو اس کے استحکام کو چاٹ جاتی ہیں۔
(۱) ایک دوسرے کا مذاق اڑانا۔ (۲) ایک دوسرے کو طعنہ دینا۔ (۳) برے اور ناپسندیدہ نام سے پکارنا۔ (۴) ایک دوسرے کی غیبت کرنا۔ (۵) کسی کی ٹوہ میں لگنا یا رہنا۔ (۶) ایک دوسرے سے بدگمانی۔
قرآن کریم کا حکم ہے کہ ’’اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہونچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمانی ہو۔‘‘ لیکن اسلام چاہتا ہے کہ یہ کشیدگی کھلی ہوئی لڑائی تک نہ پہنچے اور آپس میں صلح صفائی ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ؛
’’اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ، اگر ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اس کے بعد کہا گیا ہے کہ؛
’’اہل ایمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم پر رحکم کیا جائے۔‘‘
گھر میں ساس بہو کے درمیان جھکڑے کی ایک وجہ ایک دوسرے پر طعنے کسنا اور مذاق اڑانا بھی ہوتا ہے۔ کسی کے خاندان کو چھوٹا، رذیل کہنا اپنے خاندان کو بڑا عزت والا کہنا، یا بہو کے خاندان کی غربت جہالت کو طنز کا نشانہ بنانا وغیرہ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے رشتے میں دراڑ پڑجاتی ہے۔قرآن مجید کے الفاظ دیکھیے؛
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے ہیں، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ نہ عورت دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔‘‘
ساس بہو کا رشتہ:
جیسا کہ ذکر ہوا کہ خاندان کے استحکام میں اس رشتے کی مضبوطی کا بہت اہم رول ہے۔ مگر اکثر اسی رشتے میں کشاکش کے نظارے زیادہ نظر آتے ہیں۔ جب ماں اپنے بیٹے کو صرف اپنی ملکیت سمجھنے لگتی ہے اور بیوی اپنے شوہر کو اس حد تک اپنا بنا نے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ اپنے والدین اور رشتے داروں سے بھی دور ہوجائے تو ایسی صورت میں ایسا منظر نظر آنے لگتا ہے گو یا بیٹا درمیان میں ہے اور اس کا ایک بازو ماں نے پکڑ رکھا ہے اور ایک بیوی نے۔ اور دونوں کے درمیان بیٹا جس تکلیف سے گذرتا ہے اسے کوئی محسوس نہیں کرتا ہے۔
ایک جانب ماں ہے جس کا بیٹا اس کے جسم کا حصہ ہوتا ہے جس کے پاؤں تلے اولاد کی جنت ہے۔ جس کو محبت سے دیکھنا اولاد کے لیے حج کے برابر ثواب کا درجہ رکھتا ہے۔ جو اولاد کے لیے دنیا میں سب سے بہترین سلوک کی مستحق ہوتی ہے، اور جس کی دعاؤں سے اولاد پھولتی پھلتی ہے۔ دوسری جانب بیوی ہے جس کو لباس کہا گیا ہے اور جو اس کی قریب ترین ساتھی ہے۔ دوست ہے، شریک حیات ہے، اور اس کے بچوں کی ماں ہے پھر یہ دونوں محترم ہستیاں آپس میں لڑتی کیوں رہتی ہیں؟ ساس بہو کا جھگڑا کیوں ختم نہیں ہوتا اور کیا وجہ ہے کہ بہو جب خود ساس بنتی ہے تو بہو کے لیے اس کی شفقت اور محبت کی شدّت میں کمی آجاتی ہے؟
اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں عموماً لڑکوں کو بیوی اور ماں کے درمیان توازن رکھنے کی تربیت نہیں دی جاتی ہے۔ وہ یا تو والدین کے ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر بیوی کے، ایسی صورت میں وہ کسی نہ کسی صورت میں ایک کے ساتھ بہرحال ناانصافی کرتے ہیں۔
اگر شوہر بیوی کے حقوق پورے کرتے ہوئے والدین کے حقوق بھی پورے کرے ، دونوں کو اپنی اپنی جگہ اہمیت دے اور اپنے سلوک اور برتاؤ میں توازن رکھے تو خود بھی سکون سے رہ سکتا ہے اور والدین اور بیوی کو بھی شکایات نہ ہوگی۔ اس طرح گھر کا امن بھی برقرار رہے گا۔ اور خاندان بھی مضبوط و مستحکم رہے گا۔
صورت حال تو یہ ہے کہ سماج میں ساس کے کردار کو ہی اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے آئے دن گھر اور خاندان بکھراؤ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس رویہ کو بدلنا ہوگا۔ والدین اپنی بیٹیوں کی تربیت اس طرح کریں کہ اس کے ذہن نشین کرادیں کہ ساس اچھی اور بری دونوں طرح کی ہو سکتی ہے مگر بہو اچھی ہوگی تو وہ اپنے اخلاق سے بری ساس کو بھی اچھی بنالے گی۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسی خاتون جس نے خود بہت سخت اور ظالم قسم کی ساس کے ساتھ زندگی گذاری ہے اور اس کی سختیوں کو جھیلا ہے وہ خود جب ساس بنتی ہے تو اپنے ان دکھ بھرے تجربے کو یاد کرکے اپنی بہو کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کرتی ہے کہ ساس بہو کے کشاکش اور جھگڑے کا تصوّر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس خاتون نے خود اپنی ساس کے ظلم سہے ہیں، اور دکھ بھری زندگی گذاری ہے وہ لاشعوری طور پر اپنی نیک شریف اور معصوم بہو سے اپنی ساس کا بدلہ لینے لگتی ہے۔
کچھ گھرانوں کی ساس اپنی بہو سے یہ توقع رکھتی ہے کہ اس کی بہو اس سے بھی اسی قدر شدّت سے محبت کرے جس طرح وہ اپنے والدین سے کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اکثر اپنی بہو کے سلوک، رویے اور محبت کا مقابلہ اپنی بیٹیوں کی محبتوں سے کرنے لگتی ہے۔ پھر یہ سلسلہ پھیلنے لگتا ہے نند توقع کرتی ہے کہ بھابھی اس سے اپنی بہن جیسی محبت کرے، دیور تصور کرتا ہے کہ بھابھی اس سے اپنے بھائی جیسی محبت کرے، یہ تناؤ اور کشیدگی بڑھتی رہتی ہے اور پھر بہو کی پکار سنائی دیتی ہے کہ کوئی مجھ سے بھی تو میری ماں، بہن، اور میرے بھائی کی طرح سلوک کرے محبت کرے، اس طرح کشاکش اور بڑھ جاتا ہے اور رشتے اس کھینچاتانی میں ٹوٹنے اور چٹخنے لگتے ہیں۔
ساس اور بہو کو اس حقیقت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ خونی رشتوں کا مقابلہ کرنا حقیقت پسندی کے منافی ہے۔ ساس اور بہو کے رشے اور تعلقات کا انحصار ایک دوسرے کے ساتھ سلوک، برتاؤ اور ایثار پر منحصرہے۔ اگر دونوں ایک دوسرے کا مقام تسلیم کریں اور محبت و شفقت اور عزت و احترام سے پیش آئیں ایک دوسرے کی ضروریات اور جذبات و احساسات کا خیال رکھیں اور دکھ سکھ میں شریک رہیں تو یہ رشتہ مضبوط اور مثالی ہو جائے گا۔
سماج اور معاشرے میں خرابیوں کی کئی صورتیں ہیں۔ ان خرابیوں کے درمیان اچھائیوں کو اپنانا اور انہیں زندہ رکھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ گھر اور خاندان کے انتشار میں سماج میں پائی جانیوالی ایک اہم برائی جہیز کا بھی بہت اثر پڑتا ہے۔ جوڑے، کپڑے، سلامی اور دیگر اشیاء اور رسم و رواج کے نام پر شادی کے وقت لین دین کا جو عمل ہوتا ہے اس میں کمی بیشی سے بھی رشتوں میں کھٹاس پیدا ہوتی ہے۔ بہو کم جہیز اور پیسے لائے تو ساس طعنے دیتی ہے، بہو کو کم مہر اور زیورات ملیں تو بہو طعنے دیتی ہے۔ بہو بہت سارا مال و زر جہیز کے نام پر لے کر آئے تو ساس اور دوسرے رشتے داروں کو چھوٹا سمجھتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کے جھگڑے اور فساد کے ہزار طریقے ہیں۔ ان سارے طریقوں کو جو خاندان کو بکھراؤ کی طرف لے جاتے ہیں روکنے کا سب سے اچھا طریقہ آپسی محبت اور اخلاص ہے اور اسلام اسی محبت اور اخلاص و ایثار پر مبنی طرزِ فکر و عمل کی تلقین تمام افرادِ خاندان کو کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی مضبوط و مستحکم خاندان کی کلید ہے جسے اپنا کر ہم خوشگوار خاندان اور مضبوط رشتے بناسکتے ہیں۔