استقبالِ رمضان

شیرین عرفان رحمانی، جبل پور

ہر سال ہمارے اوپر رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے، جس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں پر برس رہی ہوتی ہے، نہ ہم اس مہینے کی عظمتوں کو جان سکتے ہیں، نہ ہماری زبان اس کی ساری برکتوں کو بیان کرسکتی ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ہم استقبالِ عید کے لیے رمضان کا پورا مہینہ وقف کردیتے ہیں اور اس مہینہ کی رحمتوں اور برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھاپاتے ہیں۔ آپؐ رمضان سے پہلے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے اس مہینے کی عظمت اور برکت بھی بیان کرتے اور اس کی برکتوں کے خزانوں سے اپنا بھر پور حصہ لینے کے لیے پوری محنت اور کوشش کی تاکید بھی فرماتے۔ آپؐ شعبان کے مہینے سے ہی استقبالِ رمضان کی تیاری شروع کردیتے تھے۔
استقبالِ رمضان کے لیے گھر کو صاف ستھرا کرلینا ہی کافی نہیں۔ گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی روح کی بھی صفائی کرنی چاہیے۔ روح کے اندر گیارہ مہینے میں جو گندگی جمع ہوجاتی ہے اور جو برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں ان کی صفائی بھی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ رمضان کا اصل مقصد ہی روح کو برائیوں سے پاک و صاف کرنا ہے۔ جسم کی صفائی تو وضو اور غسل سے کی جاتی ہے، لیکن روح کی صفائی کا ذریعہ روزہ بتایا گیا ہے۔
اس مہینے کی بے شمار عظمتیں اور برکتیں صرف اس وجہ سے ہیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمیں رحمن اور رحیم کی طرف سے زندگی گزارنے کا طریقہ بتانے والی کتاب نازل ہوئی۔ جو صحیح اور غلط کو پرکھنے کے لیے وہ کسوٹی ہے، جو ہر غلطی اور ٹیڑھ سے پاک ہے جس پر عمل کرکے ہم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہیں اور یہ دنیا اور آخرت میں فلاح کی کنجی ہے۔ یہی قرآن ہمیں روزہ کا مقصد بتاتا ہے ’’تاکہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔‘‘ (البقرۃ:۸۳)
ہمیں اس بات پر غورکرنا ہے کہ ہمیں اس مہینے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے کس اہتمام اور تیاری کی ضرورت ہے، کن کاموں کو سامنے رکھنا ہے اور ان پر توجہ ضروری ہے، وہ کون سے طریقے ہیں، جن پر چلنے سے منزل ہاتھ آسکتی ہے اور کون سا رویہ ہے جس کو اپنا لینے سے منزل کھوٹی ہوجاتی ہے۔
ہم کیاکریں؟
ہم ایسا کیا کریں جس سے کہ ہم اس ماہِ مبارک سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور اس کے روزوں، اس کی تراویح، اس کی تلاوتِ قرآن، اس کی عبادتوں و معمولات اور اس کی راتوں اور اس کے دنوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہوئے تقویٰ کی قوت اور صلاحیت حاصل کرسکیں۔
(۱) نیت اور ارادہ:
رمضان المبارک کے استقبال کے لیے سب سے پہلا کام ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم رمضان کے مقام اس کے پیغام، مقصد اور اس کی عظمت و برکت کے احساس کو اپنے اندر تازہ کریں اور اس بات کی نیت کریں کہ اس مہینے میں ہم جو بھی عمل کریں گے اور جو بھی عبادت کریں گے اس سے ہم اپنے اندر وہ تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزے کا اصل مقصد ہے اور ساتھ ہی اس بات کا ارادہ بھی کریں کہ فرض اور سنت کی پابندی کے علاوہ جو بھی کام اور معمولات ہم اپنے لیے طے کریں اس کو محنت اور پابندی کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ہم اس مہینے سے بھر پور فائدہ اٹھا سکیں۔
اس مقصد کے لیے یہ بہت فائدہ مند ہوگا کہ ہم رمضان آنے سے پہلے کچھ دیر تنہا بیٹھ کر اس مہینے کے معمولات طے کرلیں، اس ماہ کے لیے کوشش اور محنت کے لیے نیت اور مضـبوط ارادہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق اور مدد طلب کریں کہ وہ آپ کاہاتھ پکڑ کر آپ کو اپنی راہ پر چلائے اور ساتھ میں اس حدیث کو یاد رکھیں’’اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے۔‘‘ (بخاری)
(۲) قرآن مجید سے تعلق
دوسرا کام ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اس ماہ میں قرآنِ مجید سے اپنا تعلق اور گہرا کریں اور اپنی زندگی کو قرآن کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس مہینے کا اصل حاصل ہی قرآن سننا، پڑھنا، سمجھنا، سیکھنا اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ ایک طرف جہاں ہمیں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا کہا ہے تو دوسری طرف ہم قرآن کے ذریعے سے اپنے معاملات اور تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
تراویح کی نماز کی پابندی کرنے سے کم از کم ہم ایک بار پورا قرآن سن لیتے ہیں اور اس کا ظاہری اور روحانی فائدہ اپنی جگہ بہت قیمتی ہے۔ لیکن عربی نہ جاننے کی وجہ سے ہم قرآن کے پیغام اور اس کے احکام سے انجان رہتے ہیں، جس سے ہماری زندگیوں میں قرآن کی تلاوت کرنے کے بعد بھی تبدیلی نہیں آتی اور معاملات نہیں سدھرتے ہیں اس لیے اس مقصد کے لیے ہمیں کچھ زیادہ محنت کی ضرورت ہے اس لیے اس ماہ میں قرآن کو ترجمہ سے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس پر غوروفکر و تدبر بھی کریں کیونکہ یہ قرآن کا ایک اہم مقصد بھی قرار دیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ:
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیت میں غور کریں اور عقل رکھنے والے لوگ اس سے سبق لیں۔‘‘ (سورۃص: ۲۹)
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس کتاب سے پوری برکت حاصل کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اس میں تدبر (غوروفکر) تذکر) نصیحت حاصل کرنا) کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں اپنے پسندیدہ بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے:
’’میرے بندے وہ ہیں کہ جب ان کو ان کے رب کی آیات کی تذکیر (نصیحت، یاددہانی) کی جاتی ہے، تو اس پر وہ بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔‘‘
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی ہم قرآن پڑھیں یا سنیں تو اللہ تعالیٰ کی آیات اور ان کی نصیحت کو بہروں جیسا نہ سنیں کہ ادھر سے سن رہے ہیں اور ادھر سے اڑا رہے ہیں یعنی کچھ بھی سمجھ نہیں رہے ہیں یا اندھوں جیسا بھی نہ پڑھیں کہ آنکھوں سے تو پڑھ رہے ہیں لیکن دماغ میں کچھ نہیں آرہا ہے۔
قرآن کو سمجھ کر پڑھنے پر زور دینے کے لیے قرآن میں مختلف آیتیں اور حدیثیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے:
’’آپﷺ نے فرمایا: اے ابوذر! اگر تو روزانہ قرآن کی ایک آیت سیکھ لے (سمجھ کر اس کا مفہوم جان لے) تو یہ سو رکعت نفل پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
رمضان المبارک میں بہت سے لوگ صرف تلاوتِ قرآن میں اتنا مشغول ہوجاتے ہیں کہ وہ کئی کئی دفعہ قرآن ختم کردیتے ہیںلیکن ترجمہ اور تفسیر سے پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتے، چنانچہ یہ لوگ قرآن کے نازل ہونے کے مقصد سے بھی بے خبر ہی رہتے ہیں۔ اس لیے آج سے بلکہ ابھی سے ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے لیے اور اس میں غوروفکر کرنے کے لیے وقت نکالیں اور اس بات کو جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا کہا ہے کس چیز کا حکم دیا ہے اور کس چیز سے منع کیا ہے۔ اس لیے آپ رمضان میں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کریں اور قرآن کی تفسیروں کے ذریعے اسے سمجھنے کی دل و جان سے کوشش کریں۔ رمضان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں تو خیروبرکت کا ذریعہ ہوگا۔
(۳) ذکر
تیسری چیز ہے رمضان میں ذکر کا اہتمام کثرت سے کریں۔ ذکر سے مقصود صرف زبان ہی سے ذکر نہیں ہے بلکہ نماز اور تلاوتِ قرآن، توبہ اور استغفار، درود اور دعا، اللہ تعالیٰ کے ناموں کا ورد اور صبح اور شام کی دعاؤں کا پڑھنا، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غوروفکر کرنا، ذکر کی اعلیٰ ترین صورتوں میں سے ایک ہے۔ طلبِ علم بھی ذکر ہے۔ طلبِ رزق میں حسنِ نیت شامل ہوجائے تو یہ بھی ذکر ہے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ کام جس کے ذریعے رضائے الٰہی مطلوب ہو اور جسے اس یقین کے ساتھ انجام دیا جائے کہ اللہ سے کوئی بات پوشیدہ نہیں اور وہ ہر صورت میں ہمارے حالات اور خیالات سے واقف ہے ذکرِ الٰہی میں شمار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ذکر کی تلقین فرمائی ہے:
’’اے ایمان والو! اللہ کو خوب یاد کرو صبح وشام اس کی تسبیح بیان کرو۔‘‘ (الاحزاب:۴۱-۴۲)
’’اور اللہ کو خوب یاد کرنے والے مردوں اور اللہ کو خوب یاد کرنے والی عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کررکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب:۳۵)
ذکر کے پاکیزہ کلمات
اگر ہم اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے بات کرنے کے دوران اُن الفاظ کو ادا کریں جو ہمیں قرآن و حدیث میں ملتے ہیں تو ہماری زندگی کے بہت سے لمحات ذکرِ الٰہی سے معمور ہوجائیں گے:
(۱) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمام کلموں میں یہ چار افضل ہیں: سبحان اللہ، الحمدللہ، لا الٰہ الا اللہ اور اللہ اکبر۔ (مسلم)
(۲) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں وہ کلمہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں، حضور! ضرور بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔
(۳) آپؐ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر نہایت آسان لیکن میزانِ عمل میں بڑے بھاری ہیں۔ وہ ہیں: سبحان اللہ و بحمدہ ، سبحان اللہ العظیم۔
آدمی اگر اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے اللہ کے ذکر کا اہتمام کرے تو اس کی برکت سے وہ کام بھی عبادت بن جاتے ہیں جو بظاہر دنیا کے کام خیال کیے جاتے ہیں۔
(۴) دعا
قرآن کے مطابق انسان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادت ہے۔ اور حدیث کے مطابق ’’دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے۔‘‘ (ترمذی) لہٰذا انسانوں کے اعمال میں دعا ہی سب سے زیادہ محترم اور قیمتی چیز ہے۔آپؐ نے فرمایا:
٭… ’’تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤں میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعا کریں۔‘‘ (ترمذی)
٭…’’جو اللہ سے نہ مانگے اس پر اللہ ناراض ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
٭…’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو جلد قبول کرلے، اسے چاہیے کہ عیش و راحت کے ایام میں خوب مانگا کرے۔‘‘ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا آسان ترین اور مختصر ترین راستہ یہ ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے۔ دعا کرتا رہے۔ جو دکھ، پریشانی، حاجت ہو بس اللہ سے مانگے۔
رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ روزہ دار کی دعا ردّ نہیں کرتا۔ اس لیے رمضان میں دعاؤں کا خاص اہتمام کریں (خاص کر افطار سے قبل) یہ بھی عبادت کا ایک حصہ ہے اور دعا عبادت ہے۔
(۵) قیام لیل
قیامِ لیل کا مطلب ہے رات میں جاگ کر نماز پڑھنا۔ رمضان المبارک میں تراویح کی نماز قیامِ لیل ہی کے لیے ہے۔ قیام لیل کا دوسرا وقت وہ ہے، جو آدھی رات کے بعد تہائی حصہ میں یعنی سحری کا وقت ہے، اس وقت میں قرآن نے استغفار کرنے کی تاکید کی ہے۔
’’تقویٰ والے وہ لوگ ہیں جو رات کو کم سوتے ہیں اور سحر کو استغفار کرتے ہیں۔‘‘
رات کے اس حصے کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا والوں کے بہت قریب آتا ہے او رپکارتا ہے: کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے جو مانگے وہ دوں۔ کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہے کہ میں اس کو معاف کردوں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ایک روایت میں دل کو تڑپا دینے والے یہ الفاظ ہیں: ’’رات کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو ایسی ذات کو قرض دے ، جو نہ فقیر ہے، نہ ظالم اور صبح تک یہی کہتا ہے۔‘‘ (مسلم)
جب ہر رات سحر کے وقت کی اتنی فضیلت اور اہمیت ہے تو رمضان المبارک میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب ہم سحری میں کھانے کے لیے اٹھ ہی رہے ہیں تو کیوں نہ ہم اپنی طاقت کے مطابق سحری میں تھوڑا پہلے اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرکے اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرکے اس سے معافی طلب کریں، خیروبرکت طلب کریں اور راہِ حق پر جمے رہنے کی آرزو کریں۔ اس میں زیادہ وقت لگائے بغیر آپ سحر کے اس وقت کی لذت پاسکتے ہیں اور رمضان کے بعد بھی اسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔
(۶) شبِ قدر اور اعتکاف
رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کریں۔ یہ وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ یہ رات ہزار مہینوں اور ہزار سالوں سے بہتر ہے۔
’’ہر رات کی طرح اس رات میں بھی وہ گھڑی ہے جس میں دعائیں قبول کرلی جاتی ہیں اور دین و دنیا کی جو بھلائی مانگی جائے وہ عطا کی جاتی ہے۔‘‘ (مسلم)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کو زیادہ سے زیادہ شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور اس عشرہ میں آپ ﷺ خدا کی عبادت کے لیے کمر کس لیتے۔‘‘
چنانچہ ہم بھی اس رمضان المبارک میں کمر کس لیں اور ہمت کریں کہ رمضان کی ہر رات سے زیادہ، آخری عشرہ کی طاق راتیں اللہ کے سامنے نماز، تلاوتِ قرآن، ذکر ودعا اور استغفار میں گزاریں۔ اگر پوری رات ممکن نہ ہوتو آدھی رات کے بعد دو تین گھنٹے ہی گزاریں۔
دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص گھڑی تو ہر رات میں آتی ہے، لیکن شبِ قدر میں اس گھڑی کی شان اور تاثیر ہی کچھ اور ہے اس لیے نہ معلوم وہ گھڑی کون سی ہو۔ اس لیے نبی ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو ایک مختصر مگر جامع دعا سکھائی تھی، جو اس رات میں زیادہ سے زیادہ مانگنے کی ہے۔ آپ بھی ان راتوں میں زیادہ سے زیادہ یہ دعا مانگئے:
اللّہم انک عفو و تحب العفو فاعف عنی۔
’’اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے تو معاف کردے مجھے۔‘‘
آخری عشرہ میں اعتکاف بھی ضروری ہے، جو فرضِ کفایہ ٹھہرایا گیا ہے۔ آپﷺ نے ہمیشہ اعتکاف کیا ہے اور اس کی بڑی تاکید کی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو اللہ کے رسول ﷺ اپنی کمر کس لیتے راتوں کو جاگتے ، اپنے گھر والوں کو جگاتے اور اتنی محنت کرتے جتنی کسی اور عشرہ میں نہ کرتے۔‘‘ (بخاری، و مسلم)
(۷) اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنا
جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ سب کچھ خرچ کرنا وقت بھی اور جسم و جان کی قوتیں بھی، لیکن سب سے بڑھ کر مال خرچ کرنا ہے۔ اس لیے کہ مال دنیا میں لوگوں کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے اور دنیا کی محبت ہی ساری کمزوریوں کی جڑہے۔ اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنے کو متقیوں کی صفت قرار دیا گیا ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ کی راہ میں خرچ یعنی انفاق روزے کے ساتھ مل کر تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش اور بھی زیادہ منافع بخش بنادیتا ہے۔
نبی ﷺ سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اور سخی تھے، لیکن جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا اور آپؐ کی ملاقات جبرئیلؑ سے ہوتی تو پھر آپ کی سخاوت اور انفاق کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ آپ اپنی فیاضی میں بارش لانے والی ہوا کی طرح ہوجایا کرتے تھے۔ قیدیوں کو رہا کرتے اور ہر مانگنے والے کو دیتے۔ (بخاری و مسلم)
اللہ تعالیٰ نے ایک ایک دانے اور ایک ایک پیسے پر جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے کم سے کم سات سو گنا بدلہ و اجر کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جس کو چاہیں گے اس سے مزید بھی دیں گے۔ ایسی تجارت کے لیے اتنے بے پناہ منافع کا ارادہ کرنے والا کاروبار اور کہاں پایا جاسکتا ہے۔ اور اس تجارت کے لیے رمضان سے اچھا موقع اور کون سا ہوسکتا ہے۔ جب فرض ستر گنا بڑھ جاتا ہے اور نفل کا ثواب فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔
اگر ہم رشتے داروں، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کی حاجت روائی کرتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے مگر رمضان المبارک کے موقع پر اپنی مٹھی کھول دیں اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے، غریبوں، محتاجوں، یتیموں، مسکینوں کے لیے جتنا مال بھی نکال سکیں اللہ کی راہ میں نکالیں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کریں۔ جب ہم بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں تو جیب کے معاملے میں بھی کچھ سختی اور تنگی برداشت کریں۔ تاکہ ہمارے غریب بھائیوں کی بھی ضرورتیں پوری ہوسکیں، لیکن جو کچھ بھی دیں وہ اللہ کی رضا کے لیے ہی دیں، کسی سے بدلہ اور شکریہ کی خواہش دل میں نہ ہو۔ قرآن میں ارشاد ہے:
’’ہم نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر۔‘‘
اگرچہ زندگی کے عام دنوں میں بھی ہماری ہر وقت اور ہر لمحہ یہی کوشش اور طلب ہونی چاہیے لیکن رمضان کے مہینے میں خصوصی توجہ اور کوشش بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم جس نیکی سے بھی خدا کے قریب ہونے کی کوشش کریں گے اس کا ثواب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
حرفِ آخر
رمضان المبارک کا مہینہ اسلام کے تربیتی نظام کا ایک اہم ترین جز ہے۔ ہم غوروفکر کرنے پر پاتے ہیں کہ اس پورے مہینے ایک ٹریننگ چل رہی ہوتی ہے جس کا مقصد ہوتا ہے کہ ہر ہر مسلمان کو اسلام کے مطلوبہ معیار کے مطابق ڈھالا جائے۔ یہ ٹریننگ آخر کے دس دنوں میں اپنے عروج پر پہنچ کر ایک انعام (یوم عید سعید) کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اگر اس ماہ مبارک میں اپنائے گئے نظام الاوقات، اچھی عادتوں کا عکس ہم بعد کے گیارہ مہینوں میں نہیں دیکھ پاتے ہیں تو ہم خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہم نے اس مبارک ماہ سے کتنا فائدہ اٹھایا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146