رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’رمضان کا مہینہ وہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ وہ قرآن جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی واضح دلیل اور ہدایت و گمرہی کے درمیان فرق کرنے والی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ اس ماہ کو تمام عظمتیں اور برکتیں اس لیے دی گئیں کہ اس میں قرآن نازل کیا گیا۔ وہ قرآن جو لوگوں کے لیے ہدایت نامہ ہے اور لوگوں کو اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے لائق بناتا ہے۔ چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ اس مہینہ کو شہر القرآن کے طور پر سمجھنا چاہیے اور اپنی زندگی کو قرآن کریم اور اس کے اس پیغام سے وابستہ کرنا چاہیے جسے اللہ تعالیٰ ’’بینّٰت من الہدی والفرقان‘‘ (ہدایت کی روشن دلیل اور اچھائی برائی کے درمیان فرق کرنے والی) قرار دیتا ہے۔
اللہ کے رسول اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام اس مہینہ کو ایک تربیتی کورس کے طور پر گزارتے تھے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قرآن کا علم حاصل کرنے اور عبادت میں لگائے رکھتے تھے۔ خود اللہ کے رسول کا معمول تھا کہ وہ ہر رمضان میں نازل شدہ قرآن کا حضرت جبرئیلؑ کی نگرانی میں ’’دور‘‘ کرتے اور آخری سال تو آپ نے دو مرتبہ ایسا کیا۔ اس کے علاوہ رمضان آتے ہی آپ کے عبادات کے اعمال کئی گنا بڑھ جاتے۔ اس مہینہ میں عبادت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو! ایک بڑی عظمت و برکت والا مہینہ آگیا ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض کردیا ہے۔ اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل کیا ہے۔ جس شخض نے اس مہینے میں اللہ سے قربت کے لیے کوئی نیک کام کیا تو وہ ایسا ہے جیسے عام دنوں میں ایک فرض ادا کیا۔ اور جس نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے عام دنوں میں ستر فرض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ اور یہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔‘‘
رمضان المبارک میں رزق کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ روزی میں برکت عطا کی جاتی ہے اور شیاطین کو قید کرلیا جاتا ہے۔ آپؐ رمضان المبارک کے موقع پر خصوصاً خطبہ دیا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا کامل ایمان واحتساب کے ساتھ تو گویا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
اگر کسی نے رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ کی کیفیت کو اپنے اندر جذب کرلیا تو حقیقت میں وہ قابل مبارک باد ہے اور اس سے زیادہ وہ خوش نصیب شخص اور کون ہوسکتا ہے جس نے رمضان المبارک کے فیوض و برکات کو خوب سمیٹا اور پھر اس سے بقیہ گیارہ مہینے فائدہ اٹھاتا رہا۔
ہم رمضان المبارک کی آمد کا استقبال کرتے ہیں۔ اس عزم و حوصلہ کے ساتھ کہ ہم نماز، روزہ کی پابندی، قیام اللیل، کلام مجید کی تلاوت اس کے معنی و مطلب کو سمجھ کر اور اللہ کے ذکر و اذکار اور عبادات کرتے رہیں گے۔
امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ رمضان المبارک کے پیغام اور اس کی افادیت کو سمجھیں اور ایسی لیاقت پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کا تقاضا ماہِ رمضان کرتا ہے۔ علما، دانشورانِ اسلام، عمائدین و قائدین ملت، بزرگانِ دین اور دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی حکمت و موعظت کے ساتھ رہنمائی و تربیت کریں اور ان کا تعلق نیکی کے کاموں او رمساجد سے جوڑیں۔ محلہ کی سطح پر کمیٹیاں بناکر رمضان المبارک کا استقبال کیا جائے۔ یہ کمیٹیاں غیر مسلم حضرات کو اسلام اور رمضان کی افادیت کو سمجھائیں۔ اور مہینہ بھر کی اس تربیت کی روشنی و ریاضت کے آئینے میں بقیہ مہینے گزارنے کی کوشش کریں چونکہ مسلمان ہفتے، دو ہفتے، مہینہ و سال کا مخصوص فرماں بردار نہیں ہوتا بلکہ اس کی ساری زندگی اللہ کی فرماں برداری اور احکام شریعت کے عین مطابق ہوتی ہے۔ یہی پیغام لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔